صدر ٹرمپ اور شریعتِ اسلامیہ

   
۲۸ ستمبر ۲۰۲۵ء

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لندن کے مسلمان میئر صادق خان کا ذکر کرتے ہوئے یہ شوشہ چھوڑا کہ وہ لندن میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، جس پر مختلف حلقوں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پر پہلی بات تو یہ عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’شریعت‘‘ آسمانی تعلیمات کے معاشرتی احکام و قوانین کو کہا جاتا ہے اور یہودی اور مسیحی مذہب میں بھی اسلام کی طرح آسمانی تعلیمات کے معاشرتی احکام و قوانین کا شریعت کے عنوان سے ہی ذکر کیا جاتا ہے۔

امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے ایک یہودی پروفیسر ڈاکٹر نوحا فلڈمین نے کچھ عرصہ قبل ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں ’’وائے شریعہ؟‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے مغرب کے سیکولر حلقوں کی طرف سے کسی بھی ملک میں شرعی احکام کے نفاذ کی مخالفت اور رکاوٹوں کی وجہ بیان کی تھی اور کہا تھا کہ یہ سیکولر حلقے شریعت کی مخالفت اس لیے نہیں کرتے کہ شرعی قوانین میں کوئی خرابی ہے بلکہ ان کی مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں اگر آسمانی تعلیمات کے شرعی احکام و قوانین کو نفاذ کے بعد اگر کچھ عرصہ چلنے دیا گیا تو اس کے ثمرات و برکات کے باعث موجودہ عالمی تہذیب و فلسفہ کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

اسی طرح کی صورتحال لندن میں بھی کچھ عرصہ قبل پیش آ چکی ہے جب پروٹسٹنٹ مسیحی فرقہ کے سربراہ ڈاکٹر روون ولیمز نے ایک بیان میں کہہ دیا تھا کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے خاندانی مسائل نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ اپنی شریعت کے مطابق طے کرنے کا حق ہے جس کے لیے برطانوی عدالتی نظام کو اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو یہ سہولت دینی چاہیے کہ وہ خاندانی مسائل و تنازعات کو اپنے مسلمان قاضیوں کے ذریعے حل کر سکیں۔ اس پر بہت شور مچا تھا اور اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ مسلمانوں کے خاندانی احکام عالمی قوانین سے متصادم ہیں اس لیے انہیں یہ سہولت نہیں دی جا سکتی۔ اس کا فادر روون ولیمز نے بہت خوبصورت جواب دیا تھا کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے بعض عائلی قوانین مغرب کے خاندانی نظام سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن وہ اس بات کو نہیں مانتے کہ وہ انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔

اس پس منظر میں لندن کے مسلمان میئر صادق خان نے مسلمانوں کو ان کے خاندانی تنازعات اپنی شریعت کے مطابق حل کرنے کی سہولت دینے کی بات اگر کسی موقع پر کر بھی دی ہے تو یہ کوئی خلافِ قیاس بات نہیں ہے اور صدر ٹرمپ کا اس پر اس قدر سیخ پا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر خود ٹرمپ صاحب کے ملک میں مختلف مذاہب کو اپنے خاندانی اور مالیاتی مسائل و تنازعات اپنے مذہب کے مطابق طے کرانے کا دستوری حق حاصل ہے جس کے تحت یہودی بھی اپنے خاندانی و مالیاتی مسائل اپنے مذہبی اداروں کے ذریعے طے کراتے ہیں اور مسلمان بھی بڑی حد تک یہ حق استعمال کر رہے ہیں جو ’’شریعہ بورڈ‘‘ کے نام سے شکاگو، اٹلانٹا، نیویارک اور دیگر شہروں میں کام کر رہا ہے۔ اور خود میں نے مختلف مواقع پر شریعہ بورڈ کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کی سعادت حاصل کی ہے۔ شریعہ بورڈ امریکی مسلمانوں کے خاندانی اور مالیاتی مسائل کو اسلامی شریعت کے مطابق حل کرتا ہے جسے امریکی سپریم کورٹ تسلیم کرتی ہے۔

اسی طرح جنوبی افریقہ میں بھی وہاں کے مسلمانوں کو مسلم جوڈیشل کونسل کے نام سے یہی سہولت حاصل ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ میں نے وہاں علماء کرام کو مسلمانوں کے فیصلے شریعتِ اسلامیہ کے مطابق کرتے دیکھا ہے۔ اس لیے صدر ٹرمپ کا جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران اس کا تذکرہ کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ یہ شریعت کے بارے میں ان کے اندرونی جذبات و کیفیات کی عکاسی کرتی ہے اور واقفانِ حال کے نزدیک اس کی حیثیت ایک ’’جوک‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter