حضرت والد محترم رحمہ اللہ کے دور سے معمول چلا آ رہا ہے کہ بہت زیادہ مصروفیت نہ ہو تو جمعۃ المبارک کے روز مغرب کی نماز گکھڑ میں حضرت والد صاحب کی مسجد میں ادا کرتا ہوں۔ اس کے بعد مختصر درس ہوتا ہے، بہت سے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور اس طرح اپنے آبائی شہر کے احوال سے بھی باخبر رہتا ہوں۔
گزشتہ روز اسی معمول کے مطابق جانا ہوا تو ہمارے سب سے چھوٹے بھائی مولانا قاری منہاج الحق خان راشد سلّمہ کی فرمائش پر تھوڑی دیر کے لیے ان کی کلاس میں بھی حاضری ہوئی، جو وہ ضروریاتِ دین کے حوالے سے مغرب سے عشاء تک لگاتے ہیں۔ یہ کلاس اس کمرہ میں لگتی ہے جو کم و بیش نصف صدی تک والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی قیام گاہ رہا ہے۔ ہمارا آبائی مکان ہمارے سب سے چھوٹے بھائی قاری راشد سلّمہ کے پاس ہے، جو انہوں نے حضرت والد محترم کی زندگی میں ہی دوسرے بھائیوں سے خرید لیا تھا۔ ۱۹۶۰ء میں یہ مکان تعمیر ہوا اور اس کا ایک کمرہ جو تقریباً پندرہ فٹ جمع نو فٹ سائز کا ہے، حضرت والد محترم کی آرام گاہ تھا۔ اس کا ایک دروازہ گھر میں کھلتا ہے، دوسرے دروازے کے آگے چھوٹی سی ڈیوڑھی ہے، جس کا دروازہ باہر گلی میں کھلتا ہے۔ یہ حضرت والد محترم کی آرام گاہ بھی تھا، اسٹڈی روم بھی تھا، ذاتی لائبریری بھی اسی میں تھی اور یہی ان کی درس گاہ بھی تھی۔
میں برادرم راشد خان کی کلاس میں بیٹھا تھا اور میری نگاہوں میں اس درس گاہ کے مختلف مناظر باری باری گھوم رہے تھے۔ یہ خود میری اولین درس گاہ بھی ہے کہ ۱۹۶۰ء میں قرآن کریم حفظ مکمل کرنے کے بعد درس نظامی کی تعلیم کا آغاز میں نے یہیں سے کیا تھا اور سال اول کی کتابوں کے طور پر میزان الصرف و منشعب، نحو میر، علم الصیغہ اور شرح مائۃ عامل حضرت والد صاحبؒ سے پڑھی تھیں۔ ۱۹۶۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخل ہوا اور ۱۹۷۰ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل ہوئی۔ اس دوران بھی یہ معمول تھا کہ شعبان اور رمضان کی سالانہ تعطیلات میں سال کے دوران پڑھی ہوئی کتابوں میں سے ایک دو کتابیں مجھے دوبارہ حضرت والد محترم سے پڑھنا ہوتی تھیں، بلکہ سنانا ہوتی تھیں۔ یہی معمول چھوٹے بھائیوں مولانا عبد القدوس قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، قاری حماد الزہراوی، پیر عابد سلّمہ اور دیگر کا بھی کم و بیش رہا ہے، جبکہ ہماری بہنوں نے بھی یہیں تعلیم حاصل کی ہے۔
اس زمانہ میں طالبات کے دینی مدارس نہیں ہوتے تھے، لیکن یہ کمرہ طالبات کی مستقل درس گاہ تھا۔ روزانہ ظہر سے مغرب تک طالبات حضرت والد محترمؒ سے درس نظامی کے اسباق پڑھتی تھیں۔ جب تک حضرت والد محترم کی صحت نے اجازت دی اور جب تک ہماری والدہ محترمہ بڑی اور چھوٹی دونوں حیات رہیں، ہمارا گھر روزانہ ظہر کے بعد ایک مکمل مدرسہ میں تبدیل ہو جاتا تھا اور مغرب تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ گھر کے اندرونی حصے میں ہماری بڑی والدہ محترمہ کی کلاس ہوتی تھی اور چھوٹی والدہ محترمہ ان کی معاون ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں کہ حفظ قرآن کریم کے دوران وہ ہماری استاذ بھی رہی ہیں۔ ہم کم و بیش سبھی بڑے بہن بھائی انہیں اپنی منزل سنایا کرتے تھے اور ان کی نگرانی میں سبق یاد کیا کرتے تھے، بلکہ ان کو سنا لینے کے بہانے کبھی کبھار حضرت والد محترمؒ کی سختی سے بھی بچ جایا کرتے تھے۔
اس درس گاہ میں گکھڑ کے بیسیوں خاندانوں کے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہاں قرآن کریم حفظ و ناظرہ کے علاوہ ترجمہ قرآن کریم اور بہشتی زیور کی تعلیم بھی ہوتی تھی۔ اس درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ، سابق آئی جی پولیس پنجاب احمد نسیم چودھری اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد علی چغتائی بھی اپنے بچپن اور لڑکپن کے دور میں شامل رہے ہیں۔
مگر حضرت والد محترمؒ کے کمرہ والی درس گاہ اس سے مختلف تھی۔ اس میں درس نظامی کے مختلف درجات کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات باری باری حضرت والد محترم سے باقاعدہ اسباق پڑھتی تھیں۔ ہماری تینوں بہنوں نے اس درس گاہ سے فیض پایا ہے اور اب وہ اپنی اپنی جگہ حسبِ توفیق و مواقع تدریس میں مصروف ہیں۔ اپنے گھر کی طالبات اور خواتین سے ہٹ کر گکھڑ کے بہت سے خاندانوں کی لڑکیوں نے اس درس گاہ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی ہے، جن میں صوفی تاج دین مرحوم، ماسٹر اللہ دین مرحوم، بھائی ولی محمد مرحوم، سید منیر علی شاہ مرحوم اور محمد یونس بھٹی صاحب کے خاندان بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ان خاندانوں کی متعدد خواتین نے حضرت والد محترمؒ سے درس نظامی کے مختلف درجات کی تعلیم حاصل کی اور ان میں سے اکثر بدستور تعلیم و تدریس کے کام سے منسلک ہیں۔
یہ چھوٹا سا کمرہ حضرت والد محترمؒ کی ”خانقاہ“ بھی تھا۔ وہ نقشبندی سلسلہ میں رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علیؒ کے خلفاء میں سے تھے اور سینکڑوں حضرات اس سلسلہ میں حضرت والد صاحب سے بیعت ہوئے ہیں۔ عام طور پر بیعت اس کمرہ میں ہوتی تھی اور وہ اپنے مریدین کو اذکار کی تلقین کرتے تھے۔ حضرت مولانا حسین علیؒ کے تلمذ کے باعث حضرت والد محترمؒ کی سندِ حدیث عالی تھی کہ حضرت مولانا حسین علیؒ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے براہ راست شاگرد تھے۔ اس نسبت سے ملک کے مختلف حصوں سے علمائے کرام اسی سند حدیث کے ساتھ روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کرنے کے لیے آتے اور اسی کمرہ میں زیادہ تر یہ فیض تقسیم ہوتا تھا۔
اسی کمرہ میں حضرت والد محترمؒ کے رات کی عبادت کے معمولات ہوتے تھے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ تہجد میں اپنے کسی نہ کسی بیٹے سے قرآن سنا کرتے تھے۔ کئی برس تک یہ شرف مجھے حاصل رہا ہے اور دوسرے اکثر بھائیوں نے بھی یہ سعادت حاصل کی ہے۔ یہ مرحلہ بہت صبر آزما ہوتا تھا کہ حضرت والد محترمؒ کے آگے قرآن پاک سنانا سب سے زیادہ مشکل کام ہوتا تھا۔ وہ خود حافظ نہیں تھے، لیکن کیا مجال کہ زیر زبر کی کوئی غلطی بھی ان کی گرفت سے رہ جائے اور پھر غلطیوں پر صرف ڈانٹنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ ”ابھی صبر کے امتحان اور بھی ہیں“ کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔
حضرت والد محترمؒ نے علالت کے کم و بیش نو دس سال اسی کمرہ میں گزارے۔ ان سے کئی بار تقاضا بلکہ اصرار کیا گیا کہ علاج کی سہولت کی خاطر گوجرانوالہ شہر منتقل ہو جائیں، مگر وہ اس کمرہ سے اس قدر مانوس تھے کہ اس کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے۔
برادرم قاری راشد خان سلّمہ کی کلاس کو دیکھ کر مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ اس درس گاہ کا تعلیم و تدریس کا تسلسل جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں یہ سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں اور ہم سب کو حضرت والد محترمؒ کے فیوض کو عام کرنے کی توفیق، سلیقہ اور مواقع سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔