فکری ومسلکی تربیت کے چند ضروری پہلو
فکری تربیت سے مراد یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ جب ایک خاص نصاب کی تعلیم پاکر سوسائٹی میں جاتے ہیں اور انہیں آج کے مسائل اور حالات سے سابقہ پیش آتا ہے تو ان کی فکر اور سوچ کیا ہو؟ ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد کیا ہو؟ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی فکری نصب العین بن جاتا ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کی ساری تگ ودو گھومتی ہے۔ طالب علمی کے دوران میں اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ترجیح قائم ہو جاتی ہے کہ میں نے تو یہ کام کرنا ہے، اور پھر وہ ساری زندگی اسی میں لگا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی مدارس کے اساتذہ کیا سوچتے ہیں؟
وفاق المدارس کے نصاب میں جو ترامیم اور تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ خوش آئند ہیں اور ان کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن یہ ناکافی اور وقتی ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ کم از کم نصف صدی تک کی ممکنہ صورت حال اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جامع پالیسی طے کی جائے اور بجائے اس کے کہ ہر تین چار سال کے بعد جزوی تبدیلیاں کی جاتی رہیں، پچاس سال کے لیے ایک اصولی لائحہ عمل کا تعین کیا جائے۔ مثلاً ہم نے کچھ عرصہ قبل مڈل کی سطح کی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
امریکی مسلمانوں کی صورت حال اور مستقبل کی توقعات
امریکہ میں عام مسلمانوں کی سطح پر جو بات میں نے محسوس کی، وہ یہ ہے کہ دینی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے، مساجد ومدارس کی تعداد اور ان میں حاضری کا تناسب بڑھ رہا ہے، بچوں کو دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود زیادہ سے زیادہ دینی معلومات حاصل کرنے کا شوق بھی ترقی پذیر ہے۔ ایک بات سے اس صورت حال کا اندازہ کر لیں کہ بارہ تیرہ برس قبل جب میں واشنگٹن آتا تھا تو دار الہدیٰ ایک کرائے کے اپارٹمنٹ میں تھا اور نمازوں میں اکا دکا مسلمان دور دراز سے آیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
بھارت میں خاتون مفتیوں کے پینل کا قیام
’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے ۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں حیدرآباد دکن کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ المومنات‘‘ نے تین عالمہ خواتین کو افتا کا کورس کرانے کے بعد فتویٰ نویسی کی تربیت دی ہے اور ان پر مشتمل خواتین مفتیوں کا ایک پینل بنا دیا ہے جو خواتین سے متعلقہ مسائل کو براہ راست سنتی اور ان کے بارے میں شرعی اصولوں کی روشنی میں فتویٰ جاری کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
عصر حاضر کے چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں
پہلی بات جسے میں ’’بے خبری کا بحران‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں، یہ ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی غالب اکثریت آج کے عالمی حالات اور ماحول دونوں سے بے خبر ہے۔ ہمیں نہ دنیا کے جغرافیے کا علم ہے اور نہ تاریخ کا۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ آج کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، کیسے کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ افراد کی بات نہیں کرتا۔ دوچار فی صد حضرات ضرور اس سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن مجموعی صورت حال یہی ہے جو میں نے عرض کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ
حکمران طبقوں اور مغرب کی تہذیب و ترقی سے مرعوب حلقوں کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر و تشریح کی جائے جس میں ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر کوئی اثر نہ پڑے۔ سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی۔ شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں۔ ناچ گانے اور عریانی و فحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے۔ اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
امریکہ کا حالیہ سفر اور چند تاثرات
۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۰ء تک چار پانچ دفعہ امریکہ جا چکا ہوں اور امریکہ کے بہت سے شہروں میں مہینوں گھوما پھرا ہوں۔ اس کے بعد ویزے کی کوشش کرتا رہا مگر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا حتیٰ کہ مئی ۲۰۰۱ء میں مجھے پانچ سال کے لیے ملٹی پل ویزا مل گیا مگر ۱۱ ستمبر کے سانحہ کے باعث حالات میں ایسی تبدیلی آئی کہ خواہش کے باوجود امریکہ کا سفر نہ کر سکا اور اب تقریباً تیرہ سال کے بعد امریکہ کے مختصر سے مطالعاتی دورے کا موقع مل گیا۔ واشنگٹن میٹرو پولیٹن کے علاقے میں میرے ہم زلف محمد یونس صاحب سالہا سال سے بچوں سمیت قیام پذیر ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرۂ کار
قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح اور جدید فقہ اسلامی کی تدوین کے نعرہ سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ اس سے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے کٹ جانے کا تصور اجاگر ہوتا ہے مگر فقہ اسلامی پر اجتماعی نظر ثانی کو ہم وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں۔ ویسی ہی ضرورت جیسی اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں محسوس کی گئی اور جس کے نتیجے میں فتاویٰ عالمگیری وجود میں آیا تھا۔ اگر گیارہویں صدی میں فقہ کے سابقہ ذخیرہ پر نظر ثانی اور اس دور کے جدید مسائل کے حل کے لیے مشترکہ علمی کاوش فقہی تسلسل کے منافی نہ تھی تو آج بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قرب قیامت کی پیش گوئیاں
قرآن کریم یا جناب نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئیوں کا اپنے دور کے واقعات پر اطلاق یا انہیں مستقبل کے حوالہ کر کے ان کے وقوع کا انتظار خود حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ رہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ’’دخان‘‘ اور ’’البطشۃ الکبریٰ‘‘ کی پیش گوئیوں کا حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اپنے دور کے حالات پر اطلاق کرتے ہیں، جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ انہیں قیامت کی نشانیوں میں شمار کر کے اپنے دور میں ان کے وقوع کی بات قبول نہیں کرتے۔ اس سے اصولاً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیش گوئیوں کے بارے میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد
عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے حوالے سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت اور ان کے خلاف مکروہ اور معاندانہ پراپیگنڈا بھی امریکی مہم کا حصہ ہے جس کے بارے میں امریکی قیادت کے ذمہ دار حضرات کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں۔ اس لیے ہم پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے خلاف امریکی عزائم اور یلغار صرف اور صرف معاشی مفادات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں مذاہب کے درمیان کشمکش اور مغربی تہذیب کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم بھی بنیادی اسباب کے طور پر پوری طرح کار فرما ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
Pages
- « شروع
- ‹ پچھلا صفحہ
- …
- 440
- 441
- …
- اگلا صفحہ ›
- آخر »