حضرات شیخین کریمینؒ کی یاد میں

   
ادارۃ الحسنات میڈیا آفیشل
۱۰ فروری ۲۰۲۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے تو میں ادارۃ الحسنات کا بالخصوص اپنے عزیز حافظ محمد عمر فاروق بلال پوری اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہمیں اکٹھے بیٹھ کر اپنے بزرگوں کو یاد کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بزرگوں کو یاد کرنا چاہیے، یاد رکھنا چاہیے، بزرگوں کی تعلیمات سے استفادہ کرتے رہنا چاہیے، اور کبھی کبھی موقع مل جائے تو ایسے موقعے بھی غنیمت کی بات ہے۔ اس اہتمام پر میں ان بچوں کا شکرگزار ہوں۔ اور میں ایک بات درمیان میں عرض کر دوں، سچی بات ہے، جن بچوں کو کام کرتے دیکھ کر مجھے ذاتی طور پر خوشی ہوتی ہے ان میں ایک بچہ یہ بھی ہے، بیٹا ہے ہمارا، بچہ ہے، عمر فاروق بلال پوری، بڑے ذوق سے محنت کر رہا ہے، اللہ پاک ان کی جوانی کی حفاظت فرمائیں اور انہیں محنت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔

حضرات شیخین کریمین رحمہم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارے بزرگوں نے بھائیوں نے ساتھیوں نے تفصیل سے بات کی ہے، باتوں کو دہرانے کی بجائے میں ایک دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا، ان کے ذوق کی۔ ابھی ہمارے بھائیوں نے ذکر کیا، والد محترم کے استاذ گرامی تھے، حضرت مولانا عبد القدیر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ۔ حضرت یہاں (جامعہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں) پڑھاتے تھے، یہ سن ۱۹۴۰ء سے پہلے کی بات ہے۔ دونوں بھائی (حضرات شیخینؒ) یہاں پڑھتے تھے، اور سب سے زیادہ جن سے تعلیم حاصل کی ہے وہ مولانا عبد القدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

ہم نے سن تو رکھا تھا، میرا طالب علمی کا زمانہ تھا کہ حضرت مولانا عبد القدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہاں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے آئے۔ تو میں یہاں آیا، زیارت کی۔ واپس گیا، والد صاحب صبح گکھڑ سے آئے۔

مجھے پوچھا، ’’اوئے دادا جی نوں ملیا سیں؟‘‘

میں نے سوچا دادا جی تو میرے مدت ہوئی فوت ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا، دادا جی؟

’’شیرانوالے نئیں گیا؟‘‘

میں نے کہا ’’گیا ساں‘‘۔

’’استاذ آئے نے‘‘۔

میں نے کہا، ’’میں زیارت کیتی اے‘‘۔

’’زیارت کیتی اے؟ ملیا نئیں؟‘‘

میں نے کہا، مینوں (نئیں پتہ)۔

’’او تیرے دادا جی نے‘‘۔

یہ انہوں نے تعارف کرایا کہ وہ تیرے دادا جی ہیں۔ تو میں دادا جی سمجھ کر پھر آیا۔ اور پھر تو واقعتاً‌ ہمارا دادا پوتے کا ہی تعلق تھا۔ میں جب ملتا، بڑی شفقت فرماتے۔ اور میرے دل میں بھی اب (اسی طرح کا احترام تھا) کہ والد صاحب نے کہا تھا کہ تمہارے دادا جی ہیں۔ وہ جب پنڈی تھے، دارالعلوم تعلیم القرآن کے شیخ الحدیث تھے، کافی عرصہ رہے ہیں، میں جب بھی پنڈی جا کر واپس آکے والد صاحب سے ملا ہوں تو پوچھا، ’’دادا جی نوں ملیا سیں؟‘‘۔ اللہ اکبر کبیرا۔ اس سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، ابھی بھائی کہہ رہے تھے کہ استاذ کا احترام اور استاذ کے ساتھ تعلق۔ جو میں نے حضرت شیخ سے سیکھا ہے کہ ان کے استاذ محترم تھے۔ اور ایک دفعہ میں نہیں ملا تھا، پنڈی گیا میں، جاتا رہتا ہوں، تو حضرت سے ملنے نہیں گیا۔ مصروفیت تھی ایک۔ مجھے ڈانٹ پڑی اس پر، پنڈی گئے ہو اور استاذوں سے نہیں ملے؟ اس کے بعد ہے سچی بات ہے بابا جی سے ڈرتے ہوئے ملنے کے لیے ضرور جاتا تھا۔

یہ میں اکثر جگہ یہ واقعہ بیان کرتا ہوں کہ استاذ کا احترام کیا ہے، استاذ کی عزت کیا ہے، استاذ کا احترام کیا ہے کہ بسا اوقات میرے پاس وقت کی گنجائش نہیں ہوتی تھی لیکن میں نے کہا بابا جی نے پوچھ لیا تو ڈانٹیں گے، اس لیے میں جاتا تھا، زیارت کرتا تھا، یہ استاذ کا احترام۔

حضرت والد محترم اور حضرت صوفی صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ کے امتیازات پر خصوصیات پر بڑی گفتگو ہوئی ہے، سب باتیں ٹھیک ہیں۔ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے، وہی بات جو ہمارے بھائی مولانا عبد الحق صاحب بیان کر رہے تھے کہ بنیادی بات یہ تھی، ہمارے ان بزرگوں کی محنت اس بات پہ تھی کہ ہمارا جو تسلسل ہے نا، اس تسلسل سے ہم کٹ کر رہے ہیں کہیں۔ تسلسل کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، اتباعِ تابعینؒ، ایک لڑی ہے۔ یہ جو زنجیر ہوتی ہے نا، زنجیر کو زنجیر رکھنے کے لیے ہر کڑی کا جڑا رہنا ضروری ہوتا ہے، ایک کڑی بھی کٹ جائے، اوپر سے کٹ جائے یا درمیان سے یا نیچے سے، زنجیر نہیں رہتی وہ۔ تو ہمارے ان بزرگوں کی فکر کا اور ان کے مشن کی بنیاد یہ تھی کہ ہم اپنے ماضی کے تسلسل سے قائم رہیں، تسلسل سے نہ ٹوٹیں۔ الحمد اللہ ان کی فکر، ان کی زندگی، ان کی محنت۔

اور دوسری بات، دو باتیں کہا کرتے تھے، امت کا تعامل، جسے اجماع کہہ لیں۔ تعاملِ امت اور جمہور اہلِ سنت۔ وقت کے لحاظ سے جمہور اہلِ سنت، ماضی کے لحاظ سے سلفِ صالحین اور تسلسل۔ اس تسلسل سے کٹنے سے کوشش کریں بچ جائیں، تسلسل سے نہ کٹیں،۔اور وقت کے جو اہلِ حق ہیں، ان کا جمہور کا موقف جو ہے وہ ہمیشہ، یہ دو لفظ وہ استعمال کیا کرتے تھے، اور یہی ان کے موقف کی بنیاد تھی۔

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ کا دنیا بھر میں، دنیا میں گھومتا پھرتا رہتا ہوں، ہمارے دونوں بزرگوں کا اس حوالے سے تعارف تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان تھے۔ حضرت والد صاحبؒ کو بلا امتیاز پورے جنوبی ایشیا میں نہیں، باہر بھی، مسلکِ دیوبند کا علمی ترجمان سمجھا جاتا تھا، کہا جاتا تھا، اب بھی کہا جاتا ہے۔ اور ان کا امتیاز یہ تھا کہ، آپ انڈیا چلے جائیں، میں انڈیا بھی گیا ہوں، بنگلہ دیش بھی گیا ہوں، بہت ملکوں میں گیا ہوں، افغانستان بھی گیا ہوں، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ہمیشہ علماء دیوبند کا علمی ترجمان، اور آنکھیں بند کر کے لوگ اعتماد کرتے تھے کہ جو حضرت شیخ نے کہہ دیا لکھ دیا ٹھیک ہے۔

حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک امتیاز یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و فلسفہ کے ترجمان اور شارح سمجھے جاتے تھے، اور تھے بھی۔ ان کا یہ امتیاز تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و افکار، حضرت صوفی صاحب نے ان کو اپنا مشن بنایا، (صرف) مشن نہیں، تعلیم کا حصہ بنایا۔ میرا خیال ہے کہ ملک میں کہیں بھی ’’حجۃ اللہ‘‘ دورہ حدیث کے نصاب میں نہیں ہے، ہمارے ہاں ہے۔ آپ ان کی تصنیفات پڑھیں گے تو یہ حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا امتیاز تھا۔ جس طرح حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیفات کے حوالے سے سب سے زیادہ کہتے ہیں اپنے بزرگوں کے احناف کے محدثین کے فقہاء کے۔ صوفی صاحب کے ہاں آپ کو سب سے زیادہ دو حوالے ملیں گے: ایک حضرت شاہ ولی اللہؒ کا اور دوسرا حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کا۔

یہ ان کے امتیازات تھے اور الحمد للہ دنیا میں جہاں بھی گئے ہیں لوگوں کو اس اعتماد پر پایا ہے، وہی ہمارا اثاثہ ہے۔ میں بات لمبی نہیں کرتا، وہی ہمارا اثاثہ ہے۔ ان کی یہ دو باتیں کہ ماضی کے تسلسل سے کٹنا نہیں ہے اور جمہور کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا، یہ ہمارا علمی و فکری اثاثہ ہے۔ اور یہی سلفِ صالحین، اکابر علماء دیوبند، اہلِ سنت والجماعت کے ائمہ، یہ ہماری بنیاد ہیں، ہمارے پاس انہی کا ورثہ ہے جو کچھ ہے۔ جب تک اس ورثے کے دائرے میں رہیں گے، ایمان پر رہیں گے، اور اس ورثے کے دائرے سے اگر کٹیں گے تو ہمیں یہ خطرات درپیش ہوں گے یقیناً‌۔

میں ان گزارشات کے ساتھ اپنے سارے دوستوں کی گفتگو کی تائید بھی کرتا ہوں اور شکریہ ادا کرتے ہوئے، اللہ پاک ہمیں وقتاً‌ فوقتاً‌ اپنے بزرگوں کا یاد کرتے رہنے اور ان کی تعلیمات سے حاصل کرنے کی توفیق دیتے رہیں، اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔

2016ء سے
Flag Counter