غیر ممالک میں وفود بھیجنے کی ضرورت
مشرقی پاکستان کے حالیہ واقعات اور سیاسی بحران کے بارہ میں بھارت اور اس کے مغربی ہمنوا جو گمراہ کن پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اس کی تردید نسبتاً زیادہ منظم اور گمراہ کن ہے۔ چنانچہ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے، جو تا دمِ تحریر مدینہ منورہ میں مقیم ہیں، مدیر ترجمان اسلام کے نام ایک مکتوب میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے۔
عرب ممالک میں جمعیۃ علماء اسلام کے قائدین حضرت مولانا مفتی محمود صاحب، مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب اور حاجی غلام محمد صاحب کا دورہ بے حد کامیاب رہا ہے اور اخبارات کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان راہنماؤں کی تقاریر اور بیانات سے عرب عوام کی غلط فہمیاں کافی حد تک دور ہو گئی ہیں۔ لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، حکومتِ پاکستان کو علماء کرام کے مزید وفود بھی اسلامی ممالک میں بھیجنے چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے ہمارے پاس الحمد للہ ایسے علماء کرام کی کمی نہیں جو پوری شرح و بسط کے ساتھ عالمی رائے عامہ کو غلط فہمیوں کے دائرہ سے نکال سکتے ہیں۔ حضرت مولانا شمس الحق افغانی، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی، حضرت مولانا پیر محسن الدین اور دیگر اکابر علماء کرام اس سلسلہ میں خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
مغربی ممالک کا معاندانہ رویہ
مغربی ممالک کی اقتصادی امداد کے بارہ میں ہماری شروع سے یہ رائے رہی ہے کہ اس امداد کے ذریعہ وہ اپنا تسلط ترقی پذیر ممالک پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران کے دوران برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں نے اپنی امداد کو مشرقی پاکستان کے حالات کو معمول پر لانے کی سیاسی شرط کے ساتھ مشروط کر دیا تھا۔ اور مغربی جرمنی وغیرہ نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔ اب امریکہ کی کانگرس نے بھی پاکستان کی امداد کو اسی شرط کے ساتھ مشروط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری رائے درست تھی۔ صدر مملکت کا یہ اعلان جرأت مندانہ اور حوصلہ افزا ہے کہ مشروط امداد دینے والوں کی رقم ان کے منہ پر مار دی جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی قومی سطح پر ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جن کے ذریعہ ہم مغربی ممالک کی اس نام نہاد امداد کے جھنجھٹ سے کلیۃً نجات حاصل کر سکیں۔
سید عطاء المہیمن بخاری کو سزا
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزند مولانا سید عطاء المہیمن بخاری کو چیچہ وطنی کیس میں چھ ماہ قید پانچ کوڑوں اور تین ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ ہم اس سزا پر کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ البتہ اتنی گزارش ضرور کرنا چاہتے ہیں کہ چیچہ وطنی کیس کی مخصوص نوعیت کے لحاظ سے امیر شریعتؒ کے فرزند کو یہ سزا ملنے پر بے شمار پاکستانی عوام کے دل دکھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ مارشل لاء حکام سید صاحب موصوف اور ان کے دو ساتھیوں کی سزا معاف کرنے کا جلد اعلان فرما دیں گے۔
خفیہ قحبہ خانے
ایک اخباری اطلاع کے مطابق گلبرگ لاہور کی نواحی بستیوں قاسم پورہ اور گاندھی پارک کے بارہ میں عوام کو شکایت ہے کہ وہاں قحبہ خانے موجود ہیں جو متعدد درخواستوں کے باوجود ابھی تک زور و شور کے ساتھ قائم ہیں۔ حتیٰ کہ اب ان کے مالک شکایت کرنے والے عوام اور افراد کو طرح طرح کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ لیکن پولیس کے اہلکار ہیں کہ وہ عوام کی شکایات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ صورتحال انتہائی المناک ہے۔ اور یہ صرف لاہور کے گلبرگ میں نہیں بلکہ نہ جانے ملک میں ایسے کتنے ہی گلبرگ اور قاسم پورہ موجود ہیں جہاں فحش و بدکاری کا کاروبار کھلے بندوں جاری ہے۔ حکام بالا کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ آخر ایسی برائیوں کا سدباب بھی تو انہیں کا فرض ہے۔
سرکاری افسروں کے شاہانہ اخراجات
ایک اطلاع مظہر ہے کہ حکومت سرکاری افسروں کے اخراجات کے بارہ میں تحقیقات کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ انکشاف ہوا ہے کہ بڑے بڑے افسران فرضی اخراجات کے نام پر بے شمار رقم وصول کر لیتے ہیں اور یہ رقم کروڑوں تک پہنچتی ہے۔ اس سے قبل ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ ایک تھانیدار کا بیٹا جعلی ملازمت کے نام پر سرکاری خزانہ سے دو سال تک تنخواہ وصول کرتا رہا ہے۔ جب تھانیدار کا یہ حال ہے تو بڑے آفیسرز کا کیا عالم ہو گا؟
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اقتصادی طور پر موجودہ سطح پر لانے میں بہت بڑا حصہ اعلیٰ افسروں کے ان چونچلوں کا بھی ہے۔ اگر نوکر شاہی کے یہ کل پرزے ملکی مفاد کے پیش نظر کفایت شعاری کو نصب العین بنائیں اور سرکاری خزانہ کو قوم کی امانت سمجھ کر شیرِ مادر کی طرح ہضم کرنے کا سلسلہ ترک کر دیں تو ہمارے خیال میں قومی سرمایہ کا ایک بڑا حصہ ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔
پنجاب میں ۲۰ لاکھ بے روزگار
ایک سرکاری اندازہ یہ ہے کہ صرف پنجاب میں اس وقت کم و بیش بیس لاکھ بے روزگار افراد ہیں جن میں سے تیرہ ہزار (۱۳۰۰۰) کوئی ہنر نہ جاننے کی وجہ سے صرف کلرکی کے خواہشمند ہیں۔ یہ سرکاری اندازہ کوئی خوش آئند خبر نہیں ہے۔ بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ عوامی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے اور روزگار کے دیگر ذرائع کو عام کرنے کے لیے بھرپور اور منظم اقدام اٹھایا جائے۔ اللہ کرے مارشل لاء گورنمنٹ اس مسئلہ پر بھی توجہ دے سکے۔
دو لاکھ کا مال خرد برد
باغبانپورہ لاہور پولیس نے محکمہ زراعت کے ایک سٹور کے نگران کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس پر الزام یہ ہے کہ اس نے سٹور سے دو لاکھ روپے کا مال اڑا لیا ہے، اس کا ایک اور ساتھی بھی ہے جو مفرور ہے۔
اس قسم کی خبریں وقتاً فوقتاً اخبارات کا عنوان بنتی رہتی ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ سرکاری خزانہ اور گوداموں سے مال کا یہ ضیاع اس قدر وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ الامان والحفیظ۔ گوداموں کی حفاظت اور سرکاری رقوم کے صَرف کی مدات کی جانچ پڑتال کے لیے کوئی مؤثر نظام قائم ہونا چاہیے، کیونکہ ہماری مالی حیثیت ایسی نہیں کہ ہم ایسے نقصانات آسانی کے ساتھ برداشت کر سکیں۔
پاکستان میں غیر ملکی کلب
صوبائی اسمبلی کے تین ارکان رانا پھول محمد، مسٹر محمد عاشق اور ملک محمد علی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں موجود غیر ملکی کلبوں اور لاجوں پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ ایسی سرگرمیاں پاکستان کے مفاد کے منافی ہیں۔
غیر ملکی کلبوں اور لاجوں کے بارہ میں اس سے قبل بھی مختلف بیانات اور تفصیلات اخبارات میں آتی رہی ہیں اور فری میسن لاج کے سابق ممبر اور الاسد کے کنوینر رانا صدر جنگ نے اس سلسلہ میں گھر کے بھیدی کی حیثیت سے جو باتیں منظر عام پر پیش کی ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ مگر معلوم نہیں ہمارے حکام اس نوعیت کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا کیوں ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمارے خیال میں حکومت کو ایک کمیشن بٹھا کر اس قسم کے اداروں کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کرانی چاہیے۔ اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ سرگرمیاں ملک کے مفاد کے خلاف ہیں تو انہیں خلافِ قانون قرار دینے میں کوئی تاخیر و تامل نہیں ہونا چاہیے۔