تحفظ ناموس رسالت پر بیداری کی حوصلہ افزا لہر اور ہمارے دانشور

   
۵ اکتوبر ۲۰۱۲ء

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام اکتوبر کے دوران چناب نگر میں منعقد ہونے والی سالانہ ختم نبوت کانفرنس ہر سال اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ فرزندان اسلام ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ بے لچک وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، تحریک ختم نبوت کے مختلف مرحلوں کی یاد تازہ کرتے ہیں، مختلف مکاتب فکر اور دینی و سیاسی جماعتوں کے راہنما تحریک ختم نبوت کے مقاصد و اہداف کے بارے میں جدوجہد کے لیے باہمی ہم آہنگی اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور منکرین ختم نبوت اور ان کے ہمنواؤں کو ایک بار پھر پیغام ملتا ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلہ میں امت مسلمہ بیدار ہے اور دینی حلقوں کو اس راہ سے ہٹانے کی کسی مہم یا سازش کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ البتہ اس سال یہ کانفرنس اس لحاظ سے اور زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ تحفظ ناموس رسالت کے مسئلہ پر عالم اسلام کی بیداری کی تازہ ترین اور ہمہ گیر لہر کے ماحول میں منعقد ہو رہی ہے چنانچہ شرکاء و مقررین کے جذبہ و ولولہ میں بھی اسی مناسبت سے یقیناً ایک نیا رنگ دکھائی دے گا۔

تحفظ ناموس رسالت کے مسئلہ پر بدنام زمانہ امریکی فلم کے تناظر میں عالم اسلام کے مختلف حصوں میں جس جوش و جذبہ اور عقیدت و محبت کا عالمی سطح پر مظاہرہ سامنے آیا ہے اس نے جہاں مسلمانوں بالخصوص دینی حلقوں کے حوصلوں اور اعتماد میں اضافہ کیا ہے وہاں ان حلقوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جو ایسے معاملات میں مسلمانوں کی کردار کشی اور ان کی مذہبی روایات کی تضحیک و تحقیر کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب شاید مسلمانوں کو کسی مسئلہ میں مذہبی حوالے سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، اور انہوں نے بین الاقوامی ماحول میں میڈیا اور لابنگ کے ذریعے نفرت اور استحقار کی جو فضا پیدا کر رکھی ہے وہ مسلمانوں کو مذہبی معاملات بالخصوص مذہب کے معاشرتی کردار کے بارے میں پسپائی پر مجبور کر دے گی۔ لیکن یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ کردار کشی، نفرت انگیزی اور تحقیر و تضحیک کے تمام تر حربوں کے باوجود مسلمانوں کے جوش و جذبہ میں ہر بار پہلے سے زیادہ اضافہ دکھائی دیتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت و عقیدت کا رنگ اور زیادہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ناموس رسالت کے مسئلہ پر مسلمانوں کے جوش و جذبہ کے اظہار کی تازہ عالمی لہر پر اب یہ حلقے ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کی کیفیت سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں اور اپنی خفت کا مختلف حوالوں سے اظہار کر رہے ہیں۔

  • ایک دانشور کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور بعض دوسرے شہروں میں مظاہروں کے دوران تشدد کے جو مظاہرے ہوئے ہیں اور قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ خاصا مالی نقصان بھی ہوا ہے، کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ میں نے ان سے عرض کیا کہ جہاں تک تشدد، توڑپھوڑ، لاقانونیت، قتل و غارت اور لوٹ مار کا تعلق ہے کوئی بھی ذی شعور مسلمان اور پاکستانی اس کی حمایت نہیں کر سکتا اور ہم بھی اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، لیکن اس کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟ یہ ہمارا کلچرل مسئلہ ہے کہ ہم کسی بھی مسئلہ پر سڑکوں کا رخ کرتے ہیں تو اس قسم کی حرکات روکتے روکتے بھی ہو جاتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے موقع پر جو توڑپھوڑ اور قتل و غارت ہوئی تھی کیا وہ مذہب سے اجازت لے کر ہوئی تھی؟ اور لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں کے دوران جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ مذہب کے کہنے پر ہوتا ہے؟ کراچی اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ مذہب کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ پھر ملک کے سینکڑوں شہروں اور ہزاروں قصبات میں ہونے والے مظاہروں میں کتنے مظاہروں میں توڑپھوڑ ہوئی ہے اور ان کا مظاہروں کی مجموعی تعداد میں تناسب کیا ہے؟ مگر ہمارے میڈیا نے یہ پالیسی طے کر رکھی ہے کہ مذہبی معاملات میں اٹھانے فیصد مثبت سرگرمیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بجائے اس نے ہمیشہ ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دو فیصد منفی سرگرمیوں کو ہی اچھالا ہے، اور دنیا کو ہر ایسے موقع پر یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں بس یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے میڈیا کے پالیسی سازوں کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جس کا مقصد ملک میں دینی اور دینی حلقوں کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے شہر گوجرانوالہ میں اس دوران مختلف مکاتب فکر اور مختلف طبقات کی طرف سے جی ٹی روڈ پر بیسیوں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں مجموعی طور پر لاکھوں افراد نے شرکت کی ہے لیکن کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی، مگر میڈیا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ تو ہر وقت اس کی تلاش میں رہتا ہے کہ کوئی اکا دکا واقعہ بداَمنی کا ملے اور اسے اچھال کر وہ اپنے نمبروں میں اضافہ کر سکے۔
  • ایک دانشور کا ارشاد ہے کہ یہ مظاہرے مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھے اور مظاہروں کا اہتمام کرنے والوں کے پیش نظر سیاسی مقاصد تھے۔ میں نے گزارش کی کہ یہ ان لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دینی جذبات کی توہین ہے جو خالصتاً محبت رسول کے جذبہ کے ساتھ سڑکوں پر آئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار کیا۔ ایسے دانشوروں سے میری استدعا ہے کہ اگر وہ خدانخواستہ اپنے سینوں کو ایسے پاکیزہ جذبے سے خالی پاتے ہیں تو یہ ان کی محرومی اور بدقسمتی کا معاملہ ہے لیکن دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کے غیور مسلمانوں کی محبت رسول کو سیاسی مقاصد کا طعنہ دے کر ان کی توہین کرنے کا انہیں کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
  • ایک دانشور بہت دور کی کوڑی لائے ہیں کہ اسلام آباد میں زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار افراد نے مظاہرہ کیا ہے جو پاکستان کی کم و بیش بیس کروڑ آبادی کی نمائندگی نہیں کرتا۔ میں ان سے یہی عرض کرتا ہوں کہ آنجناب دنیا کے جس شہر (نیویارک) میں رہائش پذیر ہیں وہاں تو دو ہزار افراد سڑک پر آجائیں تو ہر طرف ہلچل مچ جاتی ہے مگر آپ کو اسلام آباد میں آپ کے بقول پچیس ہزار کا جم غفیر کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ یہ باتیں مسلمانوں کو دینی حمیت اور غیرت کے اظہار سے روکنے میں ناکامی پر ایسے دانشوروں کی طرف سے خفت کا اظہار ہے اس لیے میں اس قسم کے کالم پڑھ کر کسی الجھن کا شکار ہونے کی بجائے انہیں انجوائے کیا کرتا ہوں۔ بہرحال ایسے ماحول میں چناب نگر کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اور میں اس موقع پر کانفرنس کے مقررین اور شرکاء کو اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے مسئلہ پر عالمی سیکولر لابیاں زخمی سانپ کی طرح پھن پھیلائے ایک بار پھر پاکستان کے دینی حلقوں پر جھپٹنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ اس لیے صرف جوش و جذبہ کے والہانہ اظہار سے بات نہیں بنے گی بلکہ حوصلہ و تدبر اور حکمت و دانش کی فائلوں کی گرد جھاڑ کر انہیں پھر سے مطالعہ میں لانا ہوگا اور مجموعی صورتحال کو سامنے رکھ کر آئندہ کی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔

اس کے ساتھ ایک اور بات بھی عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ، ناموس رسالت کا تحفظ اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کا تحفظ ، ہماری کارکردگی اور ترجیحات بظاہر الگ الگ مسئلے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان مسائل کو ڈیل کرنے والی عالمی سیکولر لابیوں کے نزدیک یہ تینوں مسئلے ایک ہی ایجنڈے کی مختلف شقیں ہیں اور وہ (۱) قرارداد مقاصد (۲) امتناع قادیانیت آرڈیننس (۳) اور تحفظ ناموس رسالت کے تینوں معاملات پر ایک ہی جیسی رائے، حکمت عملی اور مہم پر قائم ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی اپنی دینی جدوجہد میں ان تینوں مسئلوں کو یکجا کرنا ہوگا۔ ان مسائل کے لیے کام کرنے والی سب جماعتوں اور دینی حلقوں کو ان تینوں معاملات میں یکساں حکمت عملی، طریق کار اور ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور الگ الگ محاذ آرائی کے طرز عمل پر نظرثانی کر کے مشترکہ محاذ کا اہتمام کرنا ہوگا۔

اس مقصد کے لیے حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہم اللہ تعالٰی کے کردار کو زندہ کرنے کے علاوہ علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان، آغا شورش کاشمیری، ماسٹر تاج الدین انصاری، مولانا مفتی محمود، مولانا سید داؤد غزنوی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی، چودھری ظہور الٰہی، ذوالفقار علی بھٹو، یحیٰی بختیار، مولانا مظہر علی اظہر، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور پروفیسر غفور احمد رحمہم اللہ تعالٰی کے کردار کو بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نسخہ کے یہ سب اجزا جمع ہوں گے تو جدوجہد مکمل اور نتیجہ خیز ہوگی ورنہ ہم سب اپنا اپنا ثواب سمیٹنے تک محدود رہیں گے کہ وہ تو بہرحال ملے گا ہی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی چناب نگر کی اس کانفرنس کو کامیابی سے نوازے اور تحریک ختم نبوت کے اصل اہداف و مقاصد کے لیے ایک نئی جدوجہد کا عنوان بنا دے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter