فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مجلس احرار اسلام کے سالانہ ختم نبوت کورس کے لیے پیغام
ہمارے دینی مدارس کے نظام میں شعبان اور رمضان تقریباً نصف شوال تک سالانہ تعطیلات ہوتی ہیں۔ اور ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان تعطیلات کے دوران ہمارے اساتذہ اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد خالی چھٹیاں گزارنے کی بجائے کسی نہ کسی شعبہ میں تخصصات کے اور معلومات کے کورس کرتے ہیں۔ کہیں قرآن پاک کی تفسیر کا دورہ ہوتا ہے، کہیں حدیث و سنت کے حوالے سے مباحث ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مولانا قاری عبد الحلیمؒ اور مولانا ظفر احمد قاسمؒ
ماضی کو یاد رکھنا اور بزرگوں کو یاد کرنا یہ تو قرآن کریم کا حکم بھی ہے اور اسلوب بھی۔ قرآن کریم نے حکم دیا ’’ذکرھم بایام اللہ‘‘ کہ گزرے ہوئے دنوں کو یاد کر کے لوگوں کو نصیحت کریں۔ یعنی پچھلے دنوں میں اچھے لوگوں نے کیا کیا تھا، برے لوگوں نے کیا کیا تھا، اچھے کاموں کا انجام کیا ہوا تھا، برے کاموں کا نتیجہ کیا ہوا تھا۔ پچھلے زمانوں اور لوگوں کو یاد کریں اور اس کے ساتھ نصیحت کریں، سبق حاصل کریں۔ مکمل تحریر
تحریکِ خلافت اور معاہدہ لوزان
بعد الحمد والصلوٰۃ تحریکِ خلافت کو تقریباً سو سال ہو گیا ہے۔ ۱۹۱۶ء تا ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ ایک بڑی تحریک برصغیر میں کلکتہ سے پشاور تک تحریکِ خلافت کے عنوان سے بپا ہوئی۔ یہ ہندوستان میں آزادی کی تحریکات میں سب سے پہلی سیاسی تحریک تھی۔ اس سے پہلے عسکری، فوجی اور جہادی تحریکات رہی ہیں۔ شہدائے بالاکوٹؒ کی تحریک، حاجی شریعت اللہؒ کی بنگال کی فرائضی تحریک، ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان
انگریزوں کے قبضے سے پہلے جنوبی ایشیا میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، شمس الدین التمش، ظہیر الدین بابر اور احمد شاہ ابدالی رحمہم اللہ تعالیٰ حکمران رہے۔ غزنوی ، تغلق اور مغلوں کے دور میں مسلمانوں کی حکومت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں، پھر دہلی کے ذریعے پورے ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال قائم رہی۔ مسلمان یہاں حاکم رہے اور شرعی قوانین ایک ہزار سال تک نافذ رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― دورِ حاضر کے مدعیانِ نبوت
میری گفتگو کا ایک دائرہ یہ ہوتا ہے کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں نئی نبوت اور وحی کے دعوے کے ساتھ کون کون سے گروہ دنیا میں موجود ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان سے بھی ہمیں ضرور متعارف ہونا چاہیے، یہ تقریباً چار یا پانچ ہیں، ان کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک تو ذکری مذہب ہے کہ بلوچستان میں مکران اور تربت کی پٹی ان سے بھری پڑی ہے، یہ تقریباً چار سو سال سے چلے آرہے ہیں، ان کی مختصر تاریخ ذکر کر دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― دورِ اول کے مدعیانِ نبوت
حضرات علماء کرام! آج منحرف مذاہب کے حوالے سے بات کریں گے۔ منحرف مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جو نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ میں نے ان کو منحرف مذاہب کا ٹائٹل صرف فرق بتانے کے لیے دے رکھا ہے ورنہ تو یہ غیر مسلموں میں ہی ہیں۔ یہ اس وقت کون کون سے ہیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپؐ کے بعد اب تک بہت سے لوگوں نے مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں نبوت اور نئی وحی کا دعوٰی کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― بدھ مت
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ حضرات علماء کرام! آج بدھ مذہب کے بارے میں تعارفی معلومات مہیا کی جائیں گی۔ بدھ ازم، بدھ مت، یہ مہاتما بدھ کے نام سے متعارف ہے۔ مہاتما بدھ کا اصل نام ’’سدارتھا بوتم‘‘ ہے۔ ’’مہاتما‘‘ خدا کی صفات کے مظہر کو کہتے ہیں۔ مہاتما بدھ پانچ سو سال قبل مسیح ہندوستان کے علاقے میں راجہ شدودھن کے ہاں پیدا ہوئے جو کہ ہندو کھشتری ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ مہاتما بدھ کی پیدائش نیپال کی سرحد کے قریب بھارت میں اور بعض مؤرخین کے مطابق بنارس کے شمال میں ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی میں ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― ہندومت
حضرات علماء کرام! آج ہندو مذہب کے حوالے سے کچھ بات ہو گی کہ ہندو مذہب کیا ہے، اس کے ساتھ ہمارے معاملات کیا چلے آرہے ہیں، اور اس وقت ہم کس پوزیشن میں ہیں۔ ہندو مذہب کا آغاز کب ہوا، اس کی بنیادیں کیا ہیں، اور ان کے بنیادی عقائد کیا ہیں، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ہندو مذہب کی بنیاد اور بنیادی عقائد کے بارے میں کوئی متفقہ بات نہیں ملتی۔ عام طور پر اسے وطنی مذہب سمجھا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں متحدہ ہندوستان میں رہنے والے لوگ ہندی اور ان کا مذہب ہندو مذہب کہلاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― سکھ مت
ان ادیان میں سے جن مذاہب کے ساتھ ہمارا عملی واسطہ ہے آج آغاز کرنے لگا ہوں، اپنے قریبی اور پڑوسی مذہب یعنی سکھ مذہب کے بارے میں۔ سکھ مذہب پنجاب کا مذہب ہے، ان کی تاریخ زیادہ سے زیادہ پانچ سو سال کی ہے، اکبر بادشاہ کے زمانے میں ان کا آغاز ہوا۔ ان کو سمجھنے سے پہلے ایک اور بات سمجھنی ضروری ہے کہ بابا گرو نانک سکھ مذہب کے بانی پہلے ہندو تھے۔ شیخوپورہ کے ساتھ ننکانہ صاحب ضلع ہے، اس کا پرانا نام تلونڈی تھا۔ بابا نانک کے نام سے اس کا نام ننکانہ صاحب رکھا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― عیسائیت
حضرات علماء کرام! آج آپ سے بات کرنا چاہوں گا عیسائیت، مسیحیت، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیروکاری کا دعوٰی رکھنے اور انجیل کی بات کرنے والوں کے بارے میں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ساڑھے پانچ، چھ صدیاں پہلے مبعوث ہوئے اور خاتم انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجیل عطا فرمائی، ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور بغیر موت کے زندہ اٹھا لیا۔ یہ ان کے اعزازات و امتیازات میں سے ہے۔ حضرت عیسٰیؑ نے فلسطین میں اپنی دعوت پیش کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― یہودیت
تعارف ادیان و مذاہب کے حوالے سے ہم نے گزشتہ نشست میں بات شروع کی تھی۔ موجودہ تناظر میں عالمی طور پر ہمارا سب سے بڑا ٹکراؤ یہود سے ہے، تو آج ان کے حوالے سے بات ہوگی۔ یہودیت اس وقت تعداد کے لحاظ سے کوئی بڑا مذہب نہیں ہے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہیں۔لیکن اثر و رسوخ کے اعتبار سے، عالمی نظام میں مداخلت کے اعتبار سے، میڈیا اور معیشت پر کنٹرول کے حوالے سے یہودی اس وقت طاقتور ترین قوم ہیں۔ یہودیت کو سمجھنا اور پہچاننا ہمارے لیے بہت سے حوالوں سے ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سیرۃالنبیؐ اور مزدوروں کے حقوق
ہماری آج کی نشست کا عنوان ہے ’’سیرۃ النبیؐ اور مزدوروں کے حقوق‘‘ اس حوالے سے دو تین اصولی باتیں عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ مزدور کسے کہتے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کہتے ہیں کہ ہم آپس میں اشیا اور صلاحیتوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو ہمارا نظام چلتا ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری ضروریات خود پوری نہیں کر سکتا، کوئی ضرورت کوئی بندہ پوری کرتا ہے، دوسری ضرورت کوئی اور پوری کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سیرۃ النبیؐ اور افسروں کے حقوق
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس سال کی ہماری نشستوں کا موضوع یہ چلا آ رہا ہے کہ مختلف طبقات کے ساتھ (مسافروں، قیدیوں، غلاموں، مہمانوں، مزدوروں کے ساتھ) حضورؐ کی سنت مبارکہ کیا تھی؟ آج کی نشست کا عنوان ہے کہ افسروں کے ساتھ حضورؐ کا طرزعمل کیا تھا۔ جناب نبی کریمؐ جن لوگوں کو ڈیوٹی پر مقرر فرماتے، وقتی طور پر یا مستقل طور پر، اس زمانے میں عامل اور والی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سیرۃ النبیؐ اور معاشی حقوق
معاشی حقوق کیا ہوتے ہیں اور معیشت کیا ہوتی ہے؟ انسان جب زندگی گزارتا ہے تو اسے اخراجات کے لیے اسباب کی ضرورت پڑتی ہے، پیسوں کی اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی ضروریات شروع ہو جاتی ہیں اور اس کو جتنی بھی زندگی ملے آخر وقت تک یہ ضروریات باقی رہتی ہیں۔ یہ ضروریات اسباب سے ہی پوری ہوتی ہیں، جیب میں پیسے ہوں گے، خرچہ ہو گا تو ضروریات پوری ہوں گی۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مختلف دائرے بتائے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تعارفِ ادیان و مذاہب: چند ضروری تقاضے
ہمارے ہاں ”تقابل ادیان“ کے عنوان سے مختلف مدارس اور مراکز میں کورسز ہوتے ہیں جن میں ادیان و مذاہب کے درمیان چند اعتقادی اختلافات پر مباحثہ و مناظرہ کی تربیت دی جاتی ہے، جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انتہائی ضروری ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر میری طالب علمانہ رائے میں یہ اس وسیع تر موضوع کے لحاظ سے انتہائی محدود اور جزوی سا دائرہ ہے جبکہ اس عنوان پر اس سے کہیں زیادہ وسیع تناظر میں گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی حسین یادیں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی قدس اللہ سرہ العزیز ان بزرگوں میں سے ہیں جن کے ساتھ میری زندگی بھر تحریکی، مسلکی اور دینی رفاقت رہی۔ جن چند بزرگوں کے ساتھ میری رفاقت مسلسل رہی اور ایک دوسرے پر اعتماد بھی الحمد للہ ہمیشہ رہا، ان میں ایک مولانا چنیوٹیؒ ہیں۔ آپؒ چنیوٹ کے رہنے والے تھے، ان کے والد محترم سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان کی زیارت بھی کی ہے، ان کے گھر کئی دفعہ گیا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تحریک ختم نبوت کی چند یادیں
میری یادداشتوں کے حوالے سے ایک شعبہ تحریک ختم نبوت کا بھی ہے۔ ختم نبوت کی تحریک میں کچھ نہ کچھ حصہ لیتا رہا ہوں۔ تحریک ختم نبوت کے ساتھ میرا تعلق کب ہوا، کن کن مراحل سے گزرا اس کا کچھ خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا۔ قادیانیوں کو پاکستان بننے کے بعد غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک تحریک ۱۹۵۳ء میں چلی تھی۔ اس وقت میری عمر پانچ سال تھی، مگر اس دور کی چند جھلکیاں ابھی تک ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا محمد حیاتؒ
حضرت مولانا محمد حیاتؒ شکرگڑھ کے قریب ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور درویش صفت عالمِ دین تھے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کو علم و تکلم، تقویٰ و عمل کی بڑی خصوصیات سے نوازا تھا۔ مولانا کی ڈاڑھی قدرتی طور پر نہیں تھی اور ان کا طرزِ زندگی بہت سادہ تھا،کوئی آدمی بظاہر انہیں دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ عالم دین اور دینی بزرگ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ
مولانا عبید اللہ انورؒ میرے شیخ تھے اور امیر بھی۔ میں نے ایک طویل عرصہ ان کے ساتھ ایک خادم، مرید اور ساتھی کے طور پر گزارا ہے۔ حضرت لاہوریؒ کے بڑے بیٹے حضرت مولانا حافظ حبیب اللہؒ فاضل دیوبند تھے، ان کی زیارت میں نہیں کر سکا کہ وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ’’مہاجر مکی‘‘ کہلاتے تھے، وہیں زندگی گزاری اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا۔ حضرت لاہوریؒ کے دوسرے بیٹے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ تھے۔ جبکہ حضرت لاہوریؒ کے تیسرے بیٹے حضرت مولانا حافظ حمید اللہ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قادیانیوں کے پھیلائے دو مغالطوں کا جائزہ
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قادیانی ہر دور میں مغالطوں سے کام لیتے آئے ہیں، مغالطہ دینا ان کا خاص فن ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ میری امت میں تیس اور ایک روایت کے مطابق ستر لوگ ایسے پیدا ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ اور ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جھوٹے مدعیانِ نبوت کے دو وصف بیان کیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
امریکہ کا پہلا سفر
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پروگرام کے مطابق آج ہماری اس سال کی آخری نشست ہے۔ اس سال ان فکری نشستوں کا موضوع” یادداشتیں “ تھا۔ مختلف تحریکات، اسفار اور مصروفیات کے بارے میں اپنی یادداشتیں اور معلومات بیان کر رہا تھا ریکارڈ بھی ہو رہی ہیں۔ آج مولانا محمد عبد اللہ راتھر نے فرمایا کہ ان یادداشتوں میں امریکہ کی کوئی بات نہیں ہے، حالانکہ امریکہ کے میرے درجنوں سفر ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
برطانیہ کا پہلا سفر
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرا برطانیہ کا پہلا سفر قادیانیت کے حوالے سے تھا اور امریکہ کا پہلا سفر بھی قادیانیت کے حوالے سے تھا۔ اس نشست میں لندن کے پہلے سفر کا پس منظر عرض کر دیتا ہوں۔ پاکستان میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں ہوا کرتی تھی، سالہا سال سے معمول تھا۔ قادیانی ربوہ (چناب نگر) میں کانفرنس کرتے تھے، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی کانفرنس چنیوٹ میں ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مختلف مذاہب کے دانشوروں سے ملاقاتیں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ان نشستوں میں گفتگو کے لیے بنائی گئی فہرست میں ایک موضوع ہے ”غیر مسلم شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں اور غیر مسلم اداروں میں حاضری“۔ غیر مسلم مذہبی شخصیات کے ساتھ میری ملاقاتیں رہتی ہیں اور غیر مسلم مذہبی اداروں میں آنا جانا بھی رہتا ہے، اس سلسلہ میں اپنے بعض مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا لیکن اس سے پہلے یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں ضروری ہے؟
بعد الحمد والصلوٰۃ! ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ”پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد“ ہے، میں اس کے عمومی تناظر پر مختصراً کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ باقی تمام پہلوؤں سے قطع نظر ہم بحیثیت مسلمان اس بات کے پابند ہیں کہ ہمارے معاشرے میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا عملی نفاذ ہو، اس لیے کہ قرآن و سنت کے احکام و قوانین پر عمل ہر مسلمان کا فریضہ اور ذمہ داری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی جدوجہد کے عصری تقاضے
دینی جدوجہد کے بیسیوں پہلو ہیں۔ مثلاً دینی جدوجہد کا ایک دائرہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کو دین کی دعوت دی جائے اور انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ، جو افراد یا جو ادارے یہ کام کر رہے ہیں وہ دینی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دینی جدوجہد کا ایک دائرہ یہ ہے کہ عام مسلمان کو دین سے وابستہ کیا جائے، دین کی طرف واپس لایا جائے، مسجدوں کو آباد کیا جائے اور دینی ماحول کو دوبارہ زندہ کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی جدوجہد کی معروضی صورتحال اور اہم تقاضے
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری آج کی نشست کا موضوع ہے ”دینی جدوجہد کی معروضی صورتحال“ اس وقت دینی جدوجہد کن کن دائروں میں تقسیم ہے اور ہر دائرے میں اس کی صورتحال کیا ہے، پاکستان کے دائرے میں، دنیا کا دائرہ تو بہت وسیع ہے۔ اپنے ملک کے دائرے میں دینی جدوجہد کی موجودہ صورتحال کیا ہے، صرف صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایک سرسری سی بریفنگ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد: پس منظر اور موجودہ صورتحال
پاکستان جب بنا تو بنیادی مقصد یہ قرار دیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام ازسرنو لایا جائے گا اور مسلمانوں کی ثقافت اور عقائد پر ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے۔ چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب مختلف شعبوں میں کام کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ریاستی بینک ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے کیا تو اس موقع پر ان کی تقریر ریکارڈ پر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
غیر سودی بینکاری کی عالمی پیشرفت
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سود کے حوالے سے ملکی صورتحال تو یہ ہے کہ تفصیلی فیصلے موجود ہیں اور کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عملدرآمد کے حوالے سے اب تک جو ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ سودی نظام کی عالمی صورتحال بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے۔ اب تو عالمی سطح کے معاشی ماہرین بھی یہ کہتے ہیں کہ سودی نظام انسانی معاشرے کے لیے فائدے کی نہیں بلکہ نقصان کی چیز ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت
پاکستان جب بنا تو ’’قرارداد مقاصد‘‘ میں یہ طے کیا گیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی، حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے، اور وہ قرآن و سنت کے پابند ہوں گے۔ اس سے پارلیمنٹ پابند ہو گئی کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرے گی۔ اس وقت یہ مسئلہ پیش آیا کہ پارلیمنٹ تو قرآن و سنت کے علماء پر مشتمل نہیں ہوگی تو یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ کوئی پالیسی یا قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
محاضراتِ تصوف
تصوف اور سلوک کیا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کا دائرہ کیا ہے؟ یہ اس سلسلہ گفتگو کے عنوانات ہیں۔ آج اس حوالے سے کچھ تمہیدی گفتگو کروں گا کہ تصوف کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے با ضابطہ بات ان شاء اللہ اگلی نشست میں کریں گے۔ اس گفتگو کا پس منظر یہ ہے کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز کا روحانی تعلق نقشبندی سلسلے سے تھا - - - مکمل تحریر
قراردادِ مقاصد کا پس منظر اور پیش منظر
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارا ملک ہندوؤں سے الگ کیا جائے، ہم اکٹھے نہیں رہنا چاہتے۔الگ ملک بنانے کی غرض یہ بیان کی گئی ہیں کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں، ہمارا اپنا دین و مذہب ہے، اپنی تہذیب و ثقافت ہے اور ہم بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں، یہاں ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہوں گے تو ہم اپنے مذہب پر آزادی سے عمل نہیں کر سکیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی مدارس کی جہدِ مسلسل اور درپیش چیلنجز
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم نے الشریعہ اکیڈمی کے نام سے یہ ٹھکانہ بنا رکھا ہے جس میں چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا بنیادی کام یہ ہے کہ دینی حلقوں میں آج کے عصری تقاضوں کا احساس اجاگر کرنا اور جہاں تک ہو سکے بریفنگ مہیا کرنا۔ آج کے عصری تقاضے کیا ہیں، دینی حوالے سے آج کی ہماری ضروریات کیا ہیں اور ہم نے ان کو کیسے پورا کرنا ہے؟ ان تقاضوں کی نشاندہی، احساس اور ہلکی پھلکی بریفنگ ہم نے اپنے کام کو اس دائرے میں محدود کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ
بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ گزشتہ سال ہماری ماہانہ نشستوں کا یہ عنوان تھا کہ ہم اپنے بزرگوں میں سے کسی بزرگ کا تعارفی انداز میں تذکرہ کرتے تھے۔ بزرگوں سے مراد ہمارے قریب کے زمانے کے بزرگ ہیں، جنہیں ہم عام اصطلاح میں اکابر علماء دیوبند کہتے ہیں۔ ہمارا قریبی نسب نامہ یہی ہے۔ ویسے تو جتنی شاخوں کے جتنے بزرگ گزرے ہیں سب ہمارے بزرگ اور اکابر ہیں, لیکن ہمارے قریبی نسب نامے کے بزرگوں میں سے ایک ایک شخصیت کا ایک ایک نشست میں تذکرے کا پروگرام ہم نے رکھا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو ہمارے دیوبندی حلقوں میں سید الطائفۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یعنی ہمارے پورے دیوبندی گروہ کے سب سے بڑے سردار۔ دیوبندیت کوئی مذہب نہیں ایک مکتبِ فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں اور اہلِ سنت کے اجتماعی دھارے کا حصہ ہیں۔ لیکن دیوبندیت کے حوالے سے فکری اور علمی تحریک کے طور پر ہمارا تعارف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضورؐ کی مجلسی زندگی
جناب نبی اکرم ﷺ کے روز مرہ معمولات کا آغاز بھی مجلس سے ہوتا تھا اور اختتام بھی مجلس پر ہی ہوتا تھا، صبح نماز کے بعد عمومی مجلس ہوتی تھی اور رات کو عشاء کے بعد خواص کی محفل جمتی تھی جبکہ دن میں بھی مجلس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ سیرت اور حدیث کی مختلف روایات میں بتایا گیا ہے کہ نماز فجر کے بعد جناب نبی اکرم ﷺ مسجد میں ہی اشراق کے وقت تک تشریف فرما ہوتے تھے، اس دوران وہ ساتھیوں کا حال احوال پوچھتے تھے، کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا تھا اور تعبیر پوچھتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ نشست میں ہم نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات اور ان کے دینی جدوجہد میں کردار کے حوالے سے بات کی تھی، آج کی گفتگو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہوگی۔ ان دو بزرگوں کا نام جب بھی تاریخ میں آتا ہے تو اکٹھا ہی آتا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا نام لیں تو حضرت گنگوہی کا تذکرہ ضروری ہو جاتا ہے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا نام لیں تو حضرت نانوتویؒ کا تذکرہ بھی ضروری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ماہِ شعبان اور ترجمہ و تفسیر قرآن کے حلقے
شعبان المعظم کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کے حلقوں کا آغاز ہو گیا ہے اور اپنے اپنے ذوق اور دائرہ فکر کے مطابق بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر علمائے کرام اپنے شاگردوں کا حلقہ سنبھالے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی خدمت سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں بھی گزشتہ سال سے دورۂ تفسیر کی کلاس ان دنوں چل رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ائمہ وخطبا کی مشکلات ۔ مسائل اور ذمہ داریاں
آج کل خطباء کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ لوگ جمعۃ المبارک کے دن بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں خطبہ سنتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔حاضرین کو گفتگو سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی، اکثر مساجد میں یہی ہوتاہے۔ اس کی ایک وجہ میں عرض کرتاہوں۔آج سے دس پندرہ سال پہلے جنگ اخبار لندن میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، اس نے لکھا کہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کردیاہے جس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری دلچسپی کا موضوع نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلام میں حج کا تصور اور نظم
فتح مکہ ۸ ہجری کے سال ہوئی۔ فتح مکہ کے بعد پہلا حج ۹ ہجری میں آیا۔ نبی کریمؐ نے ۹ ہجری کا حج ادا نہیں فرمایا بلکہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی اِمارت میں صحابہ کرامؓ کو ادائیگیٔ حج کے لیے بھیجا۔ حضورؐ نے ۹ ہجری کا سال اصلاحات و تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے ذریعے ۹ ہجری کے حج کے موقع پر بہت سے اعلانات کروائے جو حج کے نظام کی تطہیر ، دیگر قوموں کے ساتھ معاہدات، جاہلی رسومات پر پابندی اور دیگر دینی و انتظامی امور کے متعلق تھے۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ اگلے سال حضورؐ حج کے لیے تشریف لائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تدریس حدیث کے چند اہم تقاضے
جب ہم حدیث پڑھا رہے ہوں تو جس طرح ایک عام اجتماع میں حدیث بیان کرتے ہوئے پبلک کی ذہنی نفسیات، ذہنی سطح اور اس کے معروفات ومسلمات کو سامنے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ہمارے سامنے جو کلاس بیٹھی ہے اس کی ذہنی سطح کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ کون سی بات ان کے ذہن میں جائے گی اور کون سی نہیں جائے گی۔ کیونکہ آج ہمارے سامنے جو طلبہ حدیث پڑھنے بیٹھتے ہیں ان کا لیول آج سے پچاس سال پہلے والا نہیں ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے سامنے بیٹھے ہوئے طلبہ کی اکثر یت مطالعہ کرکے آتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردار
اسلام نے علم کو نافع اور ضار کے درجوں میں تقسیم کیاہے۔ یہ نفع وضرر دنیا و آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ آج کے عالمی تعلیمی نظام اور اسلا م کے فلسفہ تعلیم میں یہی جوہری فرق ہے کہ آج کی دنیا کے نزدیک نفع وضرر صرف اس دنیا کے حوالے سے ہے۔ جو بات دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے اور شخصی، طبقاتی یا اجتماعی زندگی کی کامیابی کے لیے مفید ہے، وہ تعلیمی نظام کا حصہ ہے۔ لیکن اسلام اس دنیا کے ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ آخرت کی فوز و فلاح اور اس ابدی زندگی میں نجات کو اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کا اساسی ہدف قرار دیتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ برصغیر یعنی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما وغیرہ خطے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے اور پھر برطانوی حکومت کے قبضے کے بعد جو آزادی کی تحریکات چلیں ان کے مختلف مراحل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے میں نے حضرت شاہ ولی اللہؒ اور ان کے خاندان کی خدمات پر، شہدائے بالاکوٹ اور بنگال کے حاجی شریعت اللہؒ کی تحریک پر کچھ گزارشات پیش کی تھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر