گوجرانوالہ میرا شہر ہے۔ میرا بچپن، جوانی اور اب بڑھاپا اسی شہر کے در و دیوار سے شناسا چلے آ رہے ہیں۔ میری پیدائش گکھڑ کی ہے، مگر ننھیال گوجرانوالہ شہر میں ہونے کی وجہ سے بچپن کا ایک بڑا حصہ اس شہر کی گلیوں سے مانوس رہا ہے۔ میرے نانا مولوی محمد اکبر مرحوم ریلوے سٹیشن کے قریب رام بستی کی ایک مسجد کے امام تھے۔ صدر محمد ایوب خان مرحوم نے جب ملک میں مارشل لاء لگایا تو اس وقت میری عمر دس برس تھی، مگر مارشل لاء کا رعب و داب، شہر میں صفائی، اشیائے خورد و نوش کی دکانوں پر جالیاں لگوانے اور ناجائز تجاوزات کے خلاف فوجی افسروں کی مہم کا منظر ابھی تک نگاہوں کے سامنے ہے۔ اور یہ واقعہ بھی اس طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اس وقت کے وزیر دفاع جناب محمد ایوب کھوڑو مرحوم کو مارشل لاء کے تحت گرفتار کیا گیا تو روزنامہ ”کوہستان“ لاہور نے ضمیمہ چھاپ کر عوام کو اس کی خبر دی تھی۔ میں نانا کے گھر میں تھا کہ اخبار کے ہاکر نے آواز لگائی کہ کھوڑو صاحب گرفتار کر لیے گئے۔ مجھے نانا مرحوم نے جلدی سے دوڑایا اور میں سڑک سے ان کے لیے ضمیمہ خرید کر لایا، جو اس وقت ایک آنے میں بک رہا تھا۔ اس کے بعد میری تعلیم کا کم و بیش سارا دور گوجرانوالہ میں گزرا۔ تعلیم سے فارغ ہونے پر تدریس اور خطابت کی ذمہ داری بھی اسی شہر میں مل گئی۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کم و بیش نصف صدی کی یادیں ذہن کی سکرین پر قطار باندھے کھڑی نظر آتی ہیں۔
گوجرانوالہ پاکستان کے صنعتی شہروں میں شمار ہوتا ہے، کھاتا پیتا شہر ہے، کھانے پینے والوں کا شہر ہے، پہلوانوں کا شہر ہے، ہنر مندوں کا شہر ہے اور زندہ دلوں کا شہر ہے۔ اس شہر نے آزادی کی جدوجہد میں بھی بھرپور حصہ ڈالا ہے، جس کی ایک جھلک امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں عوام کے اجتماع پر انگریز جرنیل جنرل ڈائر کی وحشیانہ فائرنگ اور سینکڑوں لوگوں کے قتل عام کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی ہنگاموں میں گوجرانوالہ کے کردار میں دیکھی جا سکتی ہے، جس میں ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے برطانوی حکومت کو ۔۔۔۔ قوت استعمال کرنا پڑی تھی اور طیاروں کے ذریعے بمباری کر کے شہر کو جبراً کنٹرول کیا گیا تھا۔
گوجرانوالہ کے نامور ادیب اور پنجابی زبان میں عالمی شہرت کے حامل ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مرحوم نے شہر کی ایک مختصر داستان ”تاریخ گوجرانوالہ“ کے نام سے لکھی ہے۔ گزشتہ روز اس کا مطالعہ کرتے ہوئے تحریک آزادی میں گوجرانوالہ کے مجاہدین کا تذکرہ نظر سے گزرا اور اس شہر کی زندہ دلی کا نقش دل میں مزید گہرا ہو گیا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ جن دنوں جمعیت علمائے ہند اور دیگر سیاسی جماعتوں نے تحریک آزادی کو آگے بڑھانے کے لیے ”ترکِ موالات“ کی تحریک شروع کی، برطانوی حکومت سے تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا، انگریزی فوج میں بھرتی کو حرام قرار دیا گیا، ملازمتوں کو ممنوع قرار دیا گیا اور برادران وطن سے اپیل کی گئی کہ برطانوی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں، تو شہر کے سول سرجن ڈاکٹر محمد عظیم خان نے ملازمت چھوڑ دی اور علی گڑھ چلے گئے۔ مولانا محمد علی جوہر مرحوم اور ان کے رفقاء نے جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹر محمد عظیم خان نے ملازمت کو خیر باد کہا، پنشن بھی چھوڑ دی اور جامعہ ملیہ کے اعزازی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کی وفات ۱۹۶۷ء میں گوجرانوالہ میں ہوئی ہے۔
ایک اور نوجوان کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ ملک عبد الرؤف کشمیری برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ تلاش روزگار کے لیے بیرون وطن گیا اور ۔۔۔۔ کی تحریک میں شامل ہو گیا۔ وہ اس گروپ میں سے تھا، جو جرمنی کے ہیڈ کوارٹر برلن میں بیٹھ کر نازی تحریک کی حمایت سے ہندوستان کی آزادی کا پرچار کیا کرتے تھے۔ ملک عبد الرؤف برلن ریڈیو سے برطانوی استعمار کے خلاف دھواں دھار تقریریں کیا کرتا تھا اور آزادی پسند لوگ بڑے شوق سے اس کی تقریریں ریڈیو کے ذریعے سنا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ سبھاش چندر بوس نے بھی اپنی یادداشتوں میں اس نوجوان کا تذکرہ کیا ہے اور آزادی کے لیے اس کی خدمات کو سراہا ہے۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مرحوم نے شہر کے ایک اور نوجوان کا بھی ذکر کیا ہے۔ محمد خان لوہار برادری سے تعلق رکھتا تھا، برطانوی فوج میں بھرتی ہوا اور ترکی کی فوجوں کے خلاف لڑنے کے لیے اسے عراق بھیج دیا گیا۔ وہاں ایک معرکے میں برطانوی جنرل ٹاؤن سینٹر نے ترک جرنیل عزت پاشا کے ہاتھوں شکست کھائی تو گرفتار ہونے والوں میں محمد خان بھی تھا۔ گرفتاری کے بعد وہ برطانوی فوج سے منحرف ہو کر ترکی کی فوج میں شامل ہو گیا اور محمد بے کے نام سے ترقی کرتے کرتے اہم پوزیشن حاصل کر لی۔ حتیٰ کہ جب خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد یورپ کی اتحادی قوتوں نے استنبول پر قبضہ کیا اور ترکی کو حصے بخرے کرنے کا پروگرام بنایا تو ترکی کی آزادی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں لڑنے والوں میں گوجرانوالہ کا محمد بے بھی شامل تھا۔
علم و دانش کی دنیا میں بھی گوجرانوالہ نے بڑی بڑی شخصیات کو جنم دیا اور تحریک پاکستان میں بھی اس شہر کا کردار بھرپور اور نمایاں رہا۔
یہ باتیں ایک خاص گزارش کی تمہید کے طور پر بے ساختہ نوک قلم پر آ گئی ہیں، ورنہ اس وقت گوجرانوالہ کی تاریخ اور اس کی شخصیات کے حوالے سے کچھ لکھنا مقصود نہیں ہے۔ وہ گزارش یہ ہے کہ پانچ صدیوں سے آباد اس شہر کی موجودہ صورت حال اس کے معاصر شہروں کے مقابلے میں تسلی بخش نہیں ہے۔ جس طرح ایک صنعتی اور کاروباری شہر کے طور پر آج کے حالات کے تناظر میں اسے ہونا چاہیے، وہ حالت نظر نہیں آ رہی ۔ سیالکوٹ گوجرانوالہ سے پرانا تاریخی شہر ہے اور یہاں سے صرف تیس میل کے فاصلے پر ہے۔ وہ بھی گوجرانوالہ کی طرح صنعتی اور کاروباری شہر ہے، لیکن گزشتہ عشرے میں سیالکوٹ نے جو ترقی کی ہے اور اس کی ترقی کے جو مناظر کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہے ہیں، انہیں دیکھ کر گوجرانوالہ شہر کے حوالے سے احساس محرومی مزید بڑھ جاتا ہے۔
سال میں کئی بار سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوتا ہے، وہاں جا کر شہر کی بدلی ہوئی صورت حال دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ شہر کی قیادت اور تاجر و صنعت کار طبقے جس طرح مل جل کر شہر کو بنا سنوار رہے ہیں اور شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں، وہ دیکھ کر رشک آتا ہے۔ مگر جب سیالکوٹ سے اپنے شہر واپسی ہوتی ہے تو دل گھبرانے لگتا ہے، ذہنی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے، شہر کی حالت دیکھ کر پہلے سے زیادہ شرم آنے لگتی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ خود پر غصہ آنے لگتا ہے کہ اس شہر میں رہتے ہیں، شہر کے حوالے سے عزت پاتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور دنیا بھر میں گھومتے ہیں، لیکن شہر کی حالت بہتر بنانے کے لیے کچھ کر نہیں پاتے۔
اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے جب شہر کے ایک معروف سیاسی و سماجی رہنما جناب ایس اے حمید کی طرف سے شہر کے مسائل کے حوالے سے ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت ملی تو بہت خوشی ہوئی۔ ایس اے حمید صاحب کے ساتھ ویسے بھی طبیعت کچھ مانوس ہے۔ وہ دینی مزاج رکھنے والے سیاستدان ہیں، نماز روزے کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں اور دینی اقدار و مسائل کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ پڑھے لکھے سیاستدان ہیں، کوئی بات کہنے یا کام کرنے سے قبل تیاری کرتے ہیں، ہوم ورک کرتے ہیں اور سوچ سمجھ کر کام کا آغاز کرتے ہیں، جو میرے جیسے لوگوں کے لیے بہرحال باعثِ کشش بات ہے۔
ان کے ہاں شہر کی صورت حال کے بارے میں اجلاس ہوا، مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے چند سرکردہ حضرات نے شرکت کی، جن میں گوجرانوالہ چیمبر کے عاصم جاوید باجوہ، پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر میاں زاہد محمود، بار ایسوسی ایشن کے جناب محمد اکرم چوہان ایڈووکیٹ، کلاتھ مارکیٹ کے شیخ عبد الغفور اور ادارہ تعمیرِ اخلاق کے علامہ مطیع اللہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اجلاس میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ شہر کی بیشتر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سیوریج کا نظام مکمل طور پر خراب ہو چکا ہے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ماحول کی آلودگی نے صحت کے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں فیصلہ کیا گیا کہ ”گوجرانوالہ بناؤ تحریک“ کے نام سے شہر کی اصلاح اور تعمیرِ نو کے لیے جدوجہد کی جائے اور شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری پروگرام سامنے لائے جائیں۔
راقم الحروف نے اجلاس کے شرکاء سے گزارش کی کہ یہ تحریک وقت کی ضرورت ہے، شہر اور اس کے باسیوں کا ہم پر حق ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ تحریک خالصتاً شہری بنیاد پر آگے بڑھائی جائے، اس کے لیے شہر کے تمام طبقوں کو اعتماد میں لیا جائے، اسے الیکشن کے جھمیلوں، گروہی سیاست اور مسلکی تفریق سے بالاتر رکھا جائے۔ شہر کی ضروریات اور مسائل کا حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیا جائے، ان کی فہرست بنائی جائے، ترجیحات طے کی جائیں، ایک جامع بریفنگ رپورٹ مرتب کی جائے، کسی امتیاز کے بغیر متعلقہ اداروں، شخصیات اور محکموں سے رابطہ قائم کیا جائے اور انہیں مسائل کے حل کی طرف توجہ دلائی جائے۔
کچھ عرصہ ہوا اسی مقصد کے لیے ہم نے جمعیت علمائے اسلام کی سطح پر ایک فورم ”گوجرانوالہ علماء کونسل“ کے نام سے بنایا تھا، جس کے سربراہ مولانا عبد العزیز چشتی تھے۔ یہ فورم میری دعوت پر میرے گھر میں تشکیل پایا تھا، مگر ہم اس کام کو بوجوہ آگے نہ بڑھا سکے۔ اب اگر ”گوجرانوالہ بناؤ تحریک“ شہر کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کر سکے اور اسے ہم خیال و مخلص دوستوں کی کوئی متحرک ٹیم میسر آ جائے اور اس شہر کی حالت میں سدھار کی کوئی صورت نکل آئے تو ہمیں بے حد خوشی ہو گی۔ اس کارِ خیر کے لیے ہمارا ہر قسم کا تعاون حاضر ہو گا، ان شاء اللہ۔