(ماڈل ٹاؤن، ہمک، اسلام آباد میں بعد نماز مغرب جامع مسجد الیاس اور بعد نمازعشاء جامع مسجد رحمانیہ میں درس قرآن کریم کا خلاصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم بھی دیا ہے۔ اور ارشاد فرمایا ہے کہ ”اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول“ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اکرمؐ کی اطاعت کرو۔ اس لیے جہاں اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری ہم پر فرض ہے وہاں جناب نبی اکرم ؐکے احکام کی بجا آوری بھی ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے بہت سے احکام ہمیں قرآن کریم میں براہِ راست دیے ہیں اور بہت سے احکام جناب نبی اکرمؐ کے ذریعے بالواسطہ صادر فرمائے ہیں اور وہ احکام بھی در اصل اللہ تعالیٰ ہی کے احکام ہیں۔
تفسیر قرطبی میں روایت مذکور ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓبیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے احرام باندھا ہوا ہے لیکن احرام کی دو چادروں کے علاوہ کوئی سلا ہوا کپڑا بھی پہن رکھا ہے، حضرت ابن مسعود ؓنے اس کے قریب جا کر اسے بتایا کہ مرد کے لیے احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے۔ اس نے فوراً سوال کر دیا کہ کیا یہ مسئلہ قرآن کریم میں ہے؟ میں کہا کرتا ہوں کہ کوئی ہم جیسا کمزور مولوی ہوتا تو جواب دیتا کہ یہ مسئلہ قرآن کریم میں تو نہیں ہے اور اس پر وہ شخص یہی کہتا کہ مولوی صاحب جاؤ اپنا کام کرو۔ مگر وہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تھے فرمایا کہ ہاں یہ قرآن کریم میں ہے۔ اس نے پوچھا کہ کہاں ہے؟ تو فرمایا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’وما آتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا‘‘ اللہ تعالیٰ کے رسول جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جو چیز نہ دیں اس سے رک جاؤ، اللہ تعالیٰ کے رسول تمہیں جو کچھ فرمائیں اس پر عمل کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو، اور میں نے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مرد کو حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے یہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ مرد حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا نہ پہنے۔
گویا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی قرآنی تعلیمات کا حصہ ہیں، اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللہ رب العزت کے نمائندہ ہیں، اور نمائندہ جو کچھ بھی کہتا ہے اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ اس کی بات اس اتھارٹی کی بات سمجھی جاتی ہے جس کا وہ نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم کے ارشادات اور جناب نبی اکرمؐ کے فرمودات میں اتنا ہی فرق ہے کہ قرآن کریم میں مذکور احکامات اللہ تعالیٰ نے براہ راست ارشاد فرمائے ہیں جبکہ جناب نبی اکرمؐ کے ذریعے بہت سے احکامات بالواسطہ بھی دیے ہیں، اور دونوں قسم کے احکام کی اطاعت مسلمانوں کے ذمہ واجب ہے۔
شریعتِ اسلامیہ کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو قرآن کریم اور حدیث نبوی دونوں پر عمل کرنے سے مکمل ہوتے ہیں ورنہ ادھورے رہ جاتے ہیں اور ان پر عمل مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہی نماز ہے جو ہم نے ابھی تھوڑی دیر پہلے باجماعت ادا کی ہے، قرآن کریم نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اس کی پابندی کی تلقین کی ہے، وقت پر نماز پڑھنے کی تاکید کی ہے، اور نماز میں سستی یا نماز نہ پڑھنے پر جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ سینکڑوں آیات قرآنی میں یہ بات موجود ہے لیکن قرآن کریم میں کسی جگہ بھی یہ بیان نہیں کیا گیا کہ دن میں پانچ نمازیں پڑھنی ہیں، فجر میں دو رکعت فرض ہیں اور مغرب میں تین رکعت فرض ہیں، ایک رکعت میں دو سجدے ہیں اور ایک رکوع ہے اور نماز کی دیگر تفصیلات یہ ہیں۔ اگر قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرمؐ کی سنن و احادیث کو جمع نہ کیا جائے تو سرے سے نماز کی ترتیب ہی قائم نہیں ہو پاتی اور نہ ہی نماز صحیح طور پر پڑھی جا سکتی ہے۔
مسند دارمی کی روایت کے مطابق ایک بار حضرت عمر ان بن حصینؓ سے کسی شخص نے ایک سوال کر کے یہ تقاضہ کیا کہ اس سوال کا جواب قرآن کریم میں سے دیں۔ تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے اس سے پوچھا کہ تم نے فجر کی نماز میں جو دو رکعتیں پڑھی ہیں وہ قرآن کریم میں کہاں ہیں؟
شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جن کا ایک حصہ قرآن کریم میں مذکور ہے لیکن اسی حکم کا دوسرا حصہ ہمیں حدیث و سنت میں ملتا ہے اور دونوں مل کر ایک حکم کو مکمل کرتے ہیں۔ مثلاً سفر میں نماز قصر کرنے کا حکم قرآن کریم میں اس شرط کے ساتھ مذکور ہے کہ ”ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا“ اگر تمہیں خوف ہو کہ دشمن تمہیں آزمائش میں ڈال دے گا یعنی تم پر حملہ کر دے گا تو ”لا جناح علیکم ان تقصروا من الصلوٰۃ“ کوئی حرج نہیں کہ تم نماز میں قصر کر لو اور چار رکعت کی بجائے دو رکعت پڑھ لو۔ اس آیت کریمہ کی رو سے قصر نماز کا حکم حالت خوف اور حالت جنگ کے ساتھ مشروط ہے اور اس میں حالتِ امن میں قصر کی نماز سمجھ میں نہیں آتی۔
چنانچہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حجۃ الوداع سے واپسی پر حضرت عمرؓ نے جناب نبی اکرمؐ سے سوال کیا کہ قرآن کریم نے تو سفر کے دوران اور خوف اور دشمن کے حملہ کے امکان کی صورت میں قصر کی نماز کی بات کی ہے، جبکہ ہم حجۃ الوداع کے سفر میں جو ہمارا انتہائی پر امن سفر ہے اور کسی طرف سے کوئی خوف نہیں ہے، آتے ہوئے اور جاتے ہوئے نماز قصر کرتے جا رہے ہیں۔ جناب نبی اکرمؐ نے اس کا دلچسپ جواب دیا کہ عمرؓ! یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے واپس کیوں کرتے ہو؟ اس کا ترجمہ میں اپنی زبان میں یوں کیا کرتا ہوں کہ اے عمرؓ! ہم حج کے لیے آتے ہوئے اور حج کر کے واپس جاتے ہوئے نماز قصر کرتے جا رہے ہیں، جب اللہ تعالیٰ نے اس پر کچھ نہیں کہا تو تم کیوں بولتے ہو؟
ظاہر بات ہے کہ حالت امن کا یہ قصر جناب نبی اکرمؐ کا عمل ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس پر ٹوکا نہیں اور منع نہیں کیا تو وحی کی خاموشی کی وجہ سے اس عمل نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور مہربانی کا درجہ حاصل کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرما کر ہمیں حالت امن میں بھی قصر نماز کی اجازت دے دی ہے، جسے جناب نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے صدقہ سے تعبیر فرما رہے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ حالت جنگ کا قصر تو قرآن کریم میں مذکور ہے لیکن حالت امن کا قصر جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ میں ملتا ہے اور دونوں قصروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی لیے امت تب سے ان دونوں پر یکساں عمل کرتی آرہی ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں حکم ہے کہ جب آپس میں قرض کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور اس پر گواہ بنا لیا کرو تاکہ بعد میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ اس حکم کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ ”وان کنتم علیٰ سفر ولم تجدوا کاتبا فرھان مقبوضۃ“ اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو قرض کی ضمانت کے لیے کوئی چیز رہن کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو۔
گویا قرآن کریم نے رہن کی اجازت سفر کی حالت میں اور لکھنے پڑھنے کی سہولت میسر نہ آنے کی صورت میں دی ہے، مگر رہن کے احکام حالتِ سفر اور حالتِ قیام دونوں میں جاری ہیں۔ کاتب میسر آنے یا نہ آنے کی دونوں حالتوں میں رہن کی یکساں اجازت ہے اور اس پر چودہ سو سال سے عمل ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالتِ قیام میں اور کاتب میسر ہونے کے باوجود رہن کی بات قرآن کریم میں تو نہیں ہے، یہ کہاں سے آگئی؟ اس پر فقہاء کرامؒ یہی فرماتے ہیں کہ یہ رہن جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ سے ملتا ہے کہ آنجنابؐ نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اور لکھنے کی سہولتیں موجود ہونے کے باوجود ایک یہودی کے پاس زرہ رہن کے طور پر رکھ کر اس سے غلہ ادھار لیا تھا۔ اس طرح رہن کی ایک صورت کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور دوسری صورت جناب نبی اکرمؐ کی سنت میں مذکور ہے، اور احکام کے لحاظ سے دونوں رہنوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں حالتوں میں رہن کے شرعی احکام یکساں طور پر جاری ہوتے ہیں۔
اسی طرح ترمذی شریف کی روایت کے مطابق ایک شخص نے حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ سے سوال کیا کہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ”یا ایھا الذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم“ اے ایمان والو! تم پر اپنا فکر کرنا لازم ہے اگر تم ہدایت پر قائم ہو تو کوئی دوسرا شخص اگر گمراہ ہوتا ہے تو تمہیں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اس آیت کا ظاہری مفہوم یہ بنتا ہے کہ دوسرے لوگ گمراہ ہوتے پھریں تمہیں اس کا کوئی ضرر نہیں ہے، اس لیے تم صرف اپنی فکر کرو۔ اگر اس کا مطلب یہی ہے تو قرآن کریم میں جگہ جگہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جو حکم دیا گیا ہے اور کفر و شرک اور گمراہی سے دوسروں کو بچانے کی جو کوشش اہل ایمان کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟
حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ نے اس سوال کے جواب میں پہلی بات یہ فرمائی کہ ”علی الخبیر سقطت“ تم یہ بات پوچھنے کے لیے خبردار کے پاس آئے ہو، اس لیے کہ یہی سوال میرے ذہن میں بھی آیا تھا اور میں نے جناب نبی اکرمؐ سے پوچھ لیا تھا، آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ امر بالمعروف کرتے رہو اور نہی عن المنکر کا عمل جاری رکھو، ہاں جب ایسا وقت آجائے کہ خود رائی اور خواہش پرستی غالب آنے لگے اور اپنے ایمان کی حفاظت مشکل ہو جائے تو پھر پہلے اپنی فکر کرو۔ گویا صرف اپنی فکر کرنے کا یہ حکم عام حالات میں نہیں بلکہ اس صورت میں ہے کہ جب فتنوں کے ہجوم میں اپنے ایمان کو بچانا مشکل دکھائی دینے لگے تو پھر دوسروں کی فکر کرنے سے پہلے اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرو۔
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قرآن کریم کی مذکورہ آیت کریمہ کے بارے میں اس وضاحت کی ضرورت خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کو بھی پیش آئی تھی جب جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد بہت سے قبیلے مرتد ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ نے ان کی سرکوبی کے لیے مختلف محاذوں پر جہاد کا اعلان کیا تو بہت حضرات کے ذہن میں اسی آیت قرآنی کے حوالہ سے اشکال پیدا ہوا تھا کہ قرآن کریم تو صرف اپنی فکر کرنے کی بات کرتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ دوسروں کے گمراہ ہو جانے کا تم پر کوئی ضرر نہیں ہے تو حضرت صدیق اکبرؓ یہ معرکہ آرائی کیوں کر رہے ہیں؟ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ نے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا کہ لوگو! قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے بارے میں مغالطہ کا شکار نہ ہونا کیونکہ میں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے رہنا، البتہ جب ایسا وقت آجائے کہ خود رائی اور خواہش پرستی کے عروج کے زمانے میں جب اپنا ایمان خطرے میں نظر آنے لگے کہ تو پھر پہلے اپنی فکر کرنا تم پر لازم ہے۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ دین کے احکام قرآن کریم اور حدیث و سنت کو جمع کرنے اور دونوں پر عمل کرنے سے مکمل ہوتے ہیں ورنہ دین ادھورا رہ جاتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول‘‘ اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کی اطاعت بھی کرو۔ بلکہ ایک مقام پر اس سے بھی آگے کی بات فرمائی کہ ’’من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ‘‘ جو رسول اللہ کی اطاعت کرتا ہے اس نے اللہ اطاعت کی۔ اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ہمارے لیے مطاع کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں قرآن کریم کے احکام کی تشریح اور قرآن کریم کی کسی آیت یا جملہ سے اللہ تعالیٰ کی مراد اور منشا بیان کرنے میں اتھارٹی بھی جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی ہے۔
اس طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے احکام کی اطاعت تو اپنی جگہ فرض ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے احکام پر عمل اور ان کی بجاآوری کی عملی صورتیں بھی ہمیں جناب نبی اکرمؐ کے ذریعہ ہی ملتی ہیں اور حضورؐ کی پیروی کے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کی منزل بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت پر صحیح عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔