اس وقت دنیا میں حکومتوں کی بجائے معاہدات کی حکومت ہے۔ چند طاقتور ملکوں کے علاوہ باقی ممالک و اقوام ان معاہدات کی پابندی کرنے پر اس حد تک مجبور ہیں کہ بسا اوقات ان معاہدات اور عالمی دباؤ کے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں اور ان کی خودمختاری اور سا لمیت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اقوام متحدہ ان معاہدات کی سرپرستی کرتی ہے اور سلامتی کونسل ان پر عملدرآمد کا اہتمام کرتی ہے جس کا منظر ہم وقتاً فوقتاً مجبور اقوام کی کس مپرسی کی صورت میں دیکھتے رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ربع صدی کے دوران عراق و افغانستان کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ عالم اسلام ان معاہدات کے جبر کا سب سے زیادہ نشانہ ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی مذہبی و تہذیبی اقدار سے دستبردار ہونے اور مغرب کی لادین ثقافت و فلسفہ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے ساتھ مسلمانوں کی یہ بے لچک وابستگی دنیا پر مغرب کی تہذیبی بالادستی کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ مگر ان معاہدات کے بارے میں عالم اسلام کے حکمران طبقات کی برخورداری کا عالم یہ ہے کہ اس کھلے جبر پر کوئی زبانی احتجاج کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کر رہا۔
کم و بیش نصف صدی قبل انڈونیشیا کے صدر عبد الرحیم احمد سوئیکارنو نے بغاوت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی تھی مگر کسی طرف سے بھی حمایت نہ پا کر ’’پہلی تنخواہ پر گزارہ‘‘ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی تھی۔ اس کے بعد ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد مغرب کے اس معاہداتی جبر اور اقوام متحدہ کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف اپنے دور حکومت میں آواز بلند کرتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ اب ترکی کے صدر محترم رجب طیب اردگان اس میدان میں آئے ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس کھلی دھاندلی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ چنانچہ سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی ۴ اکتوبر ۲۰۱۶ء کی رپورٹ کے مطابق :
’’ترکی کے صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے ذریعہ دنیا کو جھنجھوڑنے کی بہت کوشش کی یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا پر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کی اجارہ داری ہے اور پوری دنیا کی قسمت کا فیصلہ ان کی مٹھی میں ہے۔ ان کے اختیارات نہایت ہی غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری ہیں۔ ان کی بدولت انہوں نے پوری دنیا کو غلام بنا رکھا ہے اور اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں۔ یہ پانچ ممالک کبھی بھی کسی دوسرے ملک کو اپنے مفادات کے خلاف قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے اور ان تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیتے ہیں جو ان کے یا ان کے حامی ملکوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ ان پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں نے اقوام متحدہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے مسلم ملکوں کے مسائل حل کرنے کی ذرہ برابر بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی بلکہ حل کرنے کی بجائے اور الجھا دیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت کے معاملہ میں ان کا رویہ دوسرا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو جن حالات میں اقوام متحدہ کو تشکیل دیا گیا تھا بعد میں اس کے ذیلی ادارے اور ممبران بھی وقت کے لحاظ سے بڑھائے جاتے رہے ، وہ حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب دنیا کے تقاضے دوسرے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کو بھی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہیے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کے ذریعے دنیا میں امن کے قیام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
جناب طیب اردگان کا اقوام متحدہ کے نظم کے بارے میں یہ تبصرہ بالکل حقیقت پسندانہ ہے اور کم و بیش یہی باتیں مہاتیر محمد کرتے رہے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر مسلمان حکمرانوں کو اس جائز اور مصنفانہ موقف کی تائید کی ابھی تک توفیق نہیں ہوئی اور یہی اس وقت اس حوالہ سے عالم اسلام کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
سہ روزہ دعوت دہلی کے اسی شمارے میں ’’معاہدہ لوزان‘‘ کے بارے میں بھی صدر اردگان کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لوزان کا یہ معاہدہ دوسری جنگ عظیم کی فاتح اقوام اور ترکی کے درمیان ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء کو ہوا تھا جس کے تحت ترکی کو خلافت اسلامیہ دستبردار ہونے، ملک میں رائج شرعی قوانین منسوخ کرنے، اور ترکی کو ایک سیکولر ریاست کی شکل دینے کا پابند کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ
’’پیمان لوزان (لوزان معاہدہ) جس پر ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء کو دستخط ہوئے تھے ترکوں پر تھوپا ہوا معاہدہ ہے۔ بعض لوگ اسے اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ ترکی پر ان کی فتح تھی۔ انہوں نے ترکی کی مرضی کے خلاف اس پر یہ معاہدہ مسلط کر دیا اور اپنے تئیں یہ باور بھی کر لیا کہ ترکوں نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔ نیز اس بنیاد پر انہوں نے دنیا والوں کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انہیں بھی اسے ایک جائز معاہدہ تسلیم کر لینا چاہیے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ کے نتیجے میں ترکی کا ایک نیا نقشہ تیار کیا گیا، اس کے حدود اربعہ طے کیے گئے اور یہ سب کام دوسروں نے ترک عوام کی مرضی جانے بغیر اور ان سے صلاح مشورہ کیے بغیر ہی کر لیا۔‘‘
اقوام متحدہ کے نظام اور لوزان معاہدہ کے بارے میں ترکی کے صدر حافظ رجب طیب اردگان کے ارشادات آپ نے ملاحظہ فرمالیے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ہم اس پر کم و بیش تین عشروں سے مسلسل چیخ و پکار کرتے آرہے ہیں اور بیسیوں کالموں میں اس نا انصافی اور عالمی جبر کی طرف عالم اسلام کے ارباب دانش کو توجہ دلانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ ارباب اقتدار اور حکمران طبقات تو عالم اسلام میں کسی جگہ اب بھی یہ بات نہیں سنیں گے اور نہ اس طرف توجہ دیں گے لیکن کیا ارباب علم و دانش نے بھی آنکھیں اور کان بند رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
ہماری درخواست عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے علمی اور دینی مراکز سے ہے کہ ان عالمی معاہدات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے جو مسلم دنیا کو سیاسی، معاشی اور تہذیبی ہر حوالہ سے جکڑے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اور ثقافت کو بھی مجروح کر رہے ہیں۔ ہم انہیں اگر فوری طور پر تبدیل نہیں کر سکتے تو کم از کم نشاندہی تو کر سکتے ہیں اور دنیا کے انصاف پسند لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ تو سکتے ہیں، کیا یہ ’’اضعف الایمان‘‘ درجے کا کام بھی ہماری دسترس میں نہیں رہا؟ فیا اسفاہ۔