تحفظِ حقوقِ نسواں بل کے بارے میں خصوصی علماء کمیٹی کا موقف

   
۴ و ۵ اکتوبر ۲۰۰۶ء

حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم اور قومی اسمبلی میں زیر بحث تحفظ حقوقِ نسواں بل کے بارے میں (۱) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، (۲) مولانا حسن جان، (۳) مولانا مفتی منیب الرحمٰن، (۴) مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، (۵) مولانا مفتی غلام الرحمٰن، (۶) مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور (۷) راقم الحروف ابو عمار زاہد الراشدی پر مشتمل جو ”خصوصی علماء کمیٹی“ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمٰن کے مشورہ سے قائم کی تھی، اس نے مختلف مراحل پر اپنی سفارشات تحریری صورت میں چودھری صاحب موصوف کو پیش کی ہیں۔ ان کے کچھ حصے مختلف خبروں اور بیانات کی صورت میں قوم کے سامنے آ چکے ہیں، مگر میں چاہتا ہوں کہ یہ تحریریں مکمل طور پر ”نوائے قلم“ کے ذریعے عوام کے سامنے آ جائیں، تاکہ قارئین کی معلومات کا حصہ بننے کے ساتھ ساتھ قومی پریس کے ریکارڈ میں بھی شامل ہو جائیں۔ یہ تین الگ الگ تحریریں ہیں:

  1. پہلی تحریر ۱۰ ستمبر کو علماء کمیٹی کی طرف سے ابتدائی تجاویز اور تبصرے کے طور پر پیش کی گئی۔
  2. دوسری تحریر چودھری موصوف اور ان کے رفقاء کے ساتھ طویل گفتگو اور وزارتِ قانون کے ذمہ دار حضرات کے ساتھ بحث و مباحثے کے نتیجے میں ۱۲ ستمبر کو صبح تین بجے کے لگ بھگ مرتب کی گئی اور اس پر کمیٹی کے ارکان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین، پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور قومی اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل کے بارے میں قائم کی جانے والی سلیکٹ کمیٹی کے سربراہ سردار نصر اللہ خان دریشک کے بھی دستخط ہیں۔
  3. جبکہ تیسری تحریر ۱۷ ستمبر کو خصوصی علماء کمیٹی کی طرف سے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے چودھری شجاعت حسین صاحب کو پیش کی۔

۱۰ ستمبر کو پیش کی جانے والی تحریر:

’’علماء کمیٹی نے اس مسودۂ قانون کا جائزہ لیا جو تحفظ نسواں (Protection of Women) بل کے نام سے اسمبلی میں پیش ہوا ہے۔ اس جائزے کے نتیجے میں ہماری گزارشات درج ذیل ہیں:
❶ بل کو ” تحفظ حقوق نسواں“ کا نام دیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ جو حقیقی زیادتیاں ہو رہی ہیں، ان کے سد باب کے لیے قانون سازی نہایت مستحسن اور ضروری اقدام ہے، لیکن اس مجوزہ بل میں حدود آرڈیننس کی دفعات میں ترمیم کے سوا خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق کوئی اہم بات موجود نہیں ہے اور حدود آرڈیننس میں جو ترمیمات تجویز کی گئی ہیں، ان میں چند کے سوا کسی سے خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے ازالے میں کوئی مدد نہیں ملتی، بلکہ بعض سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بل کا مقصود خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے تو اس میں حقیقی مظالم کا سد باب ضروری ہے، جو ہمارے معاشرے میں واقعتاً خواتین کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں، مثلاً

  • ہمارے معاشرے میں عملاً عورتوں کو حقِ وراثت سے بالکل محروم کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں قانون سازی کی ضرورت ہے کہ خواتین کے حق وراثت کو غصب کرنا قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
  • نیز بہت سے علاقوں میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے، اس عمل کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
  • اسی طرح اکٹھی تین طلاقیں دے کر خواتین کے لیے جو مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں، ان کے سد باب کے لیے ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
  • بہت سے شوہر اپنی بیویوں کو ان کے اعتقاد اور ضمیر کے خلاف گناہ کے کاموں پر مجبور کرتے ہیں، اس کو بھی قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
  • اسی طرح قرآن شریف کے ساتھ نکاح، عورتوں کو نکاح کے بہانے بیچنا، نیز وٹہ سٹہ اور بیواؤں کے نکاح کو معیوب سمجھنا۔

یہ ساری رسمیں خلافِ شرع اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔

غرض اگر واقعتاً قانون کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے تو ان کے ان جیسے حقیقی مسائل پر توجہ دے کر ان کو قانون کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

❷ اگرچہ مجوزہ بل کے ذریعے حدود آرڈیننس میں بہت سی ترمیمات تجویز کی گئی ہیں، لیکن ان ترمیمات میں بعض امور شریعت کے بھی خلاف ہیں اور خواتین کے ساتھ زیادتی پر بھی مشتمل ہیں۔ مثلاً مجوزہ ترمیم کا نتیجہ یہ ہو گا کہ زنا بالجبر کی صورت میں مرد پر حد کی کوئی سزا کسی بھی صورت میں عائد نہیں ہو سکتی اور حد کی سزا صرف اس صورت میں ہو گی جب باہمی رضا مندی سے زنا ہو۔ قرآن و سنت کی رو سے زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق یہ ہے کہ زنا بالرضا میں اگر مرد اور عورت دونوں کے خلاف زنا کا جرم چار گواہوں یا اقرار سے ثابت ہو جائے تو زنا کی حد دونوں پر جاری ہو گی، البتہ زنا بالجبر کی صورت میں ذمہ داری صرف مرد پر عائد ہو گی۔

یوں بھی زنا بالجبر زیادہ سنگین نوعیت کا جرم ہے، اس لیے اگر زنا بالرضا پر حد جاری ہو رہی ہے تو زنا بالجبر پر تو بطریق اولیٰ حد جاری ہونی چاہیے۔ جو شخص زبردستی کسی عورت سے زنا کرے، اس کو حد کی سزا سے بالکل چھٹی دے دینا نہ صرف شریعت کے خلاف ہے، بلکہ خواتین کے ساتھ واضح زیادتی ہے۔ حدود آرڈیننس میں ”زنا بالجبر“ کی سزا ”زنا بالرضا“ کے مقابلے میں اسی لیے زیادہ رکھی گئی ہے، تعزیر میں بھی اور حد میں بھی۔ یعنی اگر مجرم غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑوں کی حد کے علاوہ عدالت اسے اپنی صوابدید پر کوئی اور تعزیری سزا بھی دے سکتی ہے جو سزائے موت تک ہو سکتی ہے۔

لہٰذا ہماری رائے میں جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس کی دفعہ ۶ کو ترمیمی بل میں سے جو حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے، وہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور خواتین کے ساتھ بھی زیادتی کا موجب ہو گی۔

❸ زنا بالجبر کی سزا حدود آرڈیننس سے ختم کر کے تعزیراتِ پاکستان میں بطور تعزیر رکھ دی گئی ہے، لیکن زنا بالرضا کی صورت میں اگر حد کی شرائط پوری نہ ہوں تو مجرم کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس صورت میں اگر بدکاری کا ثبوت گواہوں وغیرہ سے ہو جائے تو اس پر تعزیری سزا جاری ہونا ضروری ہے۔ حدود آرڈیننس میں اس کو زنا موجب تعزیر (Zina Liable to Tazir) قرار دیا گیا ہے۔ اس میں ترمیم ممکن ہے کہ اس کو زنا کا نام دینے کی بجائے بدکاری یا سیاہ کاری وغیرہ کا کوئی نام دیا جائے، لیکن ایسے مجرموں کو کسی بھی سزا سے آزاد چھوڑنا عملاً زنا بالرضا کی قانونی اجازت کے مترادف ہو گا۔ کیونکہ حد کی شرائط تو شاذ و نادر ہی کسی مقدمے میں پوری ہوتی ہیں اور اس ترمیم سے ایسی صورت میں تعزیر کا راستہ بالکل بند ہو جائے گا۔

❹ حدود آرڈیننس میں حد کے علاوہ بہت سے قابلِ تعزیر جرائم کو حدود آرڈیننس سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان میں داخل کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ ایک بے ضرر تبدیلی معلوم ہوتی ہے، لیکن ان جرائم کو حدود آرڈیننس میں شامل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جو قابلِ تعزیر جرائم قابلِ حد جرائم سے ملتے جلتے ہیں، ایک ہی عدالت میں ان کا فیصلہ ہو اور عدالتی کارروائی میں پیچیدگی پیدا نہ ہو۔ مجوزہ ترمیم کے نتیجے میں عملاً یہ صورت حال ہو گی کہ مثلاً اگر کوئی مجرم زنا کے مقدمے میں بری ہو گیا، لیکن کسی لڑکی کو اغوا کرنے کا وہ مجرم ہے تو زنا کا مقدمہ تو وفاقی شرعی عدالت میں چلے گا۔ وہاں سے بری ہونے کے بعد وفاقی شرعی عدالت اسے اغوا کی سزا نہیں دے سکے گی، بلکہ اس کے لیے دوسری عدالتوں میں نئے سرے سے مقدمہ دائر کرنا ہو گا، جس سے مظلوم خواتین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔

❺ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۳ میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کو (Overriding effect) حاصل ہو گا، یعنی اگر اس قانون اور دوسرے قوانین میں تعارض ہو تو حدود آرڈیننس دوسرے قوانین پر بالا ہو گا۔ مجوزہ بل میں حدود آرڈیننس کی یہ حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اس کی وجہ سے متعدد قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، جو خود خواتین کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ مثلاً حدود کا قانون ہر اس نکاح کو معتبر مانتا ہے جو شریعت کے مطابق ہو، لیکن مسلم عائلی قوانین آرڈیننس کے تحت چونکہ کوئی طلاق ”چیئرمین یونین کونسل“ کو نوٹس بھیجے بغیر قانوناً معتبر نہیں ہوتی، اس لیے نوٹس کے بغیر کوئی عورت عدت کے بعد دوسرا نکاح کر لے تو عائلی قوانین کے تحت وہ نکاح معتبر نہیں ہوتا۔ یہاں حدود آرڈیننس اور مسلم عائلی قوانین میں تعارض ہے۔ اگر حدود آرڈیننس کو (Overriding effect) نہ دیا جائے تو وہ عورت جس نے جائز شرعی نکاح کیا ہے، محض ایک رسمی کارروائی نہ کرنے کی بنا پر زنا میں سزا یاب ہو سکتی ہے۔

❻ اس بل کے ساتھ جو بیان اغراض و وجوہ (Statement of Objects) ملحق ہے، اس میں بہت سی باتیں خلاف واقعہ ہیں اور اس میں یہ کہا گیا ہے کہ لعان میں فسخِ نکاح کا حق اس فوجداری عدالت کو نہیں ہونا چاہیے جو لعان کی کارروائی کر رہی ہے، بلکہ اس کے لیے تنسیخِ نکاح کے قانون میں لعان کو وجہ بنا کر وہاں سے نکاح فسخ ہونا چاہیے۔ اس تجویز کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس عورت نے فوجداری عدالت میں لعان کی کارروائی مکمل کی، اس کو نکاح فسخ کرانے کے لیے فیملی کورٹ میں نئے سرے سے کارروائی کرنی پڑے گی، حالانکہ حدود آرڈیننس میں یہ کہا گیا تھا کہ پہلی عدالت ہی نکاح بھی فسخ کر دے گی۔ اس میں عورت کو نئے سرے سے دھکے کھانے کی ضرورت نہیں تھی۔

یہ چند موٹے موٹے نکات میں جو مجوزہ بل کے جائزے کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں، ان کے علاوہ بھی مجوزہ بل میں بہت سے امور قابلِ اعتراض یا غور طلب ہیں، لہٰذا ہم سب کی یہ حتمی رائے ہے کہ اس بل کو عجلت میں منظور کرنا بے شمار مسائل پیدا کرے گا۔ اسے ابھی اسمبلی سے منظور نہیں کرانا چاہیے، بلکہ غیر جذباتی انداز میں اس پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر اور تحقیق کے بعد پیش کیا جائے۔ اگر ہماری مذکورہ بالا معروضات منظور ہوں تو ہم بل کا دفعہ وار جائزہ لے کر اپنی مفصل رائے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

۱۱، ۱۲ ستمبر کو باہمی مشورے و مباحثے کے ساتھ متفقہ طور پر مرتب کی جانے والی تحریر:

’’قومی اسمبلی میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا جو بل زیر بحث ہے، اس کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقات میں طے کی جانے والی خصوصی علماء کمیٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا اخلاق احمد اور حافظ محمد عمار یاسر نے شرکت کی جبکہ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ہمراہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ دریشک اور وزارت قانون کے بعض ذمہ دار حکام نے شرکت کی۔

چودھری شجاعت حسین نے علمائے کرام سے کہا کہ ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس میں قرآن و سنت کے منافی باتیں بھی شامل ہیں، اس لیے ہم نے آپ حضرت کو زحمت دی ہے کہ آپ حضرات بل کا جائزہ لے کر قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں، کیونکہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جو حدود شرعیہ اور قرآن و سنت کے منافی ہو، بلکہ ہم ایسا سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس پر علماء کرام اور ماہرین قانون نے بل کی متعدد دفعات کا تفصیلی جائزہ لیا جو ۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ء بروز اتوار صبح نو بجے سے کھانے اور نماز کے وقفے کے ساتھ رات تین بجے تک جاری رہا اور اگلے روز ۳ بجے سہ پہر تک بھی یہ مشاورت جاری رہی اور متعدد اصولی امور پر اتفاق رائے ہو گیا جس کے مطابق مندرجہ ذیل معاملات طے پائے۔

❶ زنا بالجبر اگر حد کی شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے گی۔

❷ حدود آرڈیننس میں زنا موجب تعزیر کی بجائے ’’فحاشی‘‘ کے عنوان سے ایک نئی دفعہ کا تعزیرات پاکستان (PPC) میں اضافہ کیا جائے گا جس کا متن درج ذیل ہے:

Willfully have sexual intercourse with one another and shall be punished with imprisonment which may extend to five years and shall also be liable to fine.

زنا آرڈیننس کی دفعہ تین کی جگہ مندرجہ ذیل دفعہ تحریر کی جائے گی:

In the interpretation and application of this Ordinance, the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunah shall have effect notwithstanding anything contained in any other law for the time being in force.

اجلاس میں شریک علمائے کرام نے کہا کہ حقوق نسواں بل کے بارے میں قرآن و سنت کے حوالے سے اصولی امور پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور اب اس بل میں اصولی طور پر قرآن و سنت کے منافی کوئی بات باقی نہیں رہی، تاہم بعض ذیلی امور پر اگر ہمیں مزید وقت دیا گیا تو تفصیلی سفارشات پیش کر دی جائیں گی۔

اس متفقہ تحریر کے ساتھ خصوصی علماء کمیٹی کی طرف سے یہ سفارشات بھی اس کے ساتھ شامل کی گئیں:

پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء کو ممتاز علمائے کرام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا حسن جان، مولانا مفتی غلام الرحمٰن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا اخلاق احمد اور حافظ محمد عمار یاسر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر حکومت واقعی پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عملی پیش رفت کرنا چاہتی ہے تو اسے مندرجہ ذیل قانونی اقدامات کرنے چاہئیں:

❶ خواتین کو عملاً وراثت سے عام طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کے سدِباب کے لیے مستقل قانون بنایا جائے۔

❷ بعض علاقوں میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔

❸ بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس کو بھی شریک جرم قرار دیا جائے۔

❹قرآن کریم کے ساتھ نکاح کی مذموم رسم کا سدباب کیا جائے۔

❺جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاح شغار کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔

❻عورتوں کی خرید و فروخت اور انہیں میراث بنانے کے غیر شرعی رواج اور رسوم کا قانونی سدباب کیا جائے۔

۱۷ ستمبر کو چودھری شجاعت حسین کو پیش کی جانے والی تحریر:

’’مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۶ء کو علماء کمیٹی نے ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں جن تین بنیادی نکات پر دستخط کیے تھے، ان کے آخر میں یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ اصولی طور پر ان نکات پر اتفاق رائے کے بعد کچھ ذیلی امور اور ہیں جن پر اگر کمیٹی کو وقت دیا گیا تو کمیٹی ان پر اپنی رائے ظاہر کرے گی۔ نیز زبانی طور پر یہ طے ہوا تھا کہ ان تین نکات کو مسودے میں سمونے کے لیے بل میں تبدیلیوں کے بعد اسے ہمیں دکھایا جائے گا، چنانچہ ۱۳ ستمبر ۲۰۰۶ء کو اس غرض کے لیے جب کمیٹی کو دوبارہ اسلام آباد طلب کیا گیا تو ہم نے نئے مسودے کا جائزہ لے کر یہ محسوس کیا کہ اگرچہ وہ تین نکات اس مسودے میں شامل کر لیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے امور کا اضافہ کر دیا گیا ہے جن کے بعد ان تین نکات کے عملاً مؤثر ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تشویش سے حکومت کے نمائندہ حضرات کو نہ صرف زبانی طور پر آگاہ کر دیا بلکہ ان پر تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ ہمیں آخر وقت تک یہ امید تھی کہ کم از کم ان میں سے چند اہم نکات پر ہماری تجویز مان لی جائے گی لیکن آخر وقت میں جو مسودہ انتہائی شکل میں سامنے لایا گیا، اسے دیکھ کر واضح ہوا کہ ان میں سے کوئی بات مسودے میں شامل نہیں کی گئی۔ اگرچہ اس وقت ہم نے زبانی طور پر اپنا یہ تاثر واضح کر دیا تھا، لیکن ان نکات کو تحریری طور پر مرتب کرنے کا وقت نہیں مل سکا تھا۔

اب ہم ذیل میں ان نکات کو تحریری شکل میں پیش کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بل کو بامعنی اور مؤثر بنانے کے لیے ان تجاویز پر عمل کیا جائے گا:

❶ تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۴۹۶۔بی کا جو اضافہ کیا جا رہا ہے، اس کے عنوان اور متن میں Fornication کا لفظ طے شدہ لفظ Lewdness کے بجائے بدل دیا گیا ہے۔ اسے بدل کر Lewdness یا Siyahkari کرنا ضروری ہے کیونکہ Fornication صرف غیر شادی شدہ افراد کے ’’زنا‘‘ کو کہتے ہیں۔ اس بات سے زبانی طور پر اتفاق کر لیا گیا تھا، مگر آخری مسودے میں اس کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

❷ کمیٹی نے جب اپنی سابقہ سفارش میں یہ کہا تھا کہ زنا بالجبر پر بھی حد نافذ کی جائے تو اس کا مطلب واضح طور پر یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۶ میں ’’زنا بالجبر ‘‘ موجب حد کی جو تعریف اور جو احکام درج ہیں، انہی کو بحال کیا جائے لیکن نئے مسودے میں اس کے بجائے وہاں دوسری تعریف درج کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں سولہ سال سے کم عمر لڑکی کو نابالغ قرار دے کر اس کی مرضی کو غیر معتبر قرار دیا گیا ہے، حالانکہ شرعاً بلوغ کے لیے علامات بلوغ (Puberty) کافی ہیں اور اس کے بعد اس کی رضامندی شرعاً معتبر ہے، لہٰذا ہمارے نزدیک زنا آرڈیننس کی دفعہ ۶ کو جوں کا توں بحال کر دینا ضروری ہے اور اگر موجودہ دفعہ برقرار رہے تو مجوزہ مسودے کی دفعہ ۱۲۔اے کی ذیلی دفعہ v اس طرح بنائی جائے:

With or without her consent when she is non-adult

❸ مجوزہ مسودے کی دفعہ ۱۲۔بی کے ذریعے جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ۱۹۷۹ میں دفعہ ۶۔اے کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے اور اس سے وہ متفقہ امور غیر مؤثر ہو جائیں گے جن پر ہماری نشست میں اتفاق رائے ہوا تھا۔ تمام فوجداری قوانین میں یہ بات مسلم رہی ہے کہ اگر ملزم پر بڑا جرم ثابت نہ ہو سکے تو وہی عدالت ملزم کو کمتر جرم کی سزا دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کمتر جرم اس پر ثابت ہو جائے۔ لیکن نہ جانے کیوں جرم زنا بالجبر اور زنا بالرضا کو اس اصول سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر کسی خاتون نے ملزم کے خلاف زنا بالجبر موجب حد کا مقدمہ درج کرایا ہو لیکن عدالت کے سامنے موجب حد جرم ثابت نہ ہو سکا تو عدالت اس خاتون کی فریاد رسی کے لیے ملزم کو تعزیری سزا نہیں دے سکتی۔ اس کے لیے اس کو یا دوبارہ مقدمہ دائر کرنا ہوگا یا پھر ظلم پر صبر کر کے بیٹھ جانا ہوگا۔

لہٰذا ہمارے نزدیک آرڈیننس میں دفعہ ۶۔اے کا اضافہ کرنے کی جو تجویز دی گئی ہے، وہ قطعی غیر منصفانہ اور غلط ہے اور اسے حذف کرنا ضروری ہے اور اسے حذف کرنے کے نتیجے میں جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ کی پہلی Proviso کو بحال رکھنا بھی ضروری ہے جسے مجوزہ بل میں حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

❹ مجوزہ مسودے کے پیراگراف نمبر ۳ میں ۲۰۳۔سی کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ا س کی ذیلی دفعہ ۲ میں استغاثہ درج کرانے کے لیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ مستغیث دو عینی گواہ پیش کرے۔ اول تو یہ تعزیری جرم ہے اور اس کے لیے مناسب یہ ہوتا کہ اسے قابل دست اندازی پولیس (Cognizable) قرار دے کر اس کے غلط استعمال سے بچنے کے لیے کم از کم ایس پی کے درجے کے پولیس آفیسر کو تفتیش کا اختیار دیا جاتا اور عدالت کے وارنٹ کے بغیر گرفتاری کو ممنوع کر دیا جاتا، لیکن اگر کسی وجہ سے اس کو استغاثہ (Complaint) ہی کا کیس بنانا ضروری سمجھا جائے تو دو عینی گواہوں کی شہادت پیش کرنا یہاں غیر ضروری ہے کیونکہ تعزیر کے ثبوت کے لیے دو عینی گواہ ضروری نہیں ہوتے، بلکہ ایک قابل اعتماد گواہ یا قرائنی شہادت (Circumstantial Evidence) بھی کافی ہوتی ہے، لہٰذا ہماری نظر میں اس دفعہ میں At least two eye witnesses کے بجائے Evidence available as such لکھنا چاہیے۔

❺ جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ۱۹۷۹ء کی دفعہ ۷ کو زیر نظر مسودے سے حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کی بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

ہمارے نزدیک جن امور پر اتفاق رائے ہوا تھا، ان کے مؤثر نفاذ کے لیے مندرجہ بالا پانچ ترامیم نہایت ضروری ہیں اور ان کے بغیر ان متفقہ امور کے غیر مؤثر ہو جانے کا قوی خدشہ ہے، لہٰذا مذکورہ اتفاق رائے کے بعد زیر نظر مسودے سے ہمارا اتفاق ان ترمیمات پر موقوف ہے۔ امید ہے کہ مسودے کو بامعنی بنانے کے لیے یہ ترمیمات مسودے میں شامل کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ہم نے زیر نظر بل کے بارے میں شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ اس کا نام تو تحفظ حقوق نسواں بل ہے مگر اس میں ساری بحث زنا آرڈیننس سے متعلق ہے اور خواتین کے حقیقی مسائل اور حقوق کو اس میں نہیں چھیڑا گیا۔ چنانچہ ہم نے خواتین کے حقیقی مسائل سے متعلق جو سفارشات پیش کی تھیں، ان کے بارے میں بھی ہم دوبارہ تاکید کرتے ہیں کہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter