قادیانیت کے حوالے سے جدوجہد کے معروضی تقاضے

   
ستمبر ۲۰۲۳ء

۱۹ اگست کو ملی مجلس شرعی کے مشاورتی اجلاس کے ایجنڈے میں سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین نے ’’پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے اقلیتی کمیشن ایکٹ کے خطرناک مضمرات‘‘ کے عنوان سے شق شامل کی تو اس کی تفصیلات میرے علم میں نہیں تھیں۔ اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ اس حوالہ سے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا مگر پاس نہیں ہو سکا، اس بل میں اگر پیشرفت ہوتی تو بہت خطرناک صورتحال ہو جاتی لیکن چونکہ مسترد ہو گیا ہے اس لیے اس پر بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ روز محترم مولانا اللہ وسایا کی ایک تقریر کا کچھ حصہ سوشل میڈیا پر سننے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے مرحلہ میں ایک بل اچانک پیش کیا گیا جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرز پر اقلیتوں کے لیے ایک با اختیار کمیشن قائم کرنا مقصود تھا اور اس میں قادیانیوں کے دو نمائندوں کو بھی شامل کیا جا رہا تھا مگر مولانا فضل الرحمٰن کی بروقت مداخلت سے ایسا نہیں ہو سکا جس پر مولانا فضل الرحمٰن کے لیے دل سے دعا نکلی اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ قادیانیوں کو مختلف حیلوں سے ملک کے دستوری اور قانونی نظام کا حصہ بنانے کی ایک اور مہم بحمد اللہ ناکام ہو گئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی مولانا مفتی منیب الرحمٰن کا ایک تفصیل کالم روزنامہ دنیا کی ۲۴ اگست کی اشاعت میں آئینی و قانونی تضادات و ابہامات کے حوالہ سے شائع ہوا ہے جو ہر صاحبِ فکر کی توجہ کا مستحق ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دستور و قانون کے حوالے سے ابہام کے ماحول میں رکھ کر بیرونی ادارے اور تنظیمیں کس طرح اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔

قادیانیوں کے حوالہ سے ہمارا موقف شروع سے واضح ہے کہ وہ اپنے بارے میں پارلیمنٹ اور دستور کے فیصلوں کو تسلیم کیے بغیر قوم سے کسی رعایت کی توقع نہ رکھیں۔ جس دستور کے دائرے میں وہ مبینہ حقوق حاصل کرنے کے درپے ہیں اس دستور کو تسلیم کیے بغیر سرے سے ان کے اس تقاضے کا جواز ہی نہیں بنتا۔ ہاں اگر وہ دستور، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کا دوٹوک اعلان کر دیں تو دستور و قانون کے دائرے میں ان کے جو حقوق بنتے ہیں، دوسری اقلیتوں کی طرح ان کے جائز حقوق سے بھی کوئی انکار نہیں ہو گا۔

مگر اس کے ساتھ ہم قادیانیت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں سے بھی یہ عرض کرتے آ رہے ہیں کہ آئینی دفعات، قانونی شقوں اور بعض عدالتی فیصلوں کے درمیان جو ابہام ہے یا پیدا کر دیا گیا ہے اور جو قادیانی نوازوں کے لیے بہت سے معاملات میں ’’حیلہ‘‘ ثابت ہو رہا ہے، اس ابہام و تضاد سے نجات حاصل کرنے کے لیے قانونی اور عدالتی جدوجہد کی ضرورت ہے، مگر اس طرف سنجیدہ توجہ دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ گزشتہ دنوں قادیانیوں کی درون خانہ عبادت کے بارے میں عدالتی فیصلوں میں پائے جانے والے اس نوعیت کے ابہام کی نشاندہی کی گئی تو ایک مخصوص لابی کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ راہنما بھی ’’ابہام‘‘ کا جائزہ لینے اور اسے دور کرنے کی کوشش کی کی بجائے نشاندہی کرنے والوں کے درپے ہو گئے اور طعن و تشنیع کا بازار گرم کر کے اصل بات کو گول کر دیا گیا۔ ہمارے خیال میں اس صورتحال اور طرز عمل دونوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے خصوصاً‌ اس لیے بھی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کے دستوری فیصلہ کو نصف صدی پوری ہو رہی ہے مگر اسے قادیانیوں سے تسلیم کرانے یا تسلیم نہ کرنے پر کسی دستوری و قانونی کاروائی کا معاملہ ’’ہنوز روز اول است‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

اس تناظر میں گزارش ہے کہ ہم اپنی نصف صدی کی جدوجہد کا ایک بار پھر جائزہ لے کر

  • دستوری فیصلہ کو تسلیم کرنے سے قادیانیوں کے مسلسل انکار بلکہ ہٹ دھرمی کے حوالہ سے کوئی واضح حکمت عملی طے کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ جس طرح دستور و قانون کی رٹ کو تسلیم نہ کرنے والی بہت سی جماعتوں کو خلاف قانون قرار دے کر ان کو سرگرمیوں سے روک دیا گیا ہے اور بعض حلقوں کے خلاف آپریشن بھی کیا گیا ہے، اسی طرح قادیانیوں کے بارے میں بھی کسی ایسے اقدام کا اہتمام کیا جائے جو انہیں ملک کے دستور کا وفادار شہری بننے پر آمادہ کر سکے۔
  • قادیانیت کو مسلسل سپورٹ کرنے والے ان بین الاقوامی حلقوں اور اداروں تک رسائی حاصل کی جائے جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور انہیں اپنے موقف اور پاکستانی قوم کے جذبات و احساسات سے آگاہ کر کے اس طرزعمل پر نظرثانی کی ضرورت کا احساس دلایا جائے۔
  • قادیانیت بلکہ قومی خودمختاری، تہذیبی شناخت کے تحفظ، اور نفاذ اسلام کے حوالے سے دستور و قانون میں دکھائی دینے والے ابہامات کے حوالے سے بھی علمی و فکری جدوجہد کی جائے۔ اور علماء کرام اور قانون دان حضرات کی مشترکہ مجالس کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ باہمی مشاورت کے ساتھ ایسے ابہامات کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کے لیے قابل عمل تجاویز سامنے لا سکیں۔
  • قادیانیت کے خلاف جدوجہد کے دائروں کو محدود سے محدود تر کرتے چلے جانے کی بجائے ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکات ختم نبوت کی طرح تمام مکاتب فکر اور طبقات کی مشترکہ جدوجہد کا ماحول واپس لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس کے بغیر اس جدوجہد کو مؤثر طور پر آگے نہیں بڑھایا جا سکے گا۔
   
2016ء سے
Flag Counter