امریکہ میں چند روز

   
۱۴ اگست ۲۰۱۱ء

میں پروگرام کے مطابق ایک ماہ امریکہ میں گزار کر گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا ہوں۔ سات جولائی کو لاہور سے نیویارک کے لیے روانہ ہوا تھا اور ۱۰ اگست کی شام کو بذریعہ پی آئی اے لاہور پہنچ گیا۔ اس دوران میں نے نیویارک کے مختلف علاقوں لانگ آئی لینڈ، برونکس، بروکلین اور جمیکا کے علاوہ واشنگٹن ڈی سی، سپرنگ فیلڈ، بالٹی مور، ڈیٹرائٹ، اٹلانٹا، ہیوسٹن، ڈیلاس اور برمنگھم وغیرہ میں علماء کرام سے ملاقاتیں کیں۔ درجنوں دینی اجتماعات میں شرکت ہوئی، مختلف دینی مدارس کا دورہ کیا اور بحمد اللہ تعالیٰ پاکستان کی طرح ہی شب و روز مصروفیت رہی۔ اس دوران لاہور کے مولانا قاری امتیاز الرحمان تھانوی اور فیصل آباد کے مولانا سید زکریا شاہ بھی چند روز شریک سفر رہے۔ قاری امتیاز الرحمان تھانوی ایچی سن کالج لاہور کے پروفیسر اور مسجد خضراء یاسین آباد کے خطیب رہے ہیں اور چند برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ مولانا سید زکریا شاہ فیصل آباد کے نوجوان عالم دین ہیں اور ہمارے محترم بزرگ حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ کے فرزند ہیں۔ حضرت شاہ صاحب کے ساتھ میرا تعلق شیرانوالہ لاہور کے حوالے سے ہے کہ وہ میرے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انور کے خلفاء میں سے ہیں اور ان کے معمولات اور سرگرمیوں میں مجھے اپنے شیخ کی جھلک بھی نظر آتی ہے، خدا کرے کہ مولانا سید زکریا شاہ بھی اس روایت کو قائم رکھ سکیں۔

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری سے نیویارک میں ملاقات ہوئی اور کچھ لمحات ان کے ساتھ گزارے۔ وہ شریعہ بورڈ کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی محمد نعمان کے ہاں قیام پذیر تھے جن کا تعلق انڈیا سے ہے۔ مولانا پالنپوری سے میری پرانی نیازمندی ہے، دو عشرے قبل لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی ایک فکری نشست میں وہ ہمارے ساتھ بطور مہمان خصوصی شرکت فرما چکے ہیں جبکہ نیویارک میں بھی اس سے قبل ان کی زیارت ہوئی ہے۔ پرانے بزرگوں جیسا پختہ مزاج اور علمی رسوخ رکھتے ہیں جو اَب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ حجۃ اللہ البالغہ پر ان کی شرح کے بارے میں ان سے گزارش کی کہ انہوں نے نوجوان علماء کرام کے لیے حجۃ اللہ البالغہ کو کافی حد تک آسان کر دیا ہے تو فرمانے لگے کہ اس کے باوجود اس کا ذوق عام نہیں ہو رہا۔ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حجۃ اللہ البالغہ کے کچھ ابواب دورۂ حدیث کے نصاب میں باقاعدہ شامل ہیں اور اپنے عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے تتبع میں اس کی تدریس کی خدمت میں خود سرانجام دیتا ہوں۔

مولانا پالنپوری کسی غلطی پر فوراً ٹوک دینے کا ذوق رکھتے ہیں جو ہمارے بہت سے اکابر کا مزاج تھا۔ میرے ساتھ ایک عالم دین ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے، ظہر کی نماز کا وقت تھا، ان سے امامت کے لیے کہا گیا کہ مولانا پالنپوری اور راقم الحروف دونوں مسافر تھے۔ نماز پڑھتے ہی امام کے رکوع کے طریقے پر انہیں ٹوک دیا کہ یہ طریقہ آپ نے کہاں سے سیکھا ہے اور اس پر اچھی خاصی معلوماتی گفتگو کر دی۔ میں رکوع میں جانے کے دو مختلف طریقوں کے اس تنوع اور اس پر دونوں طرف سے اظہار خیال سے آگاہ تو تھا مگر اس کا پس منظر میرے علم میں نہیں تھا۔مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری کی اس گفتگو سے مجھے یہ پس منظر معلوم ہوا جس سے میں ذاتی طور پر محظوظ ہونے کے علاوہ مستفید بھی ہوا۔ انہوں نے بخاری شریف پر اپنی مفصل شرح کی دو جلدیں اور اپنے ’’علمی خطبات‘‘ کی دو جلدیں مرحمت فرمائیں اور بعض دیگر امور پر بھی ان سے گفتگو ہوئی۔

میرا ذاتی ذوق ٹوکنے کے حوالے سے قدرے مختلف ہے جس کا اظہار اس سفر میں بھی ہوا۔ ایک جگہ تراویح کی نماز ادا کی، حافظ صاحب بہت غلط پڑھ رہے تھے اور میری زبان پر وقفے وقفے سے استغفار جاری تھا۔ میں نے دوسرے روز علیحدگی میں ان حافظ صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ کا تلفظ اور لہجہ بہت اچھا مگر آپ کو منزل مناسب طور پر بھی یاد نہیں ہے۔ مہربانی کر کے اسے دوبارہ یاد کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ بہت نازک اور ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ پھر مجھے اس مدرسہ میں جانے کا موقع ملا جہاں سے ان حافظ صاحب نے حفظ کیا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ اس مدرسے کے مہتمم صاحب کے سامنے رکھا اور ان سے گزارش کی کہ وہ ان حافظ صاحب کو واپس بلا کر ان کی منزل ٹھیک کروائیں ورنہ وہ اسی طرح ساری زندگی غلط سلط پڑھتے رہیں گے۔

امریکہ بھر میں رمضان المبارک کے آغاز سے قبل رؤیت ہلال پر گرما گرم بحث کا ماحول تھا۔ مختلف حلقوں کے اجلاس ہو رہے تھے، فتوے دیے جا رہے تھے، اخبارات میں اشتہار بازی ہو رہی تھی اور ہینڈبل تقسیم کیے جا رہے تھے۔ اتفاق سے ایسا ہوا کہ جس روز سعودی عرب میں چاند نظر آیا اسی روز امریکہ میں بھی نظر آگیا اور اس حسن اتفاق نے بحث و مباحثہ کی گرمی کم کر دی۔ میں نے رمضان المبارک کی پہلی تراویح برونکس نیویارک کی مدنی مسجد میں ادا کی۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے قاری محمد ایوب نے منزل پڑھی۔ تراویح کے بعد میں نے مختصر خطاب کیا اور رمضان المبارک کے آغاز پر مسلمانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ایک اور بات پر بھی آپ حضرات کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ پورے امریکہ میں اس سال ایک ہی دن رمضان المبارک کا آغاز ہو رہا ہے، خدا کرے کہ آپ حضرات کی عید بھی اکٹھی ہو۔ یہ سن کر بہت سے نمازی مسکرا دیا، عجیب سی مسکراہٹ تھی، مجھے یوں لگا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگیا ہے ہمارے بس میں ہوتا تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ ایک محترم عالم دین نے یہ فرما بھی دیا کہ حسن اتفاق سے رمضان المبارک اکٹھے شروع ہوگیا ہے، عید الفطر پر دیکھیے ہماری بحث کیا رخ اختیار کرتی ہے او رہم لوگ کیا کرتے ہیں۔

میری عادت ہے کہ مختلف حلقوں کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور واپسی پر متعلقہ اداروں کو آگاہ بھی کرتا ہوں۔ خاص طور پر سیکولر حلقوں اور قادیانیوں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں پر میری نظر رہتی ہے۔ اس سفر میں دو باتیں بطور خاص قابل توجہ ہیں:

ایک یہ کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کرسچین حلقوں کی مشترکہ تنظیم پاکستان کرسچین ایسوسی ایشن نے لانگ آئی لینڈ میں ایک بڑے اجتماع کا اہتمام کیا جس کی رپورٹ ہفت روزہ ’’دنیا‘‘ نیویارک نے ۲۹ جولائی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں پورے صفحے کے اشتہار کی صورت میں شائع کی۔ اس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، خیبر سوسائٹی اور سوہنی وطن گلگت بلتستان کے راہنما بھی شریک ہوئے۔ اور اس عزم سے رپورٹ کا آغاز ہوا ہے کہ وہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے رنگ، نسل اور مذہب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی شناخت کو زندہ رکھیں گے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کرسچین ایسوسی ایشن کی صدر محترمہ زیبا گل نے کہا ہے کہ آج انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے کیونکہ انسان ہی مسلمان اور انسان ہی کرسچین ہے، اس لیے ہم سب کو مل کر انسانیت کا احترام کرنا ہوگا۔

پاکستان کے کرسچین دنیا میں جہاں کہیں ہوں انہیں اپنے موقف کے اظہار اور سرگرمیوں کا پورا حق ہے مگر اس تقریب کے حوالے سے دو باتوں پر بہرحال تعجب ہوا۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کو سیکولر ملک بنوانے کے ’’عزم‘‘ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ریلیوں میں شرکت کے کیا معنی ہیں؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ سیکولر ازم اور مذہب سے بالاتری کا پرچار کرنے والوں کو آخر ’’کرسچین‘‘ کے ٹائٹل کے تکلف کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے، کیا وہ اپنے اصل حوالے سے یہ بات کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے؟

اس کے علاوہ قادیانیوں کی سرگرمیاں بدستور جاری ہیں، وہ اپنے اصل عقائد کو چھپاتے ہوئے روایتی تاویلات کے ذریعے عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے وسائل ان کے استعمال میں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایک دو حضرات کی انفرادی سرگرمیوں کے سوا مکمل سناٹا چھایا ہوا ہے۔ خدا جانے اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کی توجہ اس طرف کب مبذول ہوگی؟

   
2016ء سے
Flag Counter