افکار مفتی محمودؒ اور عصر حاضر

   
۱۴ اکتوبر ۲۰۱۰ء

مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں، جمعیۃ طلبہ اسلام پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں، گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے شعبہ عربی و علوم اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اور یونیورسٹی کی جامع مسجد کے خطیب بھی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی شخصیت اور دینی و علمی خدمات پر ڈاکٹریٹ کی ہے اور ان کا مبسوط مقالہ چند اضافہ جات کے ساتھ ’’مولانا مفتی محمودؒ کی علمی، دینی و سیاسی خدمات‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ ۱۴ اکتوبر جمعرات کو پشاور میں اس کی رونمائی کی تقریب ہو رہی ہے جس کے لیے محترم مولانا فضل الرحمان نے مجھے فون پر بطور خاص دعوت دی ہے مگر پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث اس تقریب میں شرکت سے معذرت کرنا پڑی ہے۔ اس لیے اس کتاب میں سے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے کچھ افکار و خیالات کو اس کالم کی میں نذرِ قارئین کر کے حاضری لگوانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

سوا چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ مجلد اور خوبصورت کتاب مکتبہ الحمید بالمقابل گرڈ اسٹیشن ڈیرہ اسماعیل خان نے شائع کی ہے۔ اس میں مختلف حوالوں سے اہم دینی، قومی اور معاشرتی مسائل کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ارشادات و افکار کو پیش کیا گیا ہے، انہی میں سے اپنے ذوق کے مطابق ایک انتخاب اس کالم میں شامل کر رہا ہوں۔ آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس مرد درویش کے خیالات و ارشادات ملاحظہ فرمائیے اور اس کی فراست و بصیرت پر اسے خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان فاصلوں کو بھی دیکھنے کی کوشش فرمائیے جو ان کی وفات کو صرف دو عشرے گزرنے کے ساتھ ہی ہمارے اور ان کے درمیان نہ صرف دکھائی دے رہے ہیں بلکہ دن بدن بڑھتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں۔

مولانا مفتی محمود فرماتے ہیں کہ:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں سب سے اہم مسئلہ ملک کی ۹۰ فیصد آبادی کے بڑے طبقے اور غریب عوام کے مسائل ہیں جو ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں جنہیں اپنے وطن میں نہ مکان میسر ہے، نہ خوراک نہ لباس اور نہ زندگی کی دوسری سہولتیں میسر ہیں اور وہ یقیناً حیوانات سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک ان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں کسی کو امن و سکون حاصل نہیں ہوگا۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ ایک عام مسلمان تو پاکستان میں محنت کرنے کے باوجود اپنے بچوں کا پیٹ نہ پال سکے اور بھوک اور فاقہ کشی کی زندگی گزارتا رہے جبکہ چند انسان یہاں خرمستیاں کرتے پھریں۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوک سے مرتا ہے تو قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ) سے اس کا سوال کیا جائے گا۔‘‘

’’اس کے لیے بنیادی طور پر زمینداروں اور کارخانوں کے مسائل کا حل کرنا ضروری ہے۔ اسلام میں یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ غیر آباد زمین کو آباد کرنے والا شرعاً اس کا مالک ہوتا ہے۔ اس اصول کے مطابق وہ تمام زمینیں جو قریب کے زمانے میں آباد ہوئی ہیں، ان کے آبادکار مزارعین ان زمینوں کے مالک قرار دیے جائیں اور قدیم آباد زمینوں سے متعلق یہ تحقیق کی جائے کہ آیا یہ اراضی کسی جائز طریقے سے حاصل کی گئی تھیں یا انگریزوں نے ’’حق الخدمت‘‘ میں بطور جاگیر کے کسی کو عطا کی تھیں؟ اگر ایسا ہے تو ایسی تمام اراضی کو لازماً واپس لے کر بے زمین لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اگر مزارعین کو اس کے باوجود مظلومیت محسوس ہو تو کوئی بھی اسلامی حکومت ضرورت کے تحت مزارعت کے سسٹم کو ناجائز قرار دے سکتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ تینوں امام اس بات پر متفق ہیں کہ مزارعت کا معاملہ جائز نہیں۔ چونکہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے، اس لیے ضرورت کے تحت اس کو ممنوع قرار دینا کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ہو سکتا‘‘۔

’’رہا بڑے بڑے صنعت کاروں کا مسئلہ تو اس سے متعلق سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ حکومت لازمی طور پر مزدوروں کی تنخواہوں کو اس حد تک بڑھا دے کہ مزدور کو اپنی محنت کا پورا صلہ مل سکے جس سے اس کی زندگی کی بنیادی ضروریات، بچوں کی تعلیم اور علاج وغیرہ کی حسن و خوبی کے ساتھ کفالت ہو سکے۔‘‘

’’زراعت کو عام کیا جائے، غیر آباد زمینوں کو آباد کیا جائے، زمینوں کو ناجائز طور پر سیاسی رشوتوں کے لیے الاٹ نہ کیا جائے، زمین بے زمین لوگوں میں الاٹ ہو، آب پاشی کے ذرائع میں توسیع ہو، مشینی آلات کے ذریعے سے بھی ملکی زراعت کو ترقی دی جا سکتی ہے بشرطیکہ مشینی آلات کے تمام ذرائع اجتماعی طور پر استعمال ہوں، صرف ایک شخص کو یہ اختیارات حاصل نہ ہوں، اس طرح مزدور کسان بے کار ہو جائیں گے۔‘‘

’’بڑے شہروں میں کارخانوں کے قیام نے دیہات کی ترقی تو کیا ان کے وجود ہی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غریب لوگ دیہات سے بھاگ رہے ہیں، شہروں میں کارخانوں (اور دیگر سرکاری و غیرسرکاری اداروں) میں ملازمت کرتے ہیں، شہروں کے مسائل بھی اس طرح بڑھ جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ دیہی ترقیاتی اسکیموں پر زور دیا دیا جائے، اس لیے کہ ہمارے ملک کی غالب اکثریت دیہی آبادی پر مشتمل ہے، اس کے بغیر ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا اور اس روش سے ملک کی زرعی معیشت بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔‘‘

’’غریبوں سے ہمدردی رکھنے کی بنا پر بعض لوگ ہم پر ’’سوشلسٹ مولوی‘‘ ہونے کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ اسلام غریبوں کا حامی اور مددگار بن کر آیا ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق غریبوں کی مشکلات دور کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم پاکستان میں سرمایہ داری کی حفاظت کے لیے اسلام کا نام استعمال نہیں ہونے دیں گے، سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کی حفاظت کے خواہاں اور امریکی سامراج کی مدد سے پاکستان کو ترقی دینے کے دعویدار پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن ہیں۔‘‘

’’موجودہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت جس میں غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر بنتے جا رہے ہیں، اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ مغربی استعماری نظام، مغرب زدہ ظالمانہ نظام ہمارے تمام مسائل کی بنیاد ہے، جب تک اس کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک معاشرے میں فلاح کا کوئی تصور بے سود ہے، بے کار ہے، خام خیالی ہے۔‘‘

’’سادگی اختیار کی جائے، وزیر اپنا نمونہ پیش کریں، اپنے گھروں کی تزیین و آرائش پر ہزاروں روپے خرچ نہ کریں، ڈرائنگ روم میں قیمتی صوفوں کی بجائے چٹائی کیوں نہیں بچھائی جا سکتی؟ اور بیڈ روم میں نفیس پلنگوں کی بجائے عام چارپائی کیوں کام نہیں دے سکتی؟ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ شہری علاقوں میں بڑے مکانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے۔ تین سو گز سے زیادہ مکان کسی صورت میں نہ بننے دیا جائے۔ ہمارے اکثر ملکی قوانین ایسے ہیں جو رشوت کا دروازہ کھولتے ہیں اور لوگوں کے مصائب میں اضافہ کرتے ہیں، ان کا جائزہ لے کر ہر قانون میں چور دروازے بند کیے جائیں۔ رشوت بدعنوانی پر کڑی سزائیں دی جائیں اور ان کا قلع قمع کیا جائے۔ شلوار قمیص کی حوصلہ افزائی ہو، سرکاری ملازم دفتر میں قومی لباس پہن کر آئیں۔ اس طرح غیر ملکی لباس جو نفسیاتی رعب داب عطا کرتا ہے، اس سے نجات مل جائے گا۔ ایسے ضوابط بنائے جائیں کہ جھوٹ چھاپا یا لکھا نہ جا سکے۔ جھوٹ ایک زہر ہے جو معاشرہ کی اچھائیوں کو ڈس لیتا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام ہو اور ذرائع ابلاغ کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔‘‘

’’ہم پاکستان کے غریب عوام، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں اور تمام آدمیوں کو اس سطح پر لانا چاہتے ہیں جہاں پاکستان کے تمام مسلمان عملاً بھائی بھائی نظر آ سکیں۔ اور یہ اس وقت ممکن ہوگا جبکہ بے لاگ طور پر ملک میں قرآن و سنت کے احکام نافذ کر دیے جائیں، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد کا عملی نمونہ اختیار کر لیا جائے اور ملک سے سیاسی، اقتصادی اور معاشی ظلم و جبر کا خاتمہ کر دیا جائے۔‘‘

مولانا مفتی محمودؒ کے حالات زندگی، دینی و علمی جدوجہد، ملک کے استحکام اور نفاذِ اسلام کے لیے ان کی مساعی، اور عالمی استعمار کے مقابلہ میں اپنے عظیم اسلاف کی روایات کے تسلسل کو قائم رکھنے کے بارے میں مولانا عبد الحکیم اکبری نے نئی نسل کے لیے ایک اچھا ذخیرہ جمع کر دیا ہے، جس میں بعض مقامات پر اگرچہ تشنگی اور خلا کا احساس ہوتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ کوشش مستحسن ہے جس پر مولانا اکبری ہم سب کی طرف سے مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter