مخلوط طریقِ انتخاب کی بحالی

   
فروری ۲۰۰۲ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں عام انتخابات کے اعلان سے قبل جن انتخابی اصلاحات کا اعلان کیا ہے ان میں دیگر باتوں کے علاوہ جداگانہ طرزِ انتخابات ختم کر کے مخلوط طریقِ انتخاب کا نفاذ بھی ہے۔ جس کے تحت اب اقلیتی ووٹر اپنے لیے الگ نمائندے منتخب نہیں کر سکیں گے، بلکہ انہیں یہ حق ہو گا کہ وہ کسی بھی عام نشست سے الیکشن لڑ کر اسمبلی کا رکن منتخب ہوں۔ اس طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص الگ نشستیں ختم ہو جائیں گی، اور اسمبلیوں کی ان نشستوں پر مسلمان یا غیر مسلم کوئی بھی امیدوار الیکشن میں آزادانہ حصہ لے سکے گا۔

ایک دور میں جب پاکستان میں مخلوط طرزِ انتخاب رائج تھا تو اقلیتوں کی طرف سے مطالبات ہوتے تھے کہ ان کے لیے اسمبلیوں میں الگ نشستیں مخصوص کی جائیں اور انہیں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ چنانچہ خود اقلیتوں کے مطالبہ پر جداگانہ طرزِ انتخاب اپنایا گیا اور اقلیتوں کے لیے الگ نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ اس فیصلہ پر صرف دو حلقوں کو اعتراض تھا:

  1. ایک ان سیکولر حلقوں کو جو جداگانہ الیکشن کو پاکستان کے نظریاتی تشخص کی علامت سمجھتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لیے کوشاں رہے۔
  2. اور دوسرے قادیانی جنہیں جداگانہ الیکشن میں اپنی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی صورت میں اس فیصلہ کو تسلیم کرنا پڑتا تھا جس کے تحت انہیں پاکستان میں دستوری طور پر مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا گیا ہے، اور جسے قبول کرنے سے وہ ابھی تک انکاری ہیں۔

چنانچہ سیکولر حلقوں اور قادیانیوں نے باہمی ملی بھگت کر کے ملک کی دوسری اقلیتوں کو بھی ورغلایا اور جداگانہ الیکشن کے خلاف اقلیتوں کا ایک مستقل محاذ بنوا دیا۔ جس کی وجہ سے صدر پرویز مشرف نے مخلوط طرزِ انتخاب کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ اس میں خود اقلیتوں کا سراسر نقصان ہے کیونکہ جداگانہ الیکشن کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے مجموعی طور پر دو درجن سے زائد نمائندے پہنچ جاتے تھے، جبکہ مخلوط انتخاب کے ذریعے اس کا پانچواں حصہ بھی وہ شاید حاصل نہ کر پائیں۔

یہی وجہ ہے کہ باشعور اقلیتی نمائندوں نے، جن میں اقلیتی امور کے سابق وزیر مملکت بشپ ڈاکٹر روفن جولیس، اور اقلیتی مشاورتی کونسل پنجاب کے ارکان سردار مستان سنگھ اور میر کرشن لعل نبیل شامل ہیں، مخلوط انتخابات کے نئے فیصلہ کی مخالفت کی ہے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ اس سے ہمارے مذہب کی نمائندگی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب کو دوبارہ رائج کیا جائے کیونکہ اسی صورت میں اقلیتی مذاہب کے لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو سکتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف کا یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف ہے بلکہ اقلیتوں کے مفاد اور حقوق کے بھی منافی ہے۔ اس لیے انہیں اس پر نظرثانی کرنی چاہیے اور محض سیکولر حلقوں اور قادیانیوں کو خوش کرنے کے لیے اقلیتوں کی نمائندگی اور پاکستان کی نظریاتی اساس کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter