ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی غرض سے چنیوٹ جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ لائل پور سے فون پر یہ روح فرسا خبر ملی کہ جمعیۃ علماء اسلام ضلع لائل پور کے امیر اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد یوسف الحسینیؒ عالم فانی سے رحلت فرما گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنازہ کا جو وقت بتایا گیا اس پر گوجرانوالہ سے لائل پور پہنچنا مشکل تھا اس لیے سیدھا چنیوٹ پہنچ گیا اور قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ کے خطاب سے بہرہ ور ہو کر دوسرے روز ظہر کے وقت برادرم مولانا سعید الرحمان علوی اور برادرم مولانا عزیز الرحمان خورشید مبلغ مجلس تحفظ ختم نبوت کی معیت میں جامع مسجد لائل پور حضرت مفتی صاحبؒ کے صاحبزادگان سے تعزیت کے لیے حاضری دی۔ مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد زبیر الحسینی جو خود بھی اچھا لکھنے والے اور سماجی کارکن ہیں اور حافظ محمد زہیر الحسینی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کچھ دیر تک حضرت مرحوم کے ذکر خیر کی یہ محفل جمی رہی اور پھر دعائے مغفرت پر اختتام پذیر ہوئی۔ چونکہ مجھے مفتی صاحب مرحوم کے فیوضات سے براہ راست بہرہ ور ہونے کا موقع نہیں مل سکا اس لیے اسی محفل کے تاثرات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
مولانا محمد یوسف الحسینیؒ کم و بیش ۷۳ سال قبل ضلع جالندھر کے مشہور شہر نکودر میں پیدا ہوئے، ان کے والد میاں امام الدین صاحب زمیندار تھے۔ مولانا محمد یوسفؒ کو ابتداء سے ہی علم دین کا شوق تھا، مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی حال گوجرانوالہ کی ایک تقریر سے یہ شوق جذبہ کی صورت اختیار کر گیا انہی کے مشورہ سے گھر بار چھوڑ کر کسی کو بتائے بغیر دیوبند چلے گئے۔ تین چار سال تک گھر والوں کو کچھ پتہ نہ چلا، ایک دفعہ بیمار ہوئے تو ساتھیوں اور اساتذہ نے پتہ پوچھ کر گھر اطلاع کر دی تب گھر والوں کو علم ہوا کہ محمد یوسف دارالعلوم میں علم دین حاصل کر رہا ہے۔ ان کے تایا دیوبند سے انہیں واپس لے جانے کے لیے آئے مگر انہوں نے انکار کر دیا، گھر سے خطوط آتے مگر آپ انہیں پڑھے بغیر محفوظ کر دیتے، دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد تمام خطوں کو پڑھا اور اس طویل عرصہ کے دوران کے گھریلو حالات سے آگاہی حاصل کی۔
مولانا مرحوم نے دورۂ حدیث خاتم المحدثین حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے کیا، فراغت کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا اور ٹیچر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ پہلے جموں میں اور اس کے بعد بنگلہ ضلع جالندھر میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی سے بیعت ہوئے۔ حضرت مدنی کا معمول یہ تھا کہ رمضان شریف آسام میں گزارتے تھے۔ مولانا محمد یوسفؒ نے بھی یہ مبارک مہینہ اپنے شیخ کی خدمت میں گزارنے کا معمول بنا لیا اور حضرت شیخؒ کے ساتھ اکثر اسفار میں شامل رہتے۔ سرکاری تعطیلات کا اکثر حصہ بھی حضرت شیخ مدنی کی خدمت میں گزرتا، اس طرح مفتی صاحبؒ نے جی بھر کر اپنے یگانہ روزگار شیخ کے فیوضات سے استفادہ کیا۔
سرکاری ملازمت کے دوران بنگلہ میں قادیانیت کے خلاف تبلیغی محاذ قائم کیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھنے کے لیے شبانہ روز جدوجہد کی۔ اسی دوران ایک قادیانی گھرانہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا جو ان دنوں جڑانوالہ میں آباد ہے۔ قادیانیت کے خلاف سرگرم جدوجہد پر سرکار کی طرف سے بار بار جواب طلبی اور پھر معطلی کا نوٹس ملا۔ حضرت شیخ مدنی نے اپنے مکتوب میں فرمایا کہ ’’اسے مشیت ایزدی سمجھیں اور مشن کو نہ چھوڑیں‘‘۔ چنانچہ آپ نے شیخ کے ارشاد کے مطابق ملازمت کو مشن پر قربان کر کے ایمانی غیرت و حمیت کی لازوال مثال قائم فرمائی۔ مولانا محمد یوسفؒ کی تبلیغی سرگرمیوں کے دوران ایک سکھ نے آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر آپ ہی سے دین کا علم حاصل کیا۔ یہ مولانا ہدایت اللہ نومسلم تھے جو حضرت مدنی سے بیعت ہوئے اور اسلام کے پرجوش مبلغ بنے، گزشتہ سال ان کا انتقال ہوگیا۔ قادیانی خلیفہ حکیم نور الدین کے نواسے اور قرآنی مضامین کے بارے میں شاندار کتاب ’’تسہیل الفرقان‘‘ کے مصنف مولانا ابوالبشیر محمد حسین پالوا کراچی نے بھی آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ الغرض آپ کی تبلیغی خدمات مثبت اور دور رس تھیں۔
مولانا محمد یوسف الحسینیؒ کی شادی بھی عجیب انداز سے ہوئی۔ حضرت مدنی کے قریبی ساتھی حکیم مشتاق احمد سہارنپوری نے بیٹی کے لیے حضرت مدنی سے رشتہ کی تلاش کا ذکر کیا۔ شیخؒ نے فرمایا میری نظر میں ایک مناسب رشتہ ہے، حکیم صاحبؒ فرمانے لگے بس حضرت فیصلہ ہوگیا۔ حضرت مدنی نے مولانا محمد یوسفؒ کو بلایا اور ایک مبارک تقریب میں شادی کی سنت انجام پائی۔ اس تقریب میں امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد الیاسؒ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مدظلہ بھی شریک تھے۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا محمد یوسفؒ اپنے شاگرد مولانا ہدایت اللہؒ نومسلم کی دعوت پر میاں چنوں گئے اور ایک صاحب کے ساتھ اشتراک کر کے کاروبار شروع کر دیا مگر یہ کاروبار انہیں راس نہ آیا اور اس کے خسارے میں گھر کا سامان تک بیچنا پڑ گیا۔ کاروبار کی لائن چھوڑنے کے بعد مولانا غلام حیدر (مبلغ تحفظ ختم نبوت اسلام آباد) کے مشورہ سے لائل پور آگئے اور ایم سی ہائی سکول، پھر سٹی مسلم ہائی سکول میں ملازمت اختیار کر لی جس کا سلسلہ وفات سے سات سال قبل تک جاری رہا۔
۱۹۵۲ء میں مرکزی جامع مسجد میں نائب خطیب کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا، صبح کا درس، فجر اور مغرب کی نماز اور خطیب کی عدم موجودگی میں خطبہ جمعہ آپ کے ذمہ تھا۔ مرض الوفات تک اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا۔ دوسرے مقامات سے لوگوں نے زیادہ تنخواہ اور سہولتوں کی پیشکشیں کیں مگر آپ نے آخر دم تک کوئی پیشکش قبول نہ کی اور اسی مسجد کے جیسے تیسے رہائشی مکان میں زندگی گزار دی۔
اکابر کے ساتھ محبت و عشق تو مولانا مرحوم کو شروع سے تھا اسی جذبہ کے ساتھ اکابر و اسلاف کی یادگار جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ وابستہ رہے۔ لائل پور میں جمعیۃ کی تنظیم نو میں آپ کے فرزند حافظ محمد زہیر الحسینی پیش پیش تھے۔ جمعیۃ کی تنظیم مکمل ہوئی تو مولانا محمد یوسفؒ کو امیر ضلع منتخب کیا گیا اور آخر دم تک آپ امیر ضلع کی حیثیت سے جماعتی کارکنوں کی سرپرستی فرماتے رہے۔
مولانا محمد یوسفؒ کی زندگی سادگی، علم دوستی، وضعداری، مشن کے ساتھ لگاؤ، اکابر سے والہانہ محبت اور دین و ملت کی بے لوث خدمات کا جیتا جاگتا مظہر تھی۔ انہوں نے اپنی اولاد کو بھی اسی رنگ اور سانچہ میں ڈھالنے کی سعی فرمائی۔ مولانا صاحب مرحوم کے چار لڑکے ہیں۔ محمد زبیر الحسینی، محمد زہیر الحسینی، محمد عمیر الحسینی اور حسین احمد۔ اول الذکر دونوں حافظ القرآن ہیں اور زہیر الحسینی صاحب ایک سماجی کارکن اور اچھا لکھنے والے کے طور پر لائل پور کے سماجی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں متعارف ہیں۔ مولانا محمد عمیر الحسینی نے جامعہ مدنیہ لاہور سے دورۂ حدیث کیا، ان کے علاوہ ایک صاحبزادی بھی ہیں جو شادی شدہ ہیں۔
الغرض مولانا محمد یوسفؒ نے ساری زندگی اکابر کی پیروی اور حق و صداقت کی آبیاری میں گزار دی اور اس راہ میں مشکلات و مصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے کہ زمانہ اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے باوجود مرتے دم تک آپ سے اکابر کا دامن اور قافلۂ حق کی رفاقت نہ چھڑا سکا۔ اللہ تعالیٰ انہیں خصوصی رحمتوں اور برکتوں سے نوازیں اور ان کے چاروں بیٹوں کو اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین حق کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔