نفاذِ اسلام کی جدوجہد اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا مسئلہ

   
مارچ ۱۹۹۷ء

روزنامہ جنگ لاہور ۶ فروری ۱۹۹۷ء کی ایک خبر کے مطابق کویت کے امیر الشیخ جابر الاحمد الصباح نے کویتی پارلیمنٹ کے ۵۰ ارکان کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ ملک میں شرعی قوانین کو قانون سازی کا بنیادی ماخذ قرار دیا جائے، اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی کیا جائے گا۔

مسلم ممالک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر شرعی قوانین کی فیصلہ کن حیثیت کو نظرانداز کرنے کی یہ روش کویت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ اکثر و بیشتر مسلم ممالک میں مغرب نواز حکومتیں اور مغربی اداروں کے تربیت یافتہ حکمران یہی طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں کہ قرآن و سنت کے احکام اور شرعی قوانین ان ممالک میں نفاذ اور عملداری کے لیے پارلیمنٹ کی مرضی اور منظوری کے محتاج ہیں۔ اور یہ مسلمان کہلانے والی اسمبلیاں جس شرعی قانون کو نافذ کرنا چاہیں وہ نافذ ہو جاتا ہے، اور قرآن و سنت کے جس حکم کو ان اسمبلیوں میں پذیرائی حاصل نہ ہو سکے وہ نفاذ اور عملداری کے مراحل طے نہیں کر پاتا۔

خود ہمارے ہاں پاکستان میں جب ’’شریعت بل‘‘ کے تحت قرآن و سنت کو فیصلہ کن حیثیت اور سپریم لاء قرار دینے کی بات چل رہی تھی تو پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ لگانے والوں کی ضد یہی تھی کہ اس سے پارلیمنٹ کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ حکومتی نظام اور سیاسی ڈھانچے کے متاثر نہ ہونے کی شرط کے ساتھ قرآن و سنت کو سپریم لاء کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ ہمارے خیال میں قرآن و سنت کی عملداری اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور دینی حلقوں کو اس بنیادی سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے کہ

  • پارلیمنٹ کی غیر مشروط خودمختاری کے اس تصور کے ساتھ کیا واقعی کسی ملک میں اسلامی نظام نافذ بھی ہو سکتا ہے؟
  • اور کیا پارلیمانی جمہوریت کے تقدس کی یہ رٹ مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا راستہ روکنے کے لیے تو نہیں لگائی جا رہی؟

یہ مسئلہ صرف کویت اور پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا بھر کی ان اسلامی تحریکات کا مشترکہ مسئلہ ہے ہے جو مسلم ممالک میں اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اور اس مسئلہ کا دوٹوک اور واضح حل سامنے لائے بغیر اسلامی تحریکات کا مزید آگے بڑھنا شاید اب ممکن بھی نہیں رہا۔

   
2016ء سے
Flag Counter