جہادِ افغانستان اور عالمِ اسلام

   
۲۱ اگست ۱۹۸۷ء

(یہ مضمون قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا نور محمد شہیدؒ آف وانا کی کتاب ’’جہادِ افغانستان‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر تحریر کیا گیا تھا۔)

جہاد اسلام کے بنیادی احکام میں سے ایک حکم ہے جس پر ملت اسلامیہ کی سطوت و شوکت اور غلبہ و اقتدار کا دارومدار ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے جہاد کے احکام و مسائل اسی تفصیل و اہتمام کے ساتھ ذکر فرمائے ہیں جس تفصیل و اہتمام کے ساتھ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر احکام شرعیہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرونِ اولیٰ میں اسلام کے احکام کا ذکر جب بھی ہوتا تھا جہاد کا ذکر ان کے ساتھ ہوتا تھا اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد میں فکری یا عملی طور پر کوئی فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ محدثین اور فقہاء نے احادیث اور فقہ کی جتنی کتابیں مرتب کر کے امت کے حوالے کی ہیں ان میں جہاد کے مستقل ابواب قائم کیے ہیں، اس کے مسائل بیان کیے ہیں اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ جہاد کو جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی کوہان کی بلندی یعنی اس کی برتری اور رفعت کی علامت قرار دیا ہے اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’جب تم کاروبار اور کھیتی باڑی کے پیچھے پڑ جاؤ گے اور جہاد ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دیں گے جو دین کی طرف واپس آئے بغیر تم سے نہیں ہٹے گی۔‘‘ (ابوداؤد)

گویا جہاد مسلمانوں کی عزت و وقار کی علامت ہے اور اس کا ترک کرنا ذلت و رسوائی کا باعث ہے اور یہ ذلت و رسوائی ہم عالم اسلام میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کم و بیش ایک ارب کے قریب تعداد اور چالیس سے زائد باقاعدہ مسلم حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی اسباب و وسائل کی فراوانی کے باوجود آج ملتِ اسلامیہ غیروں بلکہ دشمنوں کی دستِ نگر ہے۔ نظریات اور نظام سے لے کر دفاع اور ٹیکنالوجی تک ہر معاملہ میں ہم دوسروں کے محتاج ہیں، اس سے بڑی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے؟ حافظ ابن حجر الہیثمیؒ نے ’’الزواجر عن اقتراف الکبائر‘‘ میں امام طبرانیؒ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے اور اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

ما ترک قوم الجہاد الا عمھم اللہ تعالیٰ بالعذاب۔ (الزواجر ص ۱۶۴ ج ۲)

کوئی قوم بھی جہاد ترک نہیں کرتی مگر اللہ تعالیٰ اسے عمومی عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

اس ارشادِ نبویؐ کی روشنی میں آج ہم عالمِ اسلام کی مجموعی صورتِ حال کو دیکھیں تو جہاد جیسے اہم فریضہ کے ترک کر دینے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا یہ عمومی عذاب باہمی تشنت و افتراق، غیر مسلم اقوام کے فکری اور نظریاتی غلبہ، سائنسی و حربی بالادستی اور دشمنوں کی احتیاج کی صورت میں بالکل واضح اور روشن دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے ہاتھ میں جب تک جہاد کا پرچم سربلند رہا ہے مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے باوجود کفر کی قوتیں ان کے سامنے سرنگوں رہی ہیں اور مسلمانوں کی قوت و شوکت پوری دنیا میں مسلم رہی ہے۔ اور جب سے مسلمانوں نے اپنے شب و روز کے اعمال میں سے جہاد اور اس کی تیاری کو نکال دیا ہے ملتِ اسلامیہ کی حیثیت ایک بے بس اور مقہور قوم کی ہو کر رہ گئی ہے۔ برطانیہ کے ایک سابق وزیراعظم مسٹر گلڈسٹون کے مطابق جہاد (بقول ان کے ’’مذہبی جنون‘‘) کا یہ جذبہ ہی ایک ایسی قوت ہے جو مسلمانوں کو کسی دوسری قوم کا محکوم ہونے سے روکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے مختلف حصوں پر استعماری قوتوں کے غلبہ و تسلط کے بعد ان متسلط قوتوں کا سب سے بڑا ہدف یہی رہا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کے جذبہ کو سرد کیا جائے اور ان کی عملی زندگی سے جہاد کے شرعی حکم کو بے دخل کر دیا جائے۔ خود ہمارے ہاں برصغیر پاکستان، بھارت و بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار نے اپنے دورِ تسلط میں مختلف مذہبی طبقوں کو صرف اس لیے جنم دیا کہ وہ جہاد کی مخالفت کریں اور مسلمانوں کے ذہنوں سے جہاد کو دور کریں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا تو مقصدِ وحید یہی تھا۔

خلافتِ عثمانیہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا آخری نشان اور علامت تھی جسے ختم کرنے کے لیے استعماری قوتوں نے مسلسل سازشیں کیں اور اب تو واقعات کے تسلسل اور قرائن و شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے مؤرخین کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا کہ ترکوں کی خلافتِ عثمانیہ کے خلاف عربوں کو ابھارنے اور خلافت کے زیرِ نگین مختلف علاقوں میں بغاوت پیدا کرنے میں مغربی استعمار کی مسلسل سازشوں کا حصہ ہے۔ اور انہی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں خلافتِ عثمانیہ کا وجود ختم ہوا جس سے استعماری قوتوں کے تین بڑے مقاصد تھے:

  1. مسلمانوں میں خلافت کا برائے نام وجود بلکہ اس کا تصور بھی باقی نہ رہے اور مسلمان نظامِ حکومت کے سلسلہ میں جدید افکار و نظریات کو ذہناً قبول کر لیں۔
  2. مسلمانوں میں جہاد کا تصور ختم ہو جائے اور کوئی ایسا ادارہ باقی نہ رہے جو مسلمانوں کو جہاد کے لیے دعوت دے سکے یا انہیں جمع کر سکے۔
  3. مسلمانوں کی اجتماعی قوت (خلافتِ عثمانیہ) کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کو بسانے اور ان کی ریاست قائم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔

اب اس کے نتائج کو دیکھ لیں کہ ان تینوں مقاصد میں استعماری قوتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ خلافت کا تصور مسلمانوں کے ذہنوں سے محو ہو چکا ہے اور کم و بیش تمام مسلم حکومتوں کی بنیاد جدید افکار مثلاً جمہوریت یا سوشلزم پر ہے۔ سعودی عرب یا ایک دو اور حکومتوں کی اصولی بنیاد اگرچہ مذہب پر بیان کی جاتی ہے مگر وہاں بھی نظامِ حکومت اسلامی خلافت نہیں بلکہ بادشاہت ہے اور ملک کا مکمل نظام بھی پورا اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ جہاد کا ذکر اب صرف حدیث اور فقہ کی کتابوں میں رہ گیا ہے، مسلمانوں کی عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ حتیٰ کہ افغانستان میں خالص شرعی بنیادوں پر ہونے والا جہاد بھی اب مسلمانوں کو کوئی عجیب و غریب سا مسئلہ لگ رہا ہے اور عام مسلمان کا ذہن اس جہاد کو اپنے اندر جگہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا ہے۔ فلسطین میں یہودی سلطنت اسرائیل کے نام سے نہ صرف قائم ہو چکی ہے بلکہ عالمِ عرب اور پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک مصیبت اور چیلنج بنی ہوئی ہے۔

یہی صورتِ حال ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ گرامی میں (۱) اللہ تعالیٰ کے عمومی عذاب (۲) مسلمانوں کی ذلت (۳) دشمن کے تسلط (۴) اور ملتِ اسلامیہ کی بے بسی سے تعبیر کیا ہے۔ بلکہ قرآن کریم کی آیت کریمہ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ‘‘ کی جو تفسیر صحابیٔ رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے کی ہے اسے سامنے رکھا جائے تو یہ خوداختیاری ہلاکت کی وہ شاہراہ ہے جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں منع فرمایا ہے۔ امام ترمذیؒ نے جامع ترمذی ص ۱۲۱ ج ۲ میں حضرت ابو عمرانؓ سے روایت نقل کی ہے اور اسے حدیث حسن غریب صحیح قرار دیا ہے۔

’’حضرت ابو عمرانؓ کہتے ہیں کہ ہم غزوۂ روم کے موقع پر روم کے ایک شہر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے کہ اچانک رومیوں کا ایک بڑا لشکر قلعہ سے نکل کر ہم پر حملہ آور ہوا۔ ہمارے لشکر میں سے بھی کم و بیش اتنے ہی لوگ یا ان سے زیادہ ان کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھے۔ ان میں سے ایک مسلمان نے تنہا آگے بڑھ کر رومیوں پر حملہ کر دیا اور ان کے لشکر میں گھس گیا۔ مسلمان یہ دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ شخص تو اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے (حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ‘‘) اس پر حضرت ابو ایوب انصاریؓ اٹھے اور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے لوگو! تم اس آیت کریمہ کا یہ مطلب سمجھتے ہو حالانکہ قرآن کریم کی یہ آیت ہم انصارِ مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ دیا اور اس کے مددگار زیادہ ہوگئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے بغیر آپس میں خفیہ مشورہ کیا کہ ہمارے اموال اکثر جنگوں میں صرف ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اب اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اس کے مددگار بہت ہوگئے ہیں اس لیے اب اگر ہم گھروں میں رہ کر اپنے اموال وغیرہ کی اصلاح کر لیں اور نقصانات کی تلافی کی کوئی صورت نکالیں تو بہتر ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ پر یہ آیت کریمہ نازل کر کے ہماری بات کو رد کر دیا کہ ’’وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو اور خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ تو اس ہلاکت سے مراد اپنے اموال اور کاروبار کی اصلاح کے لیے گھروں میں بیٹھ رہنا اور جہاد کو ترک کر دینا ہے۔‘‘

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے ارشاد کے مطابق جہاد کو ترک کر دینا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے اور قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت کا مفہوم و مقصد بھی یہی ہے۔ اس تفسیر کی روشنی میں بھی ہم اپنے موجودہ حالات کا تجزیہ کریں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ مسلمانوں نے جہاد کا راستہ ترک کر کے خود کو ہلاکت کی موجودہ دلدل میں دھکیل دیا ہے اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت کے حوالے سے بات گزر چکی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکِ جہاد کے باعث مسلط ہونے والی اس رسوائی کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ذلت سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت دین (یعنی جہاد) کی طرف واپسی کے بغیر نہیں ہوگی۔ اس لیے آج عالمِ اسلام کی اجتماعی مشکلات و مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد کو بیدار کیا جائے اور جہاد کی تحریک کو اس انداز میں منظم کیا جائے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ اور عظمتِ رفتہ کی بحالی کا نقطۂ آغاز بن سکے۔

اس پسِ منظر میں جہادِ افغانستان کو دیکھا جائے تو یہ مایوسیوں کے اس تاریک دور میں امید کی ایک ایسی کرن نظر آتی ہے جس سے ملتِ اسلامیہ کے اس عظیم شاہراہ پر گامزن ہونے کے امکانات محسوس ہو رہے ہیں جو عالمِ اسلام کی سطوت و شوکت اور غلبہ و اقتدار کی منزل کی طرف جاتی ہے۔ افغانستان میں روسی استعمار کی جارحانہ فوج کشی اور غلبہ کے خلاف افغانستان کے غیور و جسور حریت پسند مسلمان آزادی کی جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ شرعی نقطۂ نظر سے بلاشبہ جہاد ہے اور دنیائے اسلام کے دینی و علمی حلقے اس کے جہادِ شرعی ہونے پر متفق ہیں۔ راقم الحروف کو خود جہادِ افغانستان کے بعض مورچوں پر جانے کا موقع ملا ہے اور ارگون کے محاذ پر کچھ لمحات گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اس موقع پر ایک افغان عالمِ دین کی یہ بات میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی ہے کہ

’’ہمیں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کی شکل میں اس جرم کی سزا ملی ہے کہ جب روس نے وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں پر قبضہ کیا اور وہاں کے بعض حریت پسند مسلمانوں نے مزاحمت اور جہاد کا راستہ اختیار کیا تو ہم یعنی افغانستان کے مسلمانوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور ان کی مدد نہ کی جس کی وجہ سے وہ پسپا اور مجبور ہوگئے۔ اور وہاں کامیابی کے بعد روس کو افغانستان کی طرف پیش قدمی کا حوصلہ ہوا، اس لیے میں پاکستان کے علماء کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ہماری حالت سے عبرت پکڑیں اور اس جرم کا ارتکاب نہ کریں جس کے نتیجہ میں ہم یہ بڑی سزا بھگت رہے ہیں۔‘‘

جہاد کے شرعی احکام کے مطابق جس ملک پر کافروں کا تسلط ہو جائے وہاں کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے جبکہ ان کے قریب رہنے والے مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اس مسئلہ کی رو سے ہم اہلِ پاکستان پر جہادِ افغانستان میں حصہ لینا اگر فرضِ عین نہیں تو فرضِ کفایہ تو بہرحال ضرور ہے اور ہم شرعاً اس کے مکلف ہیں کہ جہاد میں جتنا حصہ ڈال سکیں اس سے گریز نہ کریں۔ جہادِ افغانستان میں حصہ لینے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس جہاد کے بارے میں مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے اور اس کے خلاف مختلف حلقوں کی طرف سے جو شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ان کا ازالہ کر کے جہاد کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے۔

افغان مجاہدین کی مسلسل پیش قدمی اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے بقول افغانستان کے ۸۰ فیصد علاقہ پر مجاہدین کے کنٹرول نے روس کے ساتھ امریکہ کو بھی پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں ایک خالص دینی حکومت کے قیام سے جہاں روس کو بخارا، تاشقند اور روس میں واقع دیگر مسلم ریاستوں میں دینی بیداری اور آزادی کی تحریکات ابھرنے کا خطرہ ہے وہاں یہ صورتِ حال امریکہ کے لیے بھی قابلِ برداشت نہیں ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والی دینی حکومت جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی مسلم ریاستوں میں غلبۂ اسلام کی تحریکات کے لیے تقویت و تائید کا باعث بنے۔ اور یہ تحریکات افغان حریت پسندوں کے پر جوش جذبات کی تائید سے اپنے ملکوں میں لا دینی حکومتوں اور نظاموں کا تختہ الٹ کر دینی حکومتیں قائم کرنے کے قابل ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس اور امریکہ دونوں کی لابیاں جہادِ افغانستان کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ روسی لابی اسے امریکہ اور روس کے مفادات کی جنگ قرار دے کر مسلمانوں کی توجہ اس سے ہٹانے میں مصروف ہے، اور امریکی لابی صرف روسی جارحیت کے مقابلہ کی حد تک اس کی حمایت کر کے اس سے آگے اس کی شرعی حیثیت اور دینی حکومت کے قیام کے خلاف مسلسل سازشیں کر رہی ہے۔ جبکہ مجاہدینِ افغانستان ان دونوں لابیوں کے اثرات سے بے نیاز ہو کر صرف اس مقصد کے لیے مصروفِ جہاد ہیں کہ افغانستان سے روسی افواج کی مکمل اور غیر مشروط واپسی اور اس کے بعد مکمل شرعی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہو۔

جہادِ افغانستان کے خلاف مختلف جہتوں سے پراپیگنڈا میں شدت آرہی ہے۔ بالخصوص پاکستان کے عوام کو افغان مجاہدین اور مہاجرین سے متنفر اور بے زار کرنے کے لیے بیرونی لابیاں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو پوری طرح استعمال میں لا رہی ہیں۔ ان حالات میں ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی صاحبِ قلم دانشور جہادِ افغانستان کے اہم موضوع پر قلم اٹھائیں اور شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے اس کی شرعی و سیاسی حیثیت کو عوام کے سامنے واضح کریں۔ ۱۹۸۷ء کے آغاز میں افغانستان کے ارگون محاذ سے واپسی پر راقم الحروف کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں ایک رات قیام کا موقع ملا اور جنوبی وزیرستان کے مجاہد عالمِ دین مولانا نور محمد صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ مولانا موصوف نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور ایک کتاب کی اشاعت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ کتاب کے مختلف مقامات دیکھے تو دل کو بے حد خوشی ہوئی کہ اس سلسلہ میں ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات و اعتراضات کے جوابات مولانا موصوف نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ دیے ہیں اور گرد و غبار کو خوبصورتی کے ساتھ جھاڑ کر جہادِ افغانستان کی شرعی حیثیت کو بالکل بے غبار انداز میں پیش کر دیا ہے۔ مولانا موصوف محقق عالم اور بے باک خطیب ہیں مگر ان کے پشتون ہونے کے اثرات کتاب کی زبان پر غالب تھے اس لیے میں نے درخواست کی کہ یہ کتاب نظرِ ثانی اور صحت کے لیے راقم الحروف کے سپرد فرمائیں جو انہوں نے کمالِ شفقت سے قبول فرمائی۔ چنانچہ کتاب کے مسودہ کو ازسرِنو صاف کرنے اور اپنی نگرانی میں کتابت کرانے کی سعادت مجھے حاصل ہو گئی، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

’’جہادِ افغانستان‘‘ کے نام سے یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، اس امید پر کہ یہ کتاب ان شکوک و شبہات کے خاتمہ کا مؤثر ذریعہ بنے گی جو افغانستان کے جہادِ آزادی کے بارے میں پھیلائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجاہدینِ افغانستان کو ان کے مقاصد میں کامیابی عطا فرمائیں اور غیور افغان قوم کی اس عظیم جدوجہد کو عالمِ اسلام میں جہاد کے احیا اور اسلام کے غلبہ کا نکتۂ آغاز بنائیں، آمین یا الہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter