دینی تعلیمات پر اعتراضات اور ہماری ذمہ داری

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۹ جون ۲۰۲۴ء

(مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ہفتہ وار درس جسے جامع مسجد کے نائب خطیب حضرت مولانا فضل الہادی کے فرزند حافظ فضل اللہ راشدی نے قلمبند کیا ہے۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ الحمد للہ عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے بعد مدارس میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اکثر پورے ملک میں طلباء و اساتذہ گھروں سے واپس آگئے ہیں اور تعلیم کا نظام جاری ہو گیا ہے۔ طلباء کے لیے ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کل عام طور پر آپ سوشل میڈیا پہ جاتے ہیں، بلکہ جانے کی ضرورت نہیں ہے سوشل میڈیا ہر وقت جیب میں پڑا رہتا ہے ’’؏ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘ آج کل جو فتنوں کی بھر مار ہے ان میں یہ ایک مستقل فتنہ ہے۔

کچھ دنوں سے قرآن پاک پر اعتراضات کا ایک نیا سلسلہ دیکھ رہا ہوں۔ اعتراضات ہوں گے تو شکوک و شبہات کی پٹاری کھلے گی۔ اعتراضات، شبہات شکوک اللہ پر ہوں گے، اللہ کے رسول پر ہوں گے، قرآن پر ہوں گے۔ اس مناسبت سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ قرآن پاک پر اعتراضات اس کے نزول کے زمانہ میں بھی ہوتے رہے ہیں، اب تک ہوتے آئے ہیں، آج بھی ہو رہے ہیں، قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن پاک کی مختلف باتوں پر اشکالات کیے گئے ہیں، صحابہ کرامؓ کے سامنے بھی اشکالات آئے ہیں اور حضورؐ سے کیے ہیں۔ صحابہؓ سے لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں اور انہوں نے جوابات دیے ہیں۔

سوال کرنے والے نے سوال پیدا کرنا ہوتا ہے، تو اس میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ بیسویوں سوالات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ ذکر کروں گا جس پر اس زمانے میں بھی اشکال کیا گیا اور آج بھی کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’يا ايھا الذين امنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ظل اذا اھتديتم‘‘ ایمان والو اپنی فکر کرو کوئی گمراہ ہوتا ہے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہے۔ سادہ سا ترجمہ ہے۔ ’’اذا اھتديتم‘‘ تم ہدایت پر قائم ہو تو کسی گمراہ ہونے کا گمراہ ہونا تمہارے لیے کوئی ضرر کی بات نہیں ہے۔

اب اگر یہی مفہوم ہے اس کا جو میں نے ترجمہ کیا ہے تو پھر جہاد کا کیا معنیٰ رہ جاتا ہے؟ اور دعوت و تبلیغ کا کیا معنیٰ رہ جاتا ہے؟ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کیا معنی رہ جاتا ہے؟

یہ اشکال صحابہؓ کے دور میں دونوں حوالوں سے ہوا۔ جہاد کے حوالے سے بھی، دعوت اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی، اور ان کے جوابات دیے گئے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصال کے بعد بیک وقت تین چار محاذوں پر جنگ تھی۔ منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف تھی، منکرین ختم نبوت کے خلاف تھی، مرتدین کے خلاف تھی۔ مختلف محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔

بخاری شریف کی روایت ہے ایک دن خیال آیا یا کسی نے اعتراض کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جمعہ کے خطبہ اس بات کی وضاحت فرمائی

فرمایا: لوگو! قرآن پاک کی اس آیت سے غلط فہمی میں نہ پڑنا یہ صفائی کون دے رہے ہیں؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور خلافت میں اپنی جنگوں کے ماحول میں منبر پہ کھڑے ہو کر خطبے میں فرما رہے ہیں کہ مسلمانو! مغالطوں میں نہ پڑنا۔ اگر صرف اتنی بات ہے کہ اپنا فکر کرو کوئی گمراہ ہوتا ہے ہوتا رہے، تو پھر ہم لوگ کیا کر رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ تمہارے لیے امر بالمعروف بھی ضروری ہے، دعوت و تبلیغ بھی ضروری ہے، جہاد بھی ضروری ہے۔ یہ ’’اذا اھتدیتم‘‘ والی آیت کریمہ تمہارے بارے میں نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، ایک زمانہ ایسا آئے گا جب فتنوں کی اتنی کثرت ہوگی کہ اپنا ایمان بچانا مشکل ہو جائے گا۔ جب اپنا ایمان بچانا مشکل ہو جائے تو پہلے اپنی فکر کرو، پھر دوسروں کے بارے میں فکر کرنا۔ حضرت صدیق اکبر نے ایک پیدا ہونے والے شبہ کا جواب دیا۔

ہمارے ہاں اس کو تعلیمی دنیا میں ’’دفع دخل مقدر‘‘ کہتے ہیں کہ ایک بات سے اشکال پیدا ہو رہا ہے، خیال ہے کہ لوگوں کو یہ مغالطہ ہوگا، از خود محسوس کر کے مغالطے کا جواب دینا۔

ترمذی شریف کی روایت ہے: حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالی عنہ معروف صحابی ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت، قرآن پاک کہتا ہے یا ايھا الذين امنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ظل اذا اھتديتم.اپنی فکر کرو، کوئی گمراہ ہوتا ہے تو تمہیں کیا نقصان ہے۔ اگر بات یوں ہی ہے تو پھر یہ امر بالمعروف کیا ہے؟ نہی عن المنکر کیا ہے؟ اور یہ دعوت و تبلیغ کیا ہے؟

وہ جہاد کے حوالے سے سوال ہوا تھا، یہ امر بالمعروف کے حوالے سے سوال ہوا حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ حضرت اگر اتنی بات یہ ہے کہ اپنی فکر کرنی ہے اور دوسروں کی گمراہی مجھے کوئی نقصان نہیں دیتی تو پھر یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا ہے؟ نیکی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا بھی تو واجب ہے۔ قرآن پاک نے بیسیوں آیات میں کہا ہے امر بالمعروف کرو نہی عن المنکر کرو۔ ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ’’علی الخبیر سقطت‘‘ یہ محاورہ ہے کہ ’’خبردار پر گرے ہو‘‘ یعنی تم نے صحیح آدمی سے پوچھا ہے۔ کوئی اشکال پیش کرنا ہو تو کسی صاحبِ علم پہ کرنا چاہیے، ہر ایک سے نہیں پوچھتے پھرنا چاہیے۔

فرمایا: یہ اشکال خود مجھے ہوا تھا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہی جواب دیا جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کو دیا تھا۔ حضورؐ نے فرمایا: دیکھو یہ تمہارے دور کی بات نہیں ہے، یہ اس دور کی بات ہے جب فتنے اتنی کثرت سے ہوں گے کہ اپنا ایمان بچانا بھی مشکل ہو جائے گا، تو پھر پہلے اپنے ایمان کی فکر کرنا پھر دوسروں کی بات کرنا۔

یہ دو واقعات عرض کر کے میں طلباء سے اور نوجوانوں سے تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:

پہلی بات کہ قرآن پاک پر کوئی اعتراض سامنے آئے تو گھبرانا نہیں، یہ پہلے بھی ہوتے آئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض ہوں گے قرآن پر بھی ہو گا۔ اب تو اعتراضات کی بھرمار ہوگی آپ کے سامنے، تو گھبرانا نہیں۔

دوسری بات کہ جواب اپنی طرف سے نہیں دینا کہ میں یہ سمجھا ہوں۔ نہیں، تلاش کرنا ہے اور معلوم کرنا ہے کہ اس کا کوئی جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے؟ اس کا جواب صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے دیا ہے؟ ائمہ کرامؒ میں سے کسی نے دیا ہے؟ میں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ آج کا کوئی سوال ایسا نہیں ہے جو پہلے نہیں ہوا۔ صحابہؓ کے دور میں، تابعینؒ کے دور میں، اس کے بعد۔ تو تلاش کرنا ہے اور اپنی طرف سے جواب نہیں دینا کہ میں یہ سمجھا ہوں۔

تیسری بات کہ جو سنتِ رسولؐ سے اور صحابہ کرامؓ سے اس کا جواب ملے اس پر قائم ہو جانا اور ڈٹ جانا، ان شاء اللہ العزیز کوئی چیز گمراہ نہیں کر سکے گی۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter