بزرگوں کی جدوجہد کے بنیادی اہداف

   
شیخ الہندؒ اکادمی، واہ کینٹ
۱۶ نومبر ۲۰۲۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے راستے میں پروگرام بنا کہ شیخ الہندؒ اکیڈمی کے دوستوں سے ملاقات ہو جائے تو ہم تھوڑی دیر کے لیے رکے ہیں۔ سرگرمیاں معلوم ہوتی رہتی ہیں، خوش ہوتے رہتے ہیں، اور دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اللہ پاک اس فکر کو ہمارے مستقبل کی نئی نسل میں اور مستقبل کی قیادت میں اللہ پاک ہمیں منتقل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

ہمارے بزرگوں نے اس خطے کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اور بہت سے لوگ ہیں برصغیر کے ہر علاقے میں، ایسے مجاہدین، مفکرین ہیں جنہوں نے آزادی کی جنگ میں قربانیاں دیں، لوگوں کو نظریہ دیا۔ ان میں حضرت شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز ایک بہت بڑی شخصیت ہیں۔ اور ہمارے نئے دور کا آغاز تو وہی ہیں کہ جب ہم مسلح جنگ سے سیاسی جنگ کی طرف آئے تو، میں کہا کرتا ہوں کہ یہ درمیان کی کڑی جو ہے وہ حضرت شیخ الہندؒ ہیں، وہ مسلح تحریکوں کے آخری آدمی ہیں اور پُرامن تحریکوں کے پہلے آدمی ہیں، سنگم ہیں دونوں دوروں کے درمیان۔ تو انہوں نے ہمیں یہ رخ دیا تاکہ دنیا میں فکر، خیال، نظریہ، عقیدہ، اور رابطہ، اور عدمِ تشدد کی بنیاد پر جدوجہد، آج کی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے۔ تو اس پہ ہم الحمد للہ ابھی تک لگے ہوئے ہیں۔ اتار چڑھاؤ چلتا رہتا ہے۔ فکری تحریکات دس بیس سال کی تحریکیں نہیں ہوتیں، یہ صدیوں کی ہوتی ہیں، اور اس میں قوم کا ذہن بدلنا اور اپنے رخ پہ لانا، یہ بنیادی ہدف ہوتا ہے۔

اس وقت دو ہماری بڑی ضرورتیں ہیں۔ یعنی قومی ضرورت کہہ لیں، ملی ضرورت کہہ لیں، کہ آزادی کی وہ سوچ کہ ہم آزاد ہیں اور ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں۔ آزادی کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں۔ ہماری اپنی بیس ہے۔ یعنی امتِ مسلمہ کی بیس قرآن پاک ہے، سنتِ رسولؐ ہے، تعاملِ امت ہے۔ ہماری اپنی بیس ہے۔ ہم اپنے فیصلے اپنی بیس پر خود کریں، آزادی کا مفہوم یہ ہے۔ قومی خودمختاری کے لیے، ملی خودمختاری کے لیے یہ ضروری ہے۔ اس کو باقاعدہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ یہ آزادی کی فکر کو نئی نسل تک منتقل کرنا۔

بھئی، آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بات وہاں سے لے لی، کوئی بات وہاں سے لے لی۔ ناں ناں۔ آزادی کا مطلب ہے میری اپنی بیس ہے، عقیدے کی بیس بھی ہے، تہذیب کی بیس بھی ہے، ثقافت کی بیس بھی ہے، اور میں اپنے فیصلے کرنے میں خودمختار ہوں۔ بحیثیت ملت بحیثیت قوم ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔ ایک بات یہ ہے ہماری۔ اس فکر کو عام کرنے کی اور پختہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم بطور فرد کے بھی، آزادی کا مطلب اپنی بیس پر کھڑا ہونا، اپنے فیصلے خود کرنا، قومی سطح پر بھی، ملی سطح پر بھی۔

اور ایک بات اور میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس وقت ہماری حالت جو ہے ملتِ اسلامیہ کی، مختلف میدان ہیں۔ معیشت کے میدان میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔ سیاست کے میدان میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔ کلچر اور تہذیب کے میدان میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔ لیکن الحمد للہ ایک تاریخ کے طالب علم کے طور پر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ فکری جنگ میں ہم مقابلہ کر رہے ہیں۔ معاشی جنگ میں ہم مغلوب ہیں، بات سیدھی سیدھی ہے۔ ہتھیاروں کی جنگ میں بھی ہم ہم پلہ نہیں ہیں۔ سیاسی طور پر بھی فیصلے کرنے میں خودمختار نہیں ہیں۔ لیکن استعمار مختلف شکلوں میں، جس شکل میں بھی آیا ہے، ہمیں ہمارے عقیدے اور بنیاد سے، اس کمٹمنٹ سے نہیں ہٹا سکا۔ کشمکش اس وقت یہ جاری ہے، کسی طریقہ سے اپنی کمٹمنٹ کے ٹریک سے اتریں۔ جب کمٹمنٹ کے ٹریک سے اتریں گے پھر جو مرضی شکار کر لیں۔ اس محاذ پر ہم کھڑے ہیں الحمد للہ۔ حکمران جو مرضی کرتے رہیں، لیکن امتِ مسلمہ جکارتہ سے مراکش تک عوام، پبلک، دینی حلقے، قرآن پاک کے ساتھ، سنتِ رسولؐ کے ساتھ، اپنے ماضی کے ساتھ کمٹمنٹ پہ قائم ہیں۔ اور وہی سب سے بڑا ہدف ہے استعمار کا۔ ہم نے اپنے کمٹمنٹ پہ، اپنے ماضی پہ، اپنی بنیادوں پر کھڑے رہنا ہے اور نئی نسل کو کھڑا رکھنا ہے۔

دوسری بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ سب سے بڑی کمی کس بات کی ہے۔ سب سے بڑی کمی کس بات کی ہے؟ وہ تعلیم کی اور معلومات کی ہے۔ ہم آج نئی نسل کو کہہ تو دیتے ہیں یہ گمراہ ہو گئے ہیں۔ جہاں مجھے تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملے، میں نے کہا قصور کس کا ہے؟ میں ایک برتن خالی چوک میں رکھ دوں گا جس کا جو جی چاہے گا ڈالے گا۔ ہم نے اپنی نئی نسل کے دل اور دماغ خالی رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو دین کی اور اپنے ماضی کی بیسک ایجوکیشن بھی نہیں ہے۔ خالی پیالے ہیں۔ آج ہمارا کالج کا نوجوان، بچہ یا بچی، دونوں خالی الذہن ہیں دینی اعتبار سے۔ یعنی جو کچھ اس کو بنیادی دینی تعلیم اور معلومات ہونی چاہئیں، نہیں ہیں اس کے پاس۔ اور دنیا جہان سے وصول کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اس کی جیب میں ہے۔ غلط معلومات گمراہ کن معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کی جیب میں سب کچھ موجود ہے۔ اور صحیح معلومات کے لیے اس کے پاس ذرائع نہیں ہیں۔ نہ اپروچ ہے، نہ ذرائع ہیں۔ اس خلا کو ہمیں پُر کرنا ہو گا۔ یہ جو فکری حلقے کام کر رہے ہیں نا، معلومات، میں کہتا ہوں قرآن پاک کے ساتھ فہم کا تعلق اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے ساتھ معلومات کا تعلق ہم اگر نئی نسل کا قائم کر دیں …

https://www.facebook.com/share/v/17XpnrPVEd

2016ء سے
Flag Counter