مولانا محمد امین اورکزئیؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت

   
۲۰ جون ۲۰۰۹ء

میں ابھی تک اس گومگو کی کیفیت میں ہوں کہ مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ کے حوالے سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کس کا ذکر پہلے کروں۔ اول الذکر پاک فوج کے جیٹ طیاروں کی بمباری سے شہید ہوئے ہیں اور ثانی الذکر کو ایک خودکش بمبار نے ان کی قیمتی جان سے محروم کر دیا ہے۔ دونوں کا تعلق دینی مدارس سے تھا اور دونوں دینی تعلیم کے ذریعہ ملک و ملت کی خدمت کر رہے تھے۔ مولانا محمد امین اورکزئی ہنگو میں جامعہ یوسفیہ کے استاذ تھے جبکہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی لاہور میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم تھے۔ ایک دیوبندی مکتب فکر کے بزرگ علماء میں سے تھے جبکہ دوسرے بریلوی مکتب فکر کی صف اول کی قیادت میں شمار ہوتے تھے۔

مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے ابتدائی شاگردوں میں سے تھے۔ ایک عرصہ تک جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھاتے رہے ہیں اور حدیث نبویؐ کی معروف کتاب طحاوی شریف کے شارح بھی تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ان سے کبھی ملاقات ہوئی ہو لیکن ان کے تعارف کے لیے جتنی باتوں کا ذکر ہو چکا ہے اس سے زیادہ کی شاید ضرورت بھی نہیں ہے کہ اتنی سعادتیں بیک وقت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ ایک شریف شہری اور عالم دین کی موت اپنی جگہ مگر یہ تو ایک کہنہ مشق استاذ اور باخدا بزرگ کی شہادت ہے جس کے صدمہ کی کمیت اور کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جانوں سے محروم ہونے والے ملک کے تمام شہری اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، کسی کی موت کا صدمہ کم نہیں ہے، اپنے گھروں سے محروم ہونے والے لاکھوں پر امن شہریوں کی تکالیف و مصائب بھی کچھ کم اذیت ناک نہیں ہیں، اور اس فضا میں ملک و ملت کو درپیش خطرات و خدشات کا ماحول اس سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے مگر مذکورہ بالا دو حضرات کی المناک موت کا گھاؤ شاید کچھ زیادہ ہی گہرا ہے۔

ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے تھا۔ وہ اس مکتب فکر کی مرکزی دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ لاہور کے سربراہ تھے اور اسی مکتب فکر کے دینی مدارس کے ملک گیر وفاق تنظیم المدارس کے ناظم اعلیٰ تھے۔ مسلکی معاملات میں وہ ہمیشہ بے لچک رہے ہیں اور اپنے موقف و جذبات کا اظہار وہ پوری قوت و شدت کے ساتھ کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ مشترکہ دینی و قومی معاملات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اور دینی قوتوں کے باہمی اتحاد و اتفاق کی ضرورت کے کسی موقع پر وہ پیچھے نہیں رہے۔ ان کے والد محترم مولانا مفتی محمد حسین نعیمیؒ کا ذوق بھی یہی تھا اور ملک میں نظام اسلام کے نفاذ، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، دینی مدارس کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشوں کے سدباب، اور دیگر اجتماعی دینی معاملات میں انہوں نے ہمیشہ مثبت اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمیؒ انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ ہم نے ان کے ساتھ مشترکہ معاملات میں بیسیوں اجلاسوں میں شرکت کی اور بہت سے اجتماعات ہم نے جامعہ نعیمیہ میں منعقد کیے۔ جس روز جامعہ نعیمیہ کے دفتر میں ان پر خودکش بم دھماکے کا سانحہ پیش آیا اس روز بھی وہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے فورم پر ایک مشترکہ اجلاس کرنے والے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ ملی مجلس شرعی کے کنوینر تھے جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام شامل ہیں۔

۳۰ مئی ۲۰۰۹ء کو جامعہ نعیمیہ میں ان کی زیرصدارت ملی مجلس شرعی کا اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ

  1. امریکی غلامی سے نجات اور پاکستان سے امریکی مداخلت کے خاتمہ،اور
  2. پاکستان اور خصوصاً اس کے شمالی قبائلی علاقوں میں اسلامی اصولوں اور شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن تحریک منظم کی جائے گی ا ور نفاذ شریعت کے حوالہ سے ایک متفقہ پروگرام سامنے لایا جائے گا۔

جس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہوا اور اس مقصد کے لیے ۱۲ جون کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملی مجلس شرعی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں تحریک کے خدوخال اور پروگرام کا تعین ہونا تھا۔ مجھے بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے میرے لیے اس میں شمولیت مشکل تھی۔ چنانچہ میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف کو اپنی عدم شرکت کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے فون کرنے کا سوچ رہا تھا کہ ایک دوست نے فون پر اس سانحہ کی اطلاع دی کہ اس اجلاس سے چند گھنٹے قبل ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ خودکش حملہ کا شکار ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

شمالی علاقوں اور سوات میں حالیہ فوجی آپریشن کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا موقف ہم سے یقیناً مختلف تھا اور وہ اس کا اظہار بھی شدت کے ساتھ کرتے تھے لیکن ان میں دوسروں کا موقف سننے کا حوصلہ بھی تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے ساتھ اختلاف بھی کیا جا سکتا تھا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پورے اعتماد کے ساتھ بات بھی کی جا سکتی تھی۔

۳۱ مئی کو لاہور میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی نے ’’نفاذ شریعت۔ کیا، کیوں، کیسے؟‘‘ کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد کیا جس میں ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ اور راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ ہم نے اپنے اپنے موقف کا پوری وضاحت کے ساتھ اظہار کیا اور ایک دوسرے کا موقف توجہ کے ساتھ سنا۔ انہوں نے سوات معاہدہ کے بعد بونیر میں طالبان کے مسلح داخلے، مزارات پر قبضے، اور لاش کو قبر سے نکال کر لٹکانے کے واقعات پر تحفظات کا اظہار کیا اور آپریشن کی حمایت کی۔ جبکہ میں نے عرض کیا کہ اس شدت پسندی کی حمایت نہ کرتے ہوئے بھی اسے حکومت کی طرف سے معاہدات کی مسلسل خلاف ورزی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ یہ ردعمل اور ری ایکشن ہے اور مسئلہ کا حل آپریشن نہیں بلکہ مذاکرات اور معاہدات کی پابندی میں ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے رخصت ہوتے وقت مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ ’’مجھے آپ کے موقف سے اتفاق نہیں ہے‘‘۔ یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ ملی مجلس شرعی کے فورم پر اکٹھے بیٹھیں گے تو اس مسئلہ پر ان سے تفصیلی بات ہو جائے گی مگر اس کا موقع ہی نہیں آیا۔

گزشتہ روز مجھے جامعہ نعیمیہ لاہور میں ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ کی شہادت کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے ایک تعزیتی ریفرنس میں شرکت کا موقع ملا، اس موقع پر میں نے جو گزارشات پیش کیں ان کے اہم پہلو درج ذیل ہیں۔

دہشت گردی ہمارے ہاں ایک عرصہ سے جاری ہے۔ ایک زمانے میں اس کا بازار زبان کے مسئلہ پر گرم ہوا، پھر اس نے سنی شیعہ کشمکش کےحوالہ سے دونوں طرف کے سینکڑوں لوگوں کا خون بہایا، یہ دہشت گردی قومیت کے نام پر بھی ہوئی جو اب تک جاری ہے، اور اب یہ دہشت گردی نفاذ شریعت کے نام پر نظر آرہی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم اس ہاتھ کو پہچانیں اور اسے بے نقاب کریں جو ہمیں کسی نہ کسی حوالہ سے لڑاتا رہتا ہے اور اپنے مقاصد پورے کرتا ہے۔ یہ ہاتھ جب تک بے نقاب نہیں ہوگا، دہشت گردی کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا اور یہ خفیہ ہاتھ کسی نہ کسی بہانے ہمارے ہاتھوں ہماری گردنیں کٹواتا رہے گا۔

میرے نزدیک اس وقت ہماری سب سے بڑی قومی ضرورت یہ ہے کہ دہشت گردی کے محرکات اور اسباب و عوامل کی نشاندہی کی جائے اور ایک وائٹ پیپر کی صورت میں قوم کو بتایا جائے کہ زبان، قومیت، فرقہ واریت، اور نفاذ شریعت کے نام پر ہونے والی اس دہشت گردی کے پیچھے کون ہے اور اس کے حقیقی اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اس کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے جو کہ حکومت کو بنانا چاہیے۔ اگر حکومت نہ بنائے تو سپریم کورٹ یہ کمیشن بنائے۔ اور اگر وہ بھی نہ بنائے تو کسی آزاد فورم کو یہ کمیشن بنانا چاہیے جو معروضی حقائق کا جائزہ کر قوم کو اعتماد میں لے اور اصل محرکات کو بے نقاب کرے۔

نفاذ شریعت کے حوالے سے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا وژن وہی ہے جو

  1. قرارداد مقاصد،
  2. علماء کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات،
  3. دستور کی اسلامی دفعات، اور
  4. اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

کی صورت میں ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ تمام مکاتب فکر کے متفقہ فیصلے ہیں اور پارلیمنٹ کی توثیق کے ساتھ قومی فیصلوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے تمام علمائے کرام نے قیام پاکستان کے بعد دستوری جدوجہد اور رائے عامہ کی قوت کے ذریعہ پر امن جدوجہد کو اپنا طریق کار قرار دیا تھا، آج بھی وہ اسی پر متفق ہیں اور اسی کو درست طریق کار سمجھتے ہیں۔ ہم نے ملک میں نفاذ اسلام کے لیے کبھی ہتھیار اٹھانے کی حمایت نہیں کی اور نہ آج اس سلسلہ میں مسلح جدوجہد کو درست سمجھتے ہیں۔ لیکن اصحاب فکر و دانش کو اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دستوری اور سیاسی جدوجہد کے ذریعہ نفاذ اسلام کا راستہ روک دیے جانے اور اس سلسلہ میں قومی فیصلوں پر عملدرآمد سے مسلسل گریز کے ردعمل میں کچھ لوگوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہوں؟ آخر ساٹھ سال تک ان قومی فیصلوں پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ خاص طور پر سوات کے بارے میں ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ اگر ۱۹۹۴ء میں سوات کے عوام کے ساتھ نفاذ شریعت کے بارے میں کیے جانے والے معاہدے پر عمل کیا جاتا تو آج کے حالات یقیناً پیدا نہ ہوتے۔ اس وقت تو طالبان کا دور دور تک کوئی نشان موجود نہیں تھا۔

پھر ہمیں اس صورتحال کو بین الاقوامی تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا اور اس خطہ کے بارے میں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کے پس منظر میں اس کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہم اس عالمی تناظر سے الگ کر کے نہ اپنے مسائل کو صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی حل نکال سکتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter