سانحۂ مستونگ

   
۱۴ مئی ۲۰۱۷ء

کل جمعہ کی نماز کے بعد اس اچانک میسج نے قلب و جگر میں اضطراب اور بے چینی کی شدید لہر دوڑا دی کہ مستونگ میں مولانا عبد الغفور حیدری کے قافلہ پر خودکش حملہ ہوا ہے جس میں دو درجن سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں جبکہ مولانا موصوف اور بہت سے دیگر حضرات زخمی ہوئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ عصر کے لگ بھگ نواحی قصبہ اروپ میں مسجد رحمۃ للعالمین کے سنگ بنیاد کی تقریب تھی اس میں تو شریک ہوگیا مگر رات کو شہر میں ہی ایک اور دینی تقریب میں شرکت کا وعدہ تھا، طبیعت پر حادثہ کے اثر اور غم کی وجہ سے وہاں جانے کا حوصلہ نہ کر سکا اور رات اسی بے چینی میں گزر گئی۔ صبح اخبارات کے ذریعہ تفصیلات معلوم ہوئیں تو مولانا فضل الرحمان کو واٹس ایپ پر ہمدردی اور تعزیت کا پیغام دینے کے بعد دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے قلم ہاتھ میں لیا ہے۔

اضاخیل پشاور کے ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے بعد سے اس بات کا خدشہ اور خطرہ مسلسل محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوگا۔ صد سالہ اجتماع کی بھرپور کامیابی اور اس میں دیے جانے والے واضح پیغام نے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کا قافلہ دینی و قومی تحریکات کے لیے عدم تشدد پر مبنی پر امن جدوجہد کی پالیسی پر نہ صرف قائم ہے بلکہ آئندہ کے لیے اس نے اس کا تسلسل قائم رکھنے کا عزم نو بھی کر لیا ہے۔ اس لیے خیال تھا کہ تشدد کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کے لیے اس کو ہضم کرنا مشکل ہوگا اور وہ اپنے غصے کا کہیں نہ کہیں اظہار ضرور کریں گے۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے اور دستور و ریاست کو چیلنج کرنے کی روش اختیار کرنے والوں سے ابتداء میں ہی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ پاکستان دستوری طور پر ایک اسلامی ریاست ہے اس لیے اس ملک کی حدود کے اندر کسی بھی دینی یا قومی مقصد کے لیے پر امن جدوجہد کا راستہ ترک کرنے اور ہتھیار اٹھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے اور ملک کے جمہور علماء کرام کا متفقہ موقف یہی ہے۔ لیکن اسے خوف یا مصلحت پر محمول کر کے اسے تبدیل کرانے کی مختلف حوالوں سے کوششیں ہوتی رہیں۔ خود میں نے جب ایک ٹی وی چینل پر ایک سوال کے جواب میں کچھ عرصہ قبل یہ کہا کہ پاکستان کی حدود میں نفاذِ شریعت یا کسی بھی دینی و قومی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے تو مجھے یہ پیغام دیا کہ خوف اور مصلحت سے بے نیاز ہو کر حق کی حمایت کریں۔ میں نے اس کے جواب میں دوٹوک عرض کیا کہ بحمد اللہ تعالیٰ زندگی میں کبھی خوف، لالچ یا مصلحت کی بنیاد پر کوئی موقف طے نہیں کیا اور اب بھی اسی بات کو درست کہہ رہا ہوں جسے پورے شرح صدر کے ساتھ شرعاً درست اور ضروری سمجھتا ہوں۔

اس دوران پاکستان کے جمہور علماء کے اجماعی موقف کے دوٹوک اظہار کی وجہ سے حضرت مولانا حسن جانؒ، حضرت مولانا معراج الدینؒ، حضرت مولانا نور محمدؒ اور ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ جیسی قیمتی جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں جبکہ مولانا فضل الرحمان ایک سے زائد بار وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات مزید پختہ ہوتی چلی گئی کہ موقف وہی حق ہے جو پاکستان کے جمہور علماء نے اختیار کیا ہے اور جس کا اظہار اضاخیل کے عالمی اجتماع میں ایک بار پھر کر دیا گیا ہے۔

کافی عرصہ قبل جب ان باتوں کی ابھی شروعات تھیں، راقم الحروف نے چند تحریروں میں یہ عرض کیا تھا کہ اب عالمی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ جہاں جہاں بھی نفاذِ شریعت کی جدوجہد کی فضا موجود ہے وہاں اشتعال انگیز کارروائیوں کے ذریعہ جذباتی عناصر کو سامنے لایا جائے اور ریاستی قوتوں کے ساتھ ٹکرا کر انہیں ختم کر دینے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس موقع پر میں نے یہ مثال بھی ایسے عناصر کے سامنے رکھی تھی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کارنامے پر ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب دیا تھا وہ کسی فوج کو شکست دینے یا کسی علاقے پر قبضہ کر لینے کا نہیں تھا بلکہ ایک لاکھ افراد پر مشتمل لشکر میں پھنسے ہوئے تین ہزار مسلمانوں کو وہاں سے نکال کر بحفاظت مدینہ منورہ واپس لے آنے کا تھا۔ حتی کہ ان واپس آنے والوں کو مدینہ منورہ کے بہت سے حضرات کی طرف سے ’’انتم الفرارون‘‘ (تم بھگوڑے ہو) کا طعنہ بھی دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تم بھگوڑے نہیں ہو بلکہ ’’کرارون‘‘ دوبارہ حملہ کرنے والے ہو۔

مگر جذباتیت اور سطحیت کے ماحول نے کسی کو ان باتوں پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس نے بتدریج دنیائے اسلام کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم نے تو اس وقت یہ بات پاکستان کے تناظر میں عرض کی تھی مگر جب تشدد اور دہشت گردی کی اس نفسیات کا دائرہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں پھیلنا شروع ہوا تو آہستہ آہستہ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ یہ سارا کھیل ’’یار لوگوں‘‘ کا رچایا ہوا ہے کہ جذباتی نوجوانوں کو اشتعال دلا کر سامنے لاؤ اور انہی کی ریاستی قوتوں کے ذریعہ ان کو کچل ڈالو۔ اور اب تو یہ جال اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اگر کچھ لوگ اس سے نکلنا چاہیں تو ان کے لیے اس کا کوئی راستہ موجود نہیں رہا۔

اس پس منظر میں مولانا عبد الغفور حیدری کے قافلے پر اس وحشیانہ اور بزدلانہ حملہ کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ مولانا عبد الغفور حیدری ملک کی اعلیٰ ترین قیادت میں اہل دین کی نمائندگی جس تدبر، حوصلہ اور شرافت کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ ملک و قوم اور حکومت و ریاست کے ساتھ دینی حلقوں کی بے لچک کمٹمنٹ اور ایثار و قربانی کی علامت ہے اور خصوصاً جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے لیے اعزاز و افتخار کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سانحہ جہاں مولانا حسن جانؒ، مولانا نور محمدؒ، مولانا معراج الدینؒ اور ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ کی جانوں کا نذرانہ وصول کرنے والوں اور مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبد الغفور حیدری کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنانے والوں کے لیے پیغام ہے کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے اہل حق کو ان کے موقف سے ہٹایا نہیں جا سکتا وہاں اس میں ایک پیغام ان حلقوں کے لیے بھی ہے جنہوں نے ان قربانیوں کے باوجود میڈیا اور لابنگ کے تمام ذرائع ابلاغ اہل دین کی کردار کشی، مدارس کے خلاف منفی مہم اور سوسائٹی کو دینی روایات و اقدار سے بے گانہ کرنے کے لیے مسلسل وقف کر رکھے ہیں۔ اور اس پیغام کو کم از کم الفاظ میں اس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ’’شرم تم کومگر نہیں آتی‘‘

اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند سے بلند فرمائیں، زخمیوں کو صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور مولانا عبد الغفور حیدری کو صحت و عافیت کے ساتھ قومی قیادت میں اپنا کردار ادا کرتے رہنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter