چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― یہودیت

   
۲۰۱۸ء

بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ تعارف ادیان و مذاہب کے حوالے سے ہم نے گزشتہ نشست میں بات شروع کی تھی۔ موجودہ تناظر میں عالمی طور پر ہمارا سب سے بڑا ٹکراؤ یہود سے ہے، تو آج ان کے حوالے سے بات ہوگی۔ یہودیت اس وقت تعداد کے لحاظ سے کوئی بڑا مذہب نہیں ہے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہیں۔لیکن اثر و رسوخ کے اعتبار سے، عالمی نظام میں مداخلت کے اعتبار سے، میڈیا اور معیشت پر کنٹرول کے حوالے سے یہودی اس وقت طاقتور ترین قوم ہیں۔ یہودیت کو سمجھنا اور پہچاننا ہمارے لیے بہت سے حوالوں سے ضروری ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نسلی مذہب ہے، حضرت یعقوبؑ کی اولاد سے ہیں، بنی اسرائیل کہلاتے ہیں، اور نسلی تفاخر کی بنیاد پر اپنے نسلی دائرے سے باہر نہیں نکلتے۔ ”نحن ابناء اللّٰہ واحباۂ“ (المائدہ ۱۸) جو قرآن کریم نے ان کے بارے میں کہا تھا وہ آج بھی ان کے عقائد اور ان کی نفسیات میں موجود ہے کہ ہم برتر قوم اور برتر نسل ہیں اور ہمیں دنیا پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔

بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ یہود کا ایک دور وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جہانوں پر ان کی برتری کا اعلان فرمایا۔ ”وانی فضلتکم علی العالمین“ (البقرہ ۴۷) کہ اپنے دور میں تمام جہانوں پر اور تمام دنیا پر ان کو برتری حاصل تھی۔ بالاتری بھی حاصل تھی اور فضیلت بھی حاصل تھی۔ اس دور میں حضرت سلیمانؑ کی حکومت ”اسرائیل“ کہلاتی تھی، جس کے بارے میں خود حضرت سلیمانؓ نے فرمایا تھا ”قال رب اغفرلی وھب لی ملکاً لاینبغی لاحد من بعدی“ (ص ۳۵)۔ اس کا دائرہ ان کے دور میں جو تھا وہ آج کے یہودیوں کے نزدیک گریٹر اسرائیل (عظیم تر اسرائیل) کہلاتا ہے۔ آج کے یہود کا ٹارگٹ اور نظریہ یہ ہے کہ ہم نے حضرت سلیمانؑ کے دور کا اسرائیل واپس لینا ہے، بحال کرنا ہے۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ نیٹ پر موجود ہے۔ ایک سانپ کی شکل میں سرحد کے ساتھ اس علاقے کو گھیرا ہوا ہے جس کو وہ گریٹر اسرائیل میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں مصر، سوڈان، عراق، اردن اور فلسطین اور سعودیہ آدھا شامل ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان سے وہ سرحد گزرتی ہے۔ مدینہ پر ان کا دعویٰ ہے، جبکہ مکہ ان کے دعوے سے خارج ہے۔

یہود کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیں مدینہ سے نکالا تھا۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، تینوں قبیلوں کو۔ اور خیبر میں ہماری حکومت تھی، مسلمانوں نے جنگ کے ذریعے ہمیں وہاں سے نکالا۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں کا خیبر پر قبضہ ہوا اور اس وقت یہودیوں نے مزارع کے طور پر خیبر میں رہنے کی اجازت مانگی، حضورؐ نے اجازت دے دی، پھر حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں انہیں خیبر سے جلاوطن کر دیا گیا۔ یہود کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے ہمیں مدینہ اور خیبر سے نکالا تھا اس لیے خیبر بھی ہمارا حصہ ہے اور مدینہ بھی ہمارا حصہ ہے۔ چنانچہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مدینہ منورہ اور خیبر شامل ہیں۔ اور یہ ان کا اصل ٹارگٹ ہے کہ ہم نے قدیمی اسرائیل بحال کرنا ہے۔

قرآن کریم نے ان کے عروج کا دور بھی بیان فرمایا ہے۔ حضرت یعقوبؑ کا دور، حضرت یوسفؑ کی بادشاہت، پھر حضرت موسٰیؑ کے ذریعے ان کی بادشاہت کی بحالی، بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم سے نجات حاصل کرنا، اور یوشع بن نونؑ کی قیادت میں بیت المقدس فتح کر کے اس کو دوبارہ اپنی ریاست بنانا، پھر حضرت طالوتؑ اور جالوت کی جنگ کا بھی قرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ اس جنگ میں ان کی فتح کے بعد حضرت داؤدؑ کی بادشاہت قائم ہوئی تھی، انہیں حضرت طالوتؑ نے اپنا جانشین بنایا تھا اور داماد بھی بنایا تھا۔ دوبارہ ریاست قائم ہوئی اور حضرت داؤدؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہ ٹائٹل بھی دیا ”یا داوود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق“ (ص ۲۶)۔ پھر حضرت داؤدؑ کی جانشینی حضرت سلیمانؑ کے حصہ میں آئی، اور وہ پھر عظیم تر سلطنت بنی جن کے سامنے یمن کی ملکہ سبا نے بھی سرنڈر کیا۔ یہ تو بنی اسرائیل کے عروج کا دور تھا، غلبے کا دور تھا، فضیلت کا دور تھا، قرآن کریم کہتا ہے ”وانی فضلتکم علی العالمین“ (البقرہ ۴۷)۔

اس کے بعد یہود کے زوال کا دور شروع ہوا۔ ان کے زوال کے دور کا پہلا مرحلہ ہے جب حضرت عیسٰیؑ کی ولادت سے پہلے کے دور میں بخت نصر نے، جو بابل (عراق) کا حکمران تھا، اس نے یروشلم پر (بیت المقدس اور یروشلم ایک ہی شہر کے دو نام ہیں) پر حملہ کیا اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ ان کا عبادت خانہ ہیکل سلیمانی تباہ و برباد کر دیا، جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا۔ جتنے لوگ قتل کر سکا قتل کیے، باقیوں کو لے گیا اور عراق میں قیدی بنا لیا۔ اور یہی بستی ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ”او کالذی مر علٰی قریۃ وھی خاویۃ علٰی عروشھا“ (البقرہ ۲۵۹) میں آیا ہے۔ پھر حضرت عزیر ؑ کی برکت سے ان کے ذریعے اس کی بحالی کا اہتمام کیا۔ ایران کے بادشاہ نے عراق کے خلاف ان کی مدد کی۔ اس وقت یہ دوبارہ بحال ہوئے اور یروشلم ان کے قبضے میں آیا۔ بیت المقدس دوبارہ تعمیر کیا، اپنے عبادت گاہ ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا۔ ان کی ریاست پھر ترقی پر آ گئی۔ اس کے بعد حضرت زکریاؑ اور حضرت یحیٰیؑ ان میں ہی نبی گزرے۔ ”اتیناھم الکتاب والحکم والنبوۃ“ (الانعام ۸۹) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تین کتابیں بھی عطا فرمائیں۔ ”وجعلکم ملوکا“ (المائدہ ۲۰) ان کو بادشاہت دی اور حکومت بھی دی۔ یہ ان کا حق کا دور تھا، عروج کا دور تھا، اور دنیا پر ان کی دنیوی و دینی ہر اعتبار سے برتری کا دور تھا۔

حضرت عیسٰیؑ کے زمانے تک ان دور چلتا رہا۔ حضرت عیسٰیؑ نے جب اپنی نبوت اور وحی کا اعلان کیا تو یہود دو حصوں میں بٹ گئے، ایک حصہ ایمان لایا اور دوسرے حصے نے انکار کر دیا۔ اکثریت انکار کرنے والوں کی تھی، ایمان لانے والے تھوڑے تھے۔ حضرت عیسٰیؑ ان کے جبر کا شکار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ یہ انہیں قتل نہیں کر سکے ”وما قتلوہ وما صلبوہ ولٰکن شبہ لھم“ (النساء ۱۵۷)۔ لیکن باقی مسیحی ان کے جبر کا شکار رہے، حتیٰ کہ روم عیسائیوں کے قبضے میں آ گیا اور بادشاہ طیطس رومی نے یروشلم پر حملہ کیا اور اسے یہودیوں سے چھین لیا، اس طرح یہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ طیطس رومی نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ہیکل سلیمانی کو جڑ سے اکھاڑ دیا، موجود یہودی قتل کر دیے، باقیوں کو جلاوطن کر دیا اور یہودیوں کا داخلہ وہاں بند کر دیا۔ طیطس رومی کے زمانے سے حضرت عمرؓ کی خلافت تک یہ کیفیت رہی کہ قبضہ عیسائیوں کا تھا، وہی سارا نظام چلا رہے تھے، یہودیوں کا وہاں آنے جانے کا کوئی امکان نہیں تھا اور وہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے۔

پھر حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا۔ بیت المقدس کی اپنی تاریخ ہے، میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ مسلمانوں نے بیت المقدس عیسائیوں سے لیا تھا، پھر عیسائیوں نے ہم سے چھین لیا، نوے سال عیسائیوں کے پاس رہا، پھر صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو آزاد کروایا۔ جب طیطس رومی نے یہودیوں کو بیت المقدس سے نکالا، یہودیوں کا اس وقت سے لے کر آج سے تقریباً ایک صدی پہلے تک بیت المقدس سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے۔ اور قرآن کریم نے جو بیان فرمایا ہے ”ضربت علیھم الذلۃ“ (آل عمران ۱۱۲) ان کی تقریباً اٹھارہ سو سال تک یہ کیفیت رہی ہے، اور کہیں ان کی کوئی ریاست نہیں تھی۔ ہمارے ساتھ ان کا معاملہ وہی ہے جو میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم نے ان کے تین قبیلوں کو مدینہ سے نکالا، یہ سب خیبر میں اکٹھے ہو گئے تھے، پھر ان کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں خیبر سے نکالا گیا، جلاوطن کیا گیا۔ مگر اس وقت سے لے کر آج سے ایک صدی پہلے تک یہودیوں سے ہمارا کوئی تنازعہ، کوئی جھگڑا، کوئی لڑائی، کوئی جنگ نہیں ہے۔ ان کا یہ سارا زمانہ عیسائیوں کے ساتھ دشمنی میں گزرا ہے، بلکہ طیطس رومی سے لے کر اب سے ایک صدی پہلے تک، ہٹلر تک، عیسائیوں اور یہودیوں میں شدید ترین دشمنی تھی۔ یہودی کمزور قوم تھی، عیسائی انہیں مارتے تھے، قتل کرتے تھے، جلاوطن کرتے، مال چھین لیتے تھے۔

یہودیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ مسلمان ریاستیں ہوتی تھیں۔ خود یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اچھی دو پناہ گاہیں میسر تھیں:

  1. اندلس میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی، وہ ہماری پناہ گاہ تھی، وہاں ہمیں خرچہ اور تحفظ بھی مل جاتا تھا۔
  2. اور اس کے بعد خلافت عثمانیہ کے بارے میں غیر جانبدار اور معتدل یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے پورے دور میں یہود کی پناہ گاہ تھی۔ عیسائی ان کو اٹلی، برطانیہ، فرانس میں مارتے اور یہ قسطنطنیہ، ترکی میں آ جاتے۔

ان کا آخری راؤنڈ ہٹلر والا ہے جسے ہولوکاسٹ کہتے ہیں، اس میں کچھ مبالغہ بھی ہے لیکن ہٹلر نے ان کی کٹائی کی ہے ابھی پون صدی پہلے۔

اللہ کی قدرت کہ ذلت اور مسکنت بھی دو ہزار سال یہودیوں کے حصے میں آئی، لیکن دولت بھی ان کے حصے میں آئی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ مالدار ترین یہی رہے ہیں۔ البتہ مال و دولت کے باوجود ان کی حالت مسکنت کی رہی ہے۔ ایک صدی پہلے عیسائیوں سے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف صلح کی تو تب ان کی حالت بدلنا شروع ہوئی۔ ہوا یوں کہ آج سے کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے یہودیوں نے اکٹھے ہو کر آپس میں فیصلہ کیا کہ کوئی صورت نکالو کہ فلسطین کی زمین، جو ہماری پرانی زمین تھی، جہاں سے ہمیں طیطس رومی نے نکالا تھا، وہاں واپس جا کر ہم آباد ہوں اور آبادی بڑھاتے بڑھاتے وہ مقام حاصل کریں کہ ہم بیت المقدس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر سکیں۔

حضرت عمرؓ نے تو بیت المقدس کا قبضہ عیسائیوں سے لیا تھا، پھر عیسائیوں نے ہم سے لیا، پھر ہم نے دوبارہ عیسائیوں سے لیا، اور حضرت عمرؓ کے دور سے اب سے ایک صدی پہلے تک مسلمانوں کا کنٹرول رہا ہے۔

  • حضرت عمرؓ نے ایک تبدیلی کی تھی کہ رومیوں کے زمانے میں ہیکل سلیمانی جو انبیاء کی عبادت گاہ تھی، اس پر نفرت سے کوڑے کا ڈھیر لگا دیا گیا تھا اور وہاں گندگی پھینکی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس کی صفائی کروائی، خود اپنی چادر بچھا کر صفائی شروع کی اور سارا کوڑا اٹھایا کہ یہ انبیاء کرامؑ کی عبادت گاہ رہی ہے اور مقدس جگہ ہے۔
  • دوسرا تاریخی کام حضرت عمرؓ نے یہ کیا کہ صفائی کر چکنے کے بعد ساتھیوں نے کہا کہ یہاں نماز پڑھیں تو حضرت عمرؓ نے فرمایا، نہیں! میں یہاں نماز نہیں پڑھوں گا، اس لیے کہ اگر میں نے ایک نماز یہاں پڑھ لی تو تم نے اس بہانے اس پر قبضہ کر لینا ہے، یہ ہماری عبادت گاہ نہیں ہے، یہودیوں کی عبادت گاہ ہے، یہودیوں کی عبادت کا حق ہے، ہم الگ مسجد بنائیں گے، چنانچہ انہوں نے الگ مسجد بنائی۔
  • اس کے ساتھ حضرت عمرؓ نے ان کا یہ حق بحال کر دیا کہ آ کر عبادت کر سکتے ہیں۔ یہودیوں کو اجازت دے دی، یہودیوں کی وہاں ”دیوار گریہ“ معروف ہے، نیم گری ہوئی، نیم ثابت، قدیمی آثار میں سے ہے۔ اس کے ساتھ چمٹ کر روتے ہیں، اپنے پرانے دور کو یاد کرتے اور دعائیں کرتے ہیں۔ جیسے ہم بیت اللہ میں ملتزم کے ساتھ چمٹ کر عبادت کرتے اور روتے ہیں۔

ان کو حضرت عمرؓ نے آ کر عبادت کی اجازت دے دی لیکن یروشلم کے نظام کا کنٹرول مسلمانوں کے پاس رہا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے سے خلافت عثمانیہ کے دور تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔

ہمارے ہاں خلافت کی ترتیب یہ ہے:

  1. خلافت راشدہ
  2. خلافت بنو امیہ
  3. خلافت بنو عباس۔ پھر جب ہلاکو خان نے بغداد کو برباد کر دیا تھا اور آخری عباسی خلیفہ کو قتل کر دیا تھا، پھر ہم بکھرے تھے۔ اور مصر میں کچھ دن ہمارا فاطمی حکومت کے ذریعے تھوڑا سا اقتدار رہا۔
  4. اس کے بعد عثمانی کھڑے ہوگئے، انہوں نے اسلامی ریاست قائم کی، وہی ریاست بعد میں خلافت عثمانیہ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ ان کا پہلا حکمران عثمان تھا، یہ سلطنت اس کے نام سے منسوب ہے نہ کہ حضرت عثمانؓ کے نام پر۔ سلطنت عثمانیہ نے خلافت کا ٹائٹل استعمال کیا اور اس کے بعد صدیوں حکومت کرتے رہے اور اہل اسلام کے متفق علیہ خلافت رہی ہے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس پر بھی اس کا کنٹرول تھا، خطبے میں ان کا نام پڑھا جاتا تھا، ان سے وفاداری کا اعلان ہوتا تھا۔ یہ الگ تاریخ ہے اور اہل اسلام کا خلافت عثمانیہ پر اعتماد و احترام اپنی جگہ پر ہے۔

اس دوران فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا۔ آج کے نقشے میں فلسطین اور اسرائیل دو الگ الگ ریاستیں دکھائی دیتی ہیں، یہ دونوں ملا کر اصل فلسطین تھا جو خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا۔ یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے وہاں جا کر آباد ہونا ہے اور اپنی آبادی بڑھا کر وہ ماحول پیدا کرنا ہے کہ ہم بیت المقدس کے معاملات میں دخیل ہو سکیں اور آہستہ آہستہ اس پر قبضہ کر لیں۔ اس وقت ترکی کی خلافت عثمانیہ سے ان کی کوئی لڑائی نہیں تھی۔ یہود کا وفد ترکی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانیؒ کے پاس آیا جو اپنے وقت کے بہت باوقار حکمران اور عالمی شخصیات میں سے تھے۔ قسطنطنیہ میں خلیفہ کا ہیڈ کوارٹر ”بابِ عالی“ کہلاتا تھا۔ بابِ عالی کو تقریباً تین صدیاں دنیا میں وہی پوزیشن حاصل رہی ہے جو اس وقت امریکی صدر کے وائٹ ہاؤس کو حاصل ہے کہ دنیا کے ہر معاملے میں دخل دینا اور کوئی معاملہ ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہونا اس کی پوزیشن رہی ہے۔ سلطان عبد الحمید ثانیؒ بڑے باحمیت حکمران تھے، انہوں نے اپنی یادداشتیں خود لکھی ہیں۔ ان کو بعد میں خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا، اسی دوران ان کا انتقال ہوا۔ نظربندی کے دوران انہوں نے یادداشتیں لکھیں جو ترکی میں تھیں، مجھے ایک عرصہ سے انتظار تھا پھر ان کا عربی ترجمہ ہوا تو میں نے منگوا کر پڑھیں۔ میرے پاس موجود ہے ”مذکرات السلطان عبد الحمید الثانیؒ“ کے عنوان سے۔ انہوں نے اس میں لکھا کہ میرے پاس یہودیوں کا عالمی وفد آیا۔

یہ اصطلاح سمجھنا بھی ضروری ہے کہ صہیونیت کیا ہے۔ صہیون بیت المقدس کے ساتھ ایک پہاڑی ہے، حضرت داؤدؑ کی عبادت گاہ اس پہاڑی پر تھی۔ صہیون کو یہودیوں کے ہاں وہ تقدس حاصل ہے جو ہمارے ہاں صفا اور مروہ کو ہے۔ اور اگر وہ حضرت داؤدؑ کی عبادت گاہ تھی تو اس کا تقدس ہمارے دلوں میں بھی ہے اور ہونا چاہیے۔ وہ خیمہئ داؤد کی نسبت حضرت داؤدؑ کی طرف کرتے ہیں۔ امریکہ کے صدر جمی کارٹر نے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا معاہدہ کروایا تھا۔ چند عرب ممالک نے اس معاہدے کو تسلیم کیا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ (خیمہئ داؤد) کی جگہ بطور خاص منتخب کی تھی اور وہاں جا کر صلح نامے لکھے تھے۔ یہودیوں نے صہیون پہاڑی کے تقدس کے نام سے ایک تحریک شروع کی کہ ہم اس کے تقدس کو بحال کریں گے۔

خلافت عثمانیہ کا قانون فلسطین کے حوالے سے یہ تھا کہ فلسطین میں یہودی بیت المقدس میں اپنی عبادت گاہ میں آ کر عبادت کر سکتے ہیں، کچھ دن اجازت نامے کے ساتھ رہ سکتے ہیں، لیکن یہاں زمین نہیں خرید سکتے، مکان نہیں بنا سکتے، یہاں کاروبار نہیں کر سکتے، مستقل رہائش اختیار نہیں کر سکتے۔ سلطان عبد الحمید ثانیؒ سے یہودیوں کا وفد ملا، ہرتزل اس کا لیڈر تھا، اس نے سلطان سے درخواست کی کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم تھوڑی بہت تعداد میں فلسطین میں آباد ہونا چاہتے ہیں۔ آپ اس قانون میں لچک پیدا کر کے ہمیں وہاں رہنے کی اجازت دیں۔ سلطان عبد الحمید کہتے ہیں میں نے انکار کر دیا کیونکہ ان کا سارا منصوبہ میرے ذہن میں تھا کہ یہ وہاں کرنا کیا چاہ رہے ہیں، ان کا پروگرام کیا ہے، کہتے ہیں میں نے انکار کر دیا۔

اگلے سال وہی وفد دوبارہ آیا اور اس بار پینترا بدلا۔ یہ بات آپ کے ذہن میں ہونی چاہیے کہ دنیا میں سائنسدانوں کی اکثریت یہودیوں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انٹرنیشنل سائنس یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں، سارے سائنسدانوں کو وہاں اکٹھا کریں گے، سائنس کی ترقی کے لیے ہم بڑا منصوبہ رکھتے ہیں، آپ ہماری سرپرستی فرمائیں اور ہمیں فلسطین میں جگہ دے دیں اور سہولیات فراہم کریں کہ ہم سائنس یونیورسٹی بنا سکیں۔ آپ کو بھی فائدہ ہو گا، ہمیں بھی فائدہ ہو گا۔ اور ہم آپ کی سپورٹ کے لیے تمام یہودی سائنسدانوں کو وہاں اکٹھا کر دیں گے۔ سلطان عبد الحمید نے کہا ٹھیک ہے، سائنس کی ترقی کی خاطر انٹرنیشنل سائنس یونیورسٹی کے لیے میں آپ کو جگہ بھی دوں گا، خرچہ بھی دوں گا، سپورٹ بھی کروں گا، پشت پناہی بھی کروں گا، لیکن اس شرط پر کہ وہ فلسطین میں نہیں ہوگی، فلسطین کے علاوہ دنیا کے جس خطے میں آپ بنانا چاہیں میں مکمل تعاون کروں گا۔ اس پر وہ نہیں آئے کہ نہیں! ہمیں جگہ فلسطین میں ہی چاہیے۔

تیسرے سال پھر آئے اور اب ایک اور پیشکش کی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے آغاز کا دور تھا، ہر چیز پر عروج کے بعد زوال کا دور ہوتا ہے۔ یہ خاصے مقروض ہو گئے تھے۔ یہود کی پیشکش یہ تھی کہ آپ کی سلطنت کے سارے خرچے ہم اٹھاتے ہیں، آپ کے قرضے ادا کریں گے، آپ فلسطین میں ہمیں مطلوبہ جگہ دے دیں۔ اب سلطان نے انہیں غصے سے نکال دیا اور کہا کہ آج کے بعد میں آپ سے ملاقات نہیں کروں گا اور مجھ سے آپ توقع نہ رکھیں کہ میں فلسطین میں آپ کو جگہ دوں گا۔یہ تین سال مذاکرات ہوئے۔

یہ دور تھا۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۰ء کے درمیان کا۔ اس کے بعد سلطان عبد الحمید کے خلاف ترکی میں تحریک چلی اور پھر انہیں خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ نظر بندی ہی میں خلیفہ نے یادداشتیں لکھیں اور نظربندی ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ پھر وہاں انقلاب آگیا، یہ تاریخ کا ایک الگ موضوع ہے۔

سلطان عبد الحمید نے جب آخری جواب دے دیا تو یہود برطانیہ کے پاس گئے، انہوں نے مسلمانوں سے مایوس ہو کر فلسطین کو اپنا قومی وطن بنانے کے لیے برطانیہ سے رابطہ قائم کیا۔ برطانوی حکومت سے درخواست کی کہ ہم آپ سے صلح کے لیے تیار ہیں۔ یہ جنگ عظیم اول کا دور تھا۔ ان سے کہا کہ ہم آپ کے جنگی اخراجات برداشت کریں گے، آپ فلسطین پر ہمارا حق تسلیم کریں اور یہ اعلان کریں کہ فلسطین یہودیوں کا قومی وطن ہے، اور ہم سے یہ وعدہ کریں کہ اگر اس جنگ عظیم کے بعد فلسطین کا کنٹرول آپ کو حاصل ہوا تو ہمیں وہاں آباد کرنے اور اسے اپنا وطن اور ریاست بنانے کے لیے سہولتیں فراہم کریں گے۔ اس کے لیے ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ معاہدہ ہوا جو ”بالفور ڈیکلیریشن“ کہلاتا ہے۔ برطانوی وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور تھے، ان کے ساتھ معاہدہ ہوا۔اس میں بالفور نے لکھا کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہیں اور ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ سلطنت عظمیٰ برطانیہ کو جب بھی موقع ملا ہم یہودیوں کو فلسطین میں بسانے اور ریاست قائم کرنے کے لیے سہولتیں فراہم کریں گے۔ نیٹ پر یہ بالفور ڈیکلیریشن موجود ہے، پچھلے سال اس کا ایک سو سالہ جشن منایا گیا ہے۔

جنگ عظیم اول میں ایک طرف جرمنی تھا، دوسری طرف برطانیہ، اٹلی، فرانس وغیرہ سب کا متحدہ محاذ تھا۔ خلافت عثمانیہ اس جنگ میں جرمنی کے ساتھ تھی، جرمنی کو شکست ہوئی تو خلافت عثمانیہ کو بھی ہو گئی۔ متحدہ یورپی فوجوں نے جرمنی پر بھی قبضہ کر لیا اور خلافت عثمانیہ پر بھی کر لیا۔ ترکی کے مختلف علاقوں پر کسی حصے میں فرانس گھس گیا، کسی میں اٹلی اور کسی میں برطانیہ گھس گیا۔ جنگ عظیم اول کے بعد جو بندر بانٹ ہوتی ہے کہ مفتوحہ علاقے کو قبضہ کرنے کی جنگ کے بعد فاتحین مفتوحہ علاقے آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس تقسیم میں چونکہ برطانیہ نے پہلے سے یہودیوں سے وعدہ کر رکھا تھا تو برطانیہ نے کوشش کر کے فلسطین اپنے حصہ میں لے لیا۔ اس طرح ترکی کے پیچھے ہٹنے کے بعد فلسطین برطانیہ کی نوآبادی بن گیا۔ برطانوی گورنر وہاں بٹھا دیا گیا۔ یہ ۱۹۱۶ء، ۱۹۱۷ء کی بات ہے۔ اس کے بعد برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ دنیا بھر سے جو یہودی یہاں آنا چاہیں، آ جائیں، ہماری طرف سے اجازت ہے۔ وہ قانون کہ یہودی فلسطین کی زمین نہیں خرید سکتے منسوخ کر دیا اور اجازت دے دی کہ یہودی یہاں زمین خرید سکتے ہیں، یہاں کاروبار کر سکتے ہیں، مکان بنا سکتے ہیں، رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔

۱۹۲۴ء میں ترکی سیکولر ملک بن گیا تھا، عربوں کی ریاستیں الگ الگ بن گئی تھیں، سعودیہ الگ، اردن الگ، عراق الگ۔ اب فلسطین بے یار و مددگار تھا، برطانیہ کے رحم و کرم پر تھا۔ برطانیہ نے یہودیوں کو بالفور معاہدے کے تحت فلسطین قومی وطن کے طور پر حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اس کے لیے انتظامات ہوئے اور یہودی آنا شروع ہوگئے۔ جب برطانیہ نے قبضہ کیا تو بتایا یہ جاتا ہے، بلکہ میں کل ہی ایک پرانی دستاویز پڑھ رہا تھا، اس کے مطابق اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی دو ہزار تھی۔ برطانوی سرپرستی میں مختلف علاقوں سے یہودی وہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے، زمینیں خرید کو مکان بناتے رہے، اور ایک علاقہ کو ٹارگٹ کر لیا تھا کہ ہم نے یہ علاقہ اپنی اکثریت کا علاقہ بنانا ہے۔ کراچی سے، بمبئی سے، روس سے، جرمنی سے یہودی اکٹھے ہوئے۔

اس دوران جب یہودی دنیا کے مختلف حصوں سے وہاں جا کر فلسطینیوں سے زمینیں خرید رہے تھے اور فلسطینی زمینیں بیچ رہے تھے، اس وقت فلسطین کے مفتی اعظم حضرت سید مفتی امین الحسینیؒ جوان تھے، صدر ایوب خان کے زمانے میں پاکستان بھی تشریف لائے ہیں، انہوں نے فتویٰ دیا تھا کہ فلسطین کی زمین یہودیوں پر بیچنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ یہ یہاں آباد ہو کر اپنی آبادی بنا کر اور اپنی ریاست قائم کر کے بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس فتوے کی تائید میں ہمارے بزرگوں نے بھی فتوے دیے۔ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کا فتویٰ ”کفایت المفتی“ میں موجود ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے مستقل کتابچہ لکھا اس پر جو اُن کی تصنیف ”بوادر النوادر“ کا حصہ ہے۔ انہوں نے بھی یہی بات کی کہ مفتی اعظم فلسطین ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن قوموں کے اپنے اپنے مزاج ہوتے ہیں، فلسطینیوں نے فتوے کی پرواہ نہیں کی، البتہ فتوے کا اثر یہ ہوا کہ زمین کی قیمت تین چار گنا ہو گئی، یہودی خریدتے چلے گئے، فلسطینی بیچتے چلے گئے۔

فلسطین ۱۹۴۷ء تک برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں جب اقوام متحدہ بنی تو برطانیہ نے دیکھا کہ فلسطین کے ایک حصے میں یہودیوں کی اتنی آبادی ہو گئی ہے کہ اگر ہم ریفرنڈم کروا کے ان کو وہ حصہ بطور ریاست دلوا دیں تو یہ ممکن ہے۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کو درخواست دے دی کہ میں فلسطین سے جانا چاہتا ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ ان کا مسئلہ حل کر دیا جائے، جس حصہ میں یہودی اکثریت ہے وہاں یہودی ریاست اسرائیل قائم کر دی جائے۔ چنانچہ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۷ء میں فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا:

(۱) ایک حصہ اسرائیل (۲) دوسرا حصہ فلسطین (۳) تیسرا حصہ بیت المقدس۔

  1. بیت المقدس پر عیسائی بھی دعویدار ہیں بیت اللحم کے حوالے سے ہے۔ بیت اللحم سے مراد ”مکاناً شرقیا“ (مریم ۱۶) جہاں حضرت عیسٰیؑ کی ولادت ہوئی۔ یہ بیت المقدس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہ عیسائیوں کا قبلہ ہے۔
  2. مسلمانوں کا بھی دعویٰ ہے مسجد اقصٰی کے حوالے سے۔ یہ جو سنہرا گنبد دکھایا جاتا ہے یہ مسجد صخرہ کہلاتی ہے، مسجد اقصیٰ الگ ہے۔
  3. اور یہودیوں کا دعویٰ ہیکل سلیمانی کے حوالے سے ہے۔

تین قوموں کا فلسطین پر دعویٰ ہے اور یہ تینوں جگہیں الگ الگ ہیں۔

  1. بلکہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ایک چوتھی قوم کا دعویٰ بھی فلسطین پر ہے، بہائیوں کا۔ جو مرزا بہاء اللہ شیرازی اور محمد علی الباب کے پیرو ہیں، اور قادیانیوں کے ساتھ ساتھ یہ ایران میں مستقل مذہب چل رہا ہے اور وہ دنیا بھر میں موجود ہیں۔ بہائیوں کا قبلہ ”عکہ“ ہے جو کہ فلسطین میں ہے۔ جب ایرانیوں نے انہیں نکالا تو بہاء اللہ شیرازی وہاں جا کر آباد ہو گئے۔ ان کی قبر بھی وہیں ہے، ان کے بیٹے عبد البہاء بھی وہیں ان کے جانشین بنے۔ بہائی کمزور نہیں ہیں، تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن با اثر ہیں۔ اس وقت جو فلسطین کے باضابطہ صدر ہیں محمود عباس، یہ بہائی ہیں۔

چنانچہ چار قوموں کے قبلے ہیں فلسطین میں۔

اقوام متحدہ کی تقسیم میں فلسطین یہودیوں کو دے دیا گیا، اور چونکہ فلسطین پر عیسائیوں کا اپنا دعویٰ بھی تھا، تو بیت المقدس (یروشلم) کو اس سے الگ رکھا۔ بیت المقدس نہ یہودیوں (اسرائیل) کو دیا، نہ مسلمانوں (فلسطینیوں) کو دیا۔ اسے عارضی طور پر اردن کے کنٹرول میں دے دیا، یہ کہہ کر کہ اس کا فیصلہ بعد میں بین الاقوامی سطح پر کریں گے۔ اور بعد میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے عیسائی قیادت کا ذہن یہ ہے کہ وہاں تینوں مذاہب کی مشترکہ کمیٹی قائم کر کے اس کا کنٹرول اس کو دے دیا جائے۔ جو اسرائیل کا باضابطہ نقشہ ہے، اس میں بیت المقدس اسرائیل کا حصہ نہیں ہے، اردن کا حصہ ہے۔

جب اسرائیل بنا تو اسرائیل کو یورپی ممالک، امریکہ اور روس نے تسلیم کیا، اسے سپورٹ کیا، ریاست بنوائی، اسباب مہیا کیے، اس کو مستحکم کیا۔ بعد میں ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کی تین ملکوں مصر، شام اور اردن کے ساتھ بیک وقت جنگ ہوئی۔ یہ میرے طالبعلمی کے زمانہ کی بات ہے، میں بھی جلوس وغیرہ نکالنے میں شامل تھا جمعیت طلبہ اسلام کے نام سے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے تینوں ملکوں کو شکست دے کر

  1. مصر کے صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا،
  2. شام کی گولان یہاڑیوں پر قبضہ کر لیا،
  3. اور اردن کے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔

تب سے بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں ہے جو کہ اردن کے ساتھ ہی ہے، عمان سے تین چار گھنٹے کی ڈرائیو ہے۔ اسرائیل نے قبضہ کر کے اس کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ اس کے بعد مصر نے تو اپنا علاقہ جنگ کر کے چھڑوا لیا لیکن شام کے مقبوضات اور یروشلم ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔

اس وقت موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے جو سرحدیں طے کی تھیں اس کے مطابق اسرائیل الگ تھا، فلسطین الگ، اور یروشلم الگ تھا۔ اسرائیل کے ۱۹۶۷ء کے قبضے کو عالمی برادری تسلیم نہیں کر رہی۔ بیت المقدس متنازعہ سمجھا جا رہا ہے، اقوام متحدہ بھی اسے متنازعہ ہی کہتی ہے، اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس دوران اسرائیل نے اسے دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر دیا کہ بیت المقدس ہمارا دارالحکومت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ملکوں کے سفارت خانے دارالحکومت میں ہوتے ہیں، عالم اسلام نے احتجاج کیا اور کہا کہ جو ملک بھی اپنا سفارت خانہ وہاں لے جائے گا ہم اس کے بارے میں پالیسی طے کریں گے کہ اس کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے، اس لیے بہت سے ملک ہچکچاتے رہے ہیں۔

امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہے لیکن اس بارے میں ہچکچاتا رہا، لیکن اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ صاحب نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم اپنا سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کریں گے۔ سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا باضابطہ دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ بین الاقوامی معاہدات میں متنازعہ ہے اور عالم اسلام کے ہاں بھی متنازعہ ہے بلکہ ہمارے نزدیک تو پورا فلسطین متنازعہ ہے۔ تو اب ٹرمپ کے اعلان سے یہ ایک نیا جھگڑا کھڑا ہو گیا ہے۔

میں نے عرض کیا تھا کہ اللہ رب العزت نے یہود کے بارے میں قرآن مجید میں بیسیوں باتیں فرمائی ہیں، ان میں سے ایک کا حوالہ میں نے دیا تھا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ”ضربت علیھم الذلۃ این ما ثقفوا الی بحبل من اللّٰہ و حبل من الناس“ (آل عمران ۲۱۱)۔ اللہ کی رسی، جس کی تفصیل مفسرین یوں فرماتے ہیں کہ دین اسلام قبول کر لیں۔ لوگوں کی رسی سے مراد یہ کہ لوگوں کی کوئی بڑی طاقت ان کا سہارا بن جائے۔ ”بحبل من الناس“ کا منظر آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ یہودیوں کا سب سے بڑا سہارا بنا ہوا ہے، اور اس حد تک سہارا بنا ہوا ہے کہ پوری دنیا کی اجتماعی رائے کو رد کر کے امریکہ کا صدر ٹرمپ یہودیوں کی حمایت میں اور بیت المقدس پر یہودیوں کا استحقاق جتانے کے لیے بڑی مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کے سفیر نے جو تقریر کی ہے وہ آپ نے پڑھ لی ہو گی۔ ایک تو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ فرمایا تھا کہ یہودیوں کو عزت نصیب نہیں ہوگی سوائے دو طریقوں کے، ”بحبل من اللّٰہ“ یا ”بحبل من الناس“۔ آج پوری دنیا کی اجتماعی رائے اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی کہ بیت المقدس اسرائیل کا حصہ ہے لیکن ”بحبل من الناس“ کی سب سے بڑی علامت صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو اسرائیلیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم ہر قیمت پر یہ کریں گے۔

ایک اور بات اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں فرمائی ہے ”لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوًا کبیرًا“ (الاسراء ۴) کہ ہم نے بنی اسرائیل کو یہ کہہ دیا تھا، تورات میں لکھ دیا تھا کہ تم دو دفعہ بڑے فساد کرو گے اور دو دفعہ دنیا پر اپنی چوہدراہٹ جتانے کی کوشش کرو گے، اور ہم دونوں دفعہ تمہیں سزا دیں گے۔ یہ دونوں واقعات گزر چکے ہیں۔ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی بخت نصر کے ذریعے ”بعثنا علیکم عبادًا لنا اولی باس شدید فجاسوا خلال الدیار“ (الاسراء ۵)۔ دوسری دفعہ ان کو سزا دی طیطس رومی کے ذریعے جس نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک بات اور بھی فرمائی ہے ”و ان عدتم عدنا“ (الاسراء ۸) اگر تم دوبارہ اپنی انہی حرکات پر لوٹو گے تو ہم بھی تمہیں وہی سزا دیں گے۔ تاریخ کے ایک طالبعلم کے طور پر میں سمجھتا ہوں، میرا اندازہ ہے، میں یقینی بات نہیں کر رہا کہ اب ”ان عدتم عدنا“ کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، یہودی دنیا میں دوبارہ اکٹھے ہو رہے ہیں بلکہ اکٹھے ہو چکے ہیں، اور یہود ایک طرف ہیں باقی دنیا دوسری طرف ہے، اور پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے یہود کی حرکتوں کے حوالے سے جذبات آپ کے سامنے ہیں۔

میں اس پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے جب علامات قیامت پر یہ حدیث پڑھی کہ یہودیوں کے ساتھ تمہاری جنگیں ہوں گی، والد محترم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ محترم سے سوال کیا تھا کہ یہودی تو دنیا میں کہیں بھی اکٹھے نہیں ہیں، ان کی کہیں ایک ریاست بھی نہیں ہے، اور ہم جیسے تیسے بھی ہیں بہرحال ہماری ریاستیں ہیں، قومیں ہیں، ملک ہیں، علاقے ہیں۔ یہودیوں کی ہم سے لڑائیاں کیسے ہوں گی؟ تو استاد محترم نے کہا تھا کہ بات تو سمجھ میں نہیں آتی لیکن ایسے ہی ہوگا کیونکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے تو ہمارا ایمان ہے کہ ایسے ہو گا۔ والد گرامی فرماتے تھے کہ جو بات ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے ہوتی دیکھی کہ دنیا بھر سے یہودی ایک جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد اکٹھی ہو چکی ہے اور ساری دنیا سے جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔

اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ”ان عدتم عدنا“ کی تیاری کے مراحل ہیں کہ یہودی دوبارہ جمع ہو رہے ہیں، ساری دنیا کے خلاف محاذ آرائی کیے ہوئے ہیں، اور حالات اس طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس میں ہمارے لیے بھی بہت آزمائش کی باتیں ہیں، دجال کا ظہور وغیرہ ابھی بہت سی علامات باقی ہیں۔

آج سے سو سال پہلے یہود کی یہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہے۔ خیبر سے جلاوطنی سے لے کر آج سے سو سال پہلے تک یہود کا مسلمانوں کے ساتھ کہیں کوئی تنازعہ، لڑائی نہیں تھی۔ عیسائیوں کے ساتھ ان کے تنازعات تھے اور ہم انہیں پناہ دیا کرتے تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ”لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا“ (المائدہ ۸۲) کہ پوری نسل انسانیت میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں۔ اب منظر یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی اکٹھے ہوگئے ہیں، دماغ یہود کا ہے، یہود کے پاس پیسے ہیں، باقی وسائل و اسباب عیسائیوں کے ہیں۔ یہود نے آج سے دو صدیاں قبل پہلے پروٹوکول کے نام سے جو منصوبہ بندی کی تھی وہ بتدریج آگے بڑھ رہی ہے، اس کے دو مظاہر میں عرض کرنا چاہوں گا۔

اس وقت امریکہ سب سے بڑی طاقت ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ظاہری اعتبار سے، مادی اعتبار سے، عسکری اعتبار سے اور سیاسی اعتبار سے امریکہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے اور اس کے دعوے کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر رہا۔ افغانستان کے جہاد تک دنیا میں دو بڑی قوتیں شمار کی جاتی تھیں: امریکہ اور روس۔ ان کے درمیان سرد جنگ (کولڈوار)انیسویں صدی تک رہی ہے۔ افغانستان کی جنگ کے خاتمے پر امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے یہ اعلان کیا کہ اب وہ واحد عالمی سپرپاور ہے، یک قطبی طاقت ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ بات فطرت کے خلاف ہے۔ دنیا میں کبھی یک قطبی طاقت نہیں رہی، اللہ تبارک وتعالیٰ کا سوسائٹی میں یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیلنس رکھتے ہیں، فرمایا ”ولولا دفع اللّٰہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوات ومساجد یذکر فیھا اسم اللّٰہ کثیرًا“ (الحج ۴۰)۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے روکتا رہتا ہوں، ایک طاقت بڑھتی ہے تو مقابلے میں دوسری طاقت آجاتی ہے۔ افغانستان کی جنگ کے خاتمے تک صورتحال یہ رہی ہے کہ دو طاقتیں آمنے سامنے تھیں۔ یورپ کے سامنے ہٹلر تھا، بعد میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے سامنے روس آ کھڑا ہوا تھا اور امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ چلتی رہی ہے۔

جب افغانستان کی جنگ عروج پر تھی اور امریکہ اس کی سپورٹ میں آگیا تھا تو یہ نظر آ رہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے مجاہدین کی قربانیاں اور اس کی پشت پر امریکہ کی طاقت سے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ روس شکست کھائے گا، اور پھر اس نے شکست کھائی بھی۔ اس وقت ہمارے بعض اہل علم دانشور حضرات نے یہ کہا، خود مجھ سے ہمارے بعض اساتذہ نے بات کی کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امریکہ کے مقابلے میں روس کی طاقت درمیان سے ہٹ جائے گی اور امریکہ یک قطبی طاقت ہوگا۔ اور پھر وہی ہوگا جو امریکہ چاہے گا، اس کا کوئی سامنا کرنے والا نہیں ہوگا۔

یہ بات درست تھی کہ جب دو طاقتیں آمنے سامنے تھیں تو دنیا کے ہر ملک کو سہارا تھا کہ امریکہ کا کیمپ زیادتی کرتا تو روس کا کیمپ پناہ دینے کے لیے موجود تھا۔ اور اگر روس کا کیمپ زیادتی کرتا تو امریکہ کا کیمپ پناہ دینے کے لیے موجود تھا۔ خود مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں کیمپ موجود تھے جو توازن کا کردار ادا کر رہے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ افغانستان کی جنگ ٹھیک نہیں تھی، وہ تو ٹھیک تھی، لیکن ہر جنگ کے کچھ مثبت نتائج ہوتے ہیں کچھ منفی بھی ہوتے ہیں۔ افغانستان کی جنگ کے خاتمے پر عالمی طاقت کا توازن بگڑ گیا اور امریکہ واحد طاقت رہ گئی، ابھی تک امریکہ کو چیلنج کرنے والا سامنے کوئی نہیں ہے۔ لیکن یہ ماحول زیادہ دیر رہے گا نہیں کیونکہ فطرت کے خلاف ہے، البتہ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ امریکہ یک قطبی طاقت ہے اور کوئی طاقت اس کے سامنے کھڑا ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

موجودہ صورتحال میں یہود کا کردار کیا ہے؟ میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہود کے کردار کو سمجھنے کے لیے امریکہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی اصل آبادی کو تو ریڈ انڈین کہہ کر انہوں نے کناروں پر لگا دیا ہے۔ اسپین میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی، اس وقت اسپین کی ملکہ ازابیلہ کے کہنے پر کولمبس وغیرہ دنیا میں سیاحت کرتے ہوئے سمندر میں سفر کر کے دوسرے کنارے تلاش کر رہے تھے، اسی میں امریکہ دریافت ہوا جو بہت بڑا بر اعظم ہے۔ اس میں امریکہ، کینیڈا، میکسیکو، برازیل، جنوبی امریکہ اور شمالی امریکہ سب شامل ہیں۔ اب جو امریکہ کی موجودہ آبادی ہے یہ یورپ، جرمن، اسپین، فرانس اور برطانیہ وغیرہ سے گئے ہوئے لوگ ہیں جنہوں نے امریکہ کو آباد کیا تھا۔ یہ پہلے وہاں کی لوکل آبادی سے کام لیتے رہے، پھر افریقہ سے ملازم اور غلام بھرتی کر کے لے جاتے رہے۔ امریکہ کو آباد کیا، اسے ترقی دی، اسے آرگنائز کیا، اسے سماجی بھلائی، تمدن و تہذیب سب کچھ فراہم کیا۔ اس وقت بھی آپ کو امریکہ میں مختلف نسلوں کے لوگ ملیں گے اور بہت سے ملکوں کے شہروں کے نام بھی وہ اپنے ساتھ لے گئے مثلاً برمنگھم وغیرہ۔ امریکہ میں اسپینش سب سے زیادہ ہیں اور انگلش کے ساتھ اسپینش زبان امریکہ کی دوسری سرکاری زبان ہے۔ یہ اسپین کے لوگ تھے جو اسپین سے بھاگے تھے وہ وہاں جا کر آباد ہوئے۔ اسپینش جو وہاں آباد ہیں ان کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی اولاد ہے۔

جب امریکہ میں مختلف ممالک سے لوگ جا کر آباد ہونے لگے، یہود نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ میں آباد ہونا شروع ہو گئے، اور صرف آباد ہونا شروع نہیں ہوئے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی کشمکش آج سے سو سال پہلے تک قائم تھی، عیسائی سیاست دان اور عیسائی علماء بھی یہود کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کی حیثیت ایک اقلیت کی تھی، ایسی اقلیت جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ امریکہ میں یہودیت کے ارتقا کی تاریخ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے وہاں نئے براعظم میں آباد ہو کر نئے سرے سے منصوبہ بندی کی، نئی صف بندی کی۔ تعلیم، سائنس، معیشت اور تجارت کے راستوں سے یہود نے وہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کیا اور ایک منظم پلان کے ساتھ آہستہ آہستہ وہاں کے کلیدی مناصب پر، کلیدی شعبوں میں اپنا کنٹرول قائم کیا۔ اس وقت بقول اقبالؒ

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

یورپ میں بھی انہوں نے ایسے ہی کیا، محاذ آرائی بالکل چھوڑ دی اور خفیہ خفیہ تعلیمی شعبے میں آگے آگئے۔ معیشت میں ان کی ہمیشہ سے بالادستی رہی ہے اور ان کا دماغ بھی بہت کام کرتا ہے۔ ان کے سازشی دماغ کو سمجھنا ہو تو اس کے لیے قرآن کریم نے ان کے جو گزشتہ واقعات بیان کیے ہیں وہی کافی ہیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے یورپ اور امریکہ دونوں براعظموں میں اپنا اثر و رسوخ بنانا شروع کیا۔ یورپ میں تو یہ ایک حد تک ہیں، یورپ پوری طرح ان کے ساتھ نہیں ہے اور اس کا کنٹرول ان کے پاس ایک حد سے زیادہ نہیں۔ لیکن امریکہ میں یہ مکمل کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ امریکہ کے تھنک ٹینکس میں، امریکہ کی سیاسی قیادت، معاشی قیادت، امریکہ کے بینکنگ کے نظام میں نوے فیصد کنٹرول یہود کا ہے۔ پالیسی سازی کے مراکز تک رسائی حاصل کرنا اور کنٹرول حاصل کرنا، یہ یہودیوں کی تکنیک رہی ہے۔

اور یہاں میں یہ بات یاد دلانا چاہوں گا کہ یہ بات علامہ اقبال مرحوم نے قادیانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی پس منظر میں کی تھی۔ قادیانیوں کا جو طریقہ انگریزوں کے دور میں تھا کہ اعلیٰ مناصب تک پہنچ کر اعلیٰ محکموں میں رسوخ حاصل کر کے کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ انگریزوں کے دور سے ان کی یہ تکنیک چلی آرہی تھی۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک نے قادیانیوں کو بریک لگائی۔ اقبالؒ نے اسی پس منظر میں کہا تھا کہ قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے۔ اس وقت امریکہ میں یہود کی آبادی بمشکل ایک یا ڈیڑھ فیصد ہو گی لیکن امریکہ کی پالیسیوں پر کنٹرول یہود کا ہے، جس کی ایک بات تو میں نے اقبالؒ کے حوالے سے ذکر کی ہے۔

دوسرے میں یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ جب ۱۹۷۴ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو بھٹو مرحوم اپنے اس فیصلے کے دفاع میں جو باتیں کہا کرتے تھے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے جیل میں اپنے نگران کرنل رفیع سے کہا کہ احمدی پاکستان میں وہی پوزیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے۔ آگے وضاحت کی کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہونے پائے۔ بھٹو مرحوم نے کہا تھا کم از کم میں تو یہ نہیں ہونے دوں گا کہ پاکستان کی پالیسیوں کا کنٹرول ایک اقلیتی گروہ کے ہاتھ میں چلا جائے۔ فرق یہ ہوا کہ

  • یہودیوں کے راستے میں کوئی مزاحمت نہیں تھی، عیسائی علماء نے مزاحمت کی کوئی قوت کھڑی نہیں کی، اور یہودی مزاحمت کے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے اور تقریباً ایک صدی میں انہوں نے امریکہ کے معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
  • جبکہ قادیانیوں کو مزاحمت کا سامنا تھا، اگر قادیانیوں کو ۱۹۵۳ء کی تحریک کی مزاحمت کا سامنا نہ ہوتا۔ آج بھی اگر انہیں مزاحمت کا سامنا نہ ہو تو قادیانی اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ تھوڑے سے عرصے میں پاکستان میں وہ پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے، اسی لیے وہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

خیر یہودیوں نے امریکہ پر کنٹرول حاصل کر لیا، امریکہ کی پالیسیاں یہود کے اشارے پر چلتی ہیں، یعنی اس وقت یہود کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں اور امریکہ باقی دنیا کو چلا رہا ہے۔

  • یہود کی اس تگ و دو کے پیچھے ایک تو ان کا وہ پرانا خواب ہے کہ فلسطین ان کا وطن ہے انہوں نے واپس لینا ہے، یروشلم کو دوبارہ قبضے میں لینا ہے، ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنا ہے اور اسرائیل کو بحال کرنا ہے، حضرت سلیمانؑ کے زمانے کی اسرائیلی ریاست کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔
  • دوسرے یہ کہ یہودیت نسلی مذہب ہے صرف بنی اسرائیل کے لیے ہے، ان کی نسلی برتری کے احساس کا ذکر قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پر کیا ہے۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں یہود اور عیسائیوں کو جو رکاوٹ تھی وہ نہ پہچاننا نہیں تھی، بلکہ وہ آپؐ کو پہچانتے تھے ”الذین اتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم“ (البقرہ ۱۴۶) پھر ان کے انکار کی وجہ کیا بنی؟ قرآن مجید میں ہے ”حسدًا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق“ (البقرہ ۱۰۹)۔ ان کے انکار کی بڑی وجہ حسد تھی۔ حسد اس بات پر کہ یہ نبیؐ بنی اسرائیل میں کیوں نہیں آئے، بنی اسماعیل میں کیوں آئے ہیں۔ جس کو پنجابی زبان میں ہم ”شریکا“ کہتے ہیں کہ چچا زاد بھائیوں میں کیوں آئے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ”قالوا نؤمن بما انزل علینا ویکفرون بما ورآۂ“ (البقرہ ۹۱)۔ بنی اسرائیل سے ہٹ کر ہر وحی کا انکار کرتے ہیں، یہ ان کی نسلی برتری اور فوقیت کا احساس تھا جس کی بنیاد حسد ہے۔

عیسائیوں میں بھی یہی بات تھی، اس وقت میں حوالے کے لیے بخاری شریف کی ایک روایت کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ قیصر روم کے سامنے جب جناب نبی کریمؐ کا گرامی نامہ پیش ہوا اور قیصر روم نے جناب ابو سفیان سے، جو اس علاقے میں آئے ہوئے تھے، بلا کر جناب نبی کریمؐ کے بارے میں طویل انٹرویو کیا تھا، وہ بڑا دلچسپ مکالمہ ہے۔ حضورؐ کی ذات و قوم، آپ کے اخلاق اور آپ کی دعوت کے بارے میں سوالات کیے تھے۔ ابو سفیان جواب دیتے گئے، آخر میں اس نے کہا تھا کہ میں بھی نبی آخر الزمان کے انتظار میں ہوں، لگتا ہے کہ یہ وہی ہیں۔ اور جناب ابوسفیانؓ سے کہا تھا جو تم کہہ رہے ہو اگر یہ درست باتیں ہیں تو ”انہ لنبی“ بے شک وہ نبی ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ان کے پاؤں اپنے ہاتھوں سے دھوتا، لیکن مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ تم بدوؤں میں آ جائے گا۔ چنانچہ یہ بات اس کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی۔ یہود کے راستے میں بھی یہی نسلی حسد رکاوٹ بنا۔

چنانچہ اس وقت یہود کا ایجنڈا صرف اسرائیل قائم کرنے کا نہیں ہے، وہ تو ہے ہی، ساتھ ہی اسرائیل قائم کر کے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا ایجنڈا بھی ہے۔ اس بنیاد پر کہ ”نحن ابناء اللّٰہ واحباۂ“ (المائدہ ۸۱)۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بنی اسرائیل برتر نسل ہیں اور ان کو نسلی بنیاد پر دنیا پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ دنیا اسرائیل کو ایک نسلی مذہب کہتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جنوبی افریقہ میں گوروں کی حکومت نسلی بنیاد پر تھی۔ گوروں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور وہ کالوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ اور اقوام متحدہ کے کاغذات میں، بین الاقوامی برادری کے کاغذات میں بھی، جنوبی افریقہ اور اسرائیل کو نسل پرست ریاستیں کہا جاتا تھا۔ اب تو جنوبی افریقہ بدل گیا ہے، وہاں حکومت تبدیل ہو گئی، اب وہ دور ختم ہوا اور اب سیاہ فام اکثریت کی حکومت ہے۔ لیکن اسرائیل ابھی تک اسی نسلی برتری میں ہے۔

تو میں نے دو باتیں عرض کی ہیں کہ

  1. یہودی حضرت سلیمانؑ کی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے کوشاں ہیں،
  2. اور دوسرے یہ کہ یہود نسلی برتری کے خبط کا شکار ہیں اور پوری دنیا پر عالمی قیادت اور کنٹرول کے دعویدار ہیں۔

ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ چونکہ خود ان کے اپنے پاس طاقت نہیں ہے، انہوں نے پہلے ہمیں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی، سلطان عبد الحمید ثانی کے ساتھ ان کے مذاکرات اور پیشکشیں ہوئیں۔ سلطان ساری بات کو سمجھتے تھے اس لیے ان کے قابو نہیں آئے۔ جبکہ برطانوی حکومت کے ذریعے، جو اس وقت سب سے بڑی مسیحی قوت تھی، عیسائی ان کے قابو آ گئے۔ انہوں نے ساری پلاننگ کر کے عیسائی وسائل کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ مختصر طور پر خلاصہ بات کا یہ ہے کہ یہودی دماغ اور عیسائی وسائل مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور اس وقت عالم اسلام اور اسلام ان کا ٹارگٹ ہے۔ جہادِ افغانستان کے مکمل ہونے پر، روس کے شکست کھانے پر امریکہ اور روس کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول ختم ہو گیا تھا۔ اب روس طاقت ہے لیکن سامنے کی طاقت نہیں ہے، یہ امریکہ کو کسی معاملے میں چیلنج نہیں کر رہا۔ نیٹو کے سیکرٹری نے افغانستان کی جنگ کے خاتمے پر کہا تھا، ایک حریف ہمارے راستے سے ہٹا ہے، اسلام ابھی باقی ہے۔ یہودی اسلام کو مغرب سے لڑا کر اور مغرب کو اسلام کے خلاف استعمال کر کے اپنا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔

اس وقت ہمارا ماحول یہ ہے قرآن کریم کی وہ آیت ہمارے سامنے ہے ”لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا“ (المائدہ ۸۲)۔ لیکن عالم اسلام اسرائیل کے حوالے سے دو کیمپوں میں تقسیم ہے:

  1. ایک کیمپ جس میں پاکستان، سعودی عرب، ایران اور کچھ اور ممالک بھی ہیں، یہ سرے سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہمارے پاسپورٹ میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسرائیل کو ایک ریاست تسلیم نہیں کرتے، اس کو ناجائز ریاست سمجھتے ہیں، اور ہمارا موقف یہ ہے کہ فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے۔ صدام حسین مرحوم کو جب پھانسی دی گئی اس میں عراق کے مقامی مسائل بھی تھے لیکن مشرق وسطیٰ کے حوالے سے وہ اسرائیل کا سخت ترین مخالف تھا، یہودیوں کا دشمن اور فلسطینیوں کا سخت حامی تھا۔ وہ کلپ موجود ہے جب صدام کو پھانسی دی جا رہی تھی تو اس کی زبان پر آخری جملہ یہ تھا کہ اس نے اعلان کیا تھا فلسطین فلسطینیوں کا ہے، پھر ”اشھدان لا الہ الا اللّٰہ“ آدھا کلمہ ہی پڑھا تھا کہ رسی کھینچ دی گئی تھی اور وہ شہید ہوگیا تھا۔چنانچہ ایک موقف یہ ہے کہ فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے، یہود نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے، ناجائز قبضہ کیا ہے، اسرائیل کی ریاست ناجائز ہے، ہمارا موقف بھی یہی ہے۔
  2. لیکن ہمیں یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بہت سے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اپنی صفوں کا یہ فرق ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے۔ ترکی، مصر، اردن، قطر، شام نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور ان سے امریکہ نے تسلیم کرایا تھا۔ صدر جمی کارٹر نے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کروائے تھے اور اسرائیل تسلیم کرایا تھا، ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ لیکن جو ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں، وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اسرائیل اس حد تک ایک جائز ریاست ہے جو اقوام متحدہ نے تقسیم کی تھی۔ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے تین حصوں میں تقسیم کیا تھا: (۱) ایک حصہ یہودی اکثر آبادی پر مشتمل اسرائیل (۲) دوسرا فلسطین (۳) اور تیسرا متنازعہ علاقے کے طور پر اردن کی تحویل میں۔ پھر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے جو اردن کے حصے پر، شام کی گولان کی پہاڑیوں پر، اور بیت المقدس پر قبضہ کیا ہے، یہ ان ممالک کے ہاں بھی ناجائز قبضہ ہے، وہ اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔

یہ میں موقف کا فرق واضح کر رہا ہوں، کیونکہ بعض دوست پوچھتے ہیں او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کوئی واضح قدم کیوں نہیں اٹھا رہی؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے جو ہمیں سمجھنی چاہیے، جب یہ اکٹھے بیٹھتے ہیں تو موقف کے فرق بلکہ تضاد کی وجہ سے کوئی اجتماعی حکمت عملی نہیں طے ہو پاتی۔

حضرات محترم! میں نے یہودیت کا کچھ تاریخی پس منظر، مسلم یہودی تعلقات کا ایک تناظر، اسرائیل کے قیام کا پس منظر، موجودہ معروضی صورتحال، اور مستقبل کے امکانات کے حوالے سے چند باتیں آپ کے سامنے عرض کی ہیں۔ اگلی نشست میں عیسائیوں کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

2016ء سے
Flag Counter