مولانا عبد المجید انورؒ، مولانا عبد الحقؒ، حاجی جمال دینؒ

آج کا کالم چند تعزیتوں کے حوالے سے ہے۔ حضرت مولانا عبد المجید انور ہمارے محترم بزرگ دوستوں میں سے تھے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک زمانے میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال کو پاکستان میں دیوبندی مسلک کے رشیدی ذوق کے ترجمان ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد عبد اللہ اور حضرت مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی نے اس ذوق کی آبیاری کی اور ملک میں دیوبند مسلک کے تعارف اور ترجمانی کے لیے زندگی بھر محنت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ جولائی ۲۰۰۸ء

حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ

میں گزشتہ روز امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے قاری محمد ہاشم صاحب کے گھر میں قیام پذیر تھا کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرایا۔ خبروں میں ایک تعزیتی بیان نے چونکا دیا جس میں مولانا قاضی عبد اللطیف آف کلاچیؒ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا تھا۔ میرے لیے یہ خبر اچانک تھی، بہت صدمہ ہوا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی چند روز قبل ان کے بھتیجے مولانا قاضی عبد الحلیم کا انتقال ہوا تھا تو میں بیرون ملک سفر کی تیاری میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ واپسی پر رمضان المبارک کے بعد کلاچی حاضری دوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۲۰۱۰ء

مولانا میاں عبد الرحمٰنؒ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ

آج کا کالم دو محترم دوستوں اور بزرگ علمائے کرام کے حوالے سے ہے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے اور ہمارے دینی و علمی حلقوں میں ان کی جدائی کا صدمہ مسلسل محسوس کیا جا رہا ہے۔ مولانا میاں عبد الرحمٰن کا تعلق بالاکوٹ کے علاقے سے تھا۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا محمد ابراہیم نے لاہور کے معروف بازار انارکلی میں ڈیرہ لگایا اور عمر بھر وہاں حق کی آواز بلند کرتے رہے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ سے خصوصی تعلق رکھتے تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام کے سرکردہ راہنماؤں میں سے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اکتوبر ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی

حضرت مولانا عبد الرحمٰنؒ اشرفی کا وجود اس لحاظ سے بھی آج کے دور میں بسا غنیمت تھا کہ مختلف مسالک اور طبقات کے لوگ ان کے پاس بے تکلف آجایا کرتے تھے اور ان سے فیض یاب ہوتے تھے۔ وہ بھی بلا لحاظ مسلک و مشرب سب کو اپنی محبت و شفقت سے نوازتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ جوں جوں ہماری ’’قوت ہاضمہ‘‘ کمزور ہوتی جا رہی ہے، اس سطح کے بزرگوں کا دائرہ بھی سمٹ رہا ہے اور ہمارے حلقے میں اب ایسا کوئی بزرگ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جس کے پاس بلا لحاظ مسلک و مشرب او ربلا لحاظ طبقہ سب لوگ کسی حجاب کے بغیر آسکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء

دینی مدارس کے خلاف ایک نئے راؤنڈ کی تیاریاں

اگر حکومت خود بھی دینی تعلیم نہ دے اور جو ادارے یہ تعلیم دے رہے ہیں ان کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے یا مداخلت کر کے ان میں اپنا مشکوک ایجنڈا شامل کرتی رہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں بنتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بتدریج دینی تعلیم کو ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔ اور ماضی میں جامعہ عباسیہ بہاولپور اور جامعہ عثمانیہ طرز کے بیسیوں مدارس کے حوالے سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ دینی مدارس کے بارے میں اس قسم کی کوئی پالیسی جب بھی سامنے آتی ہے تو پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ یہ اقدامات دینی مدارس کے خلاف نہیں بلکہ دینی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ ستمبر ۲۰۱۶ء

میسج ٹی وی عکاظ کے میلے میں

میسج ٹی وی کے دفتر میں حاضری ہوئی تو کامران رعد صاحب اپنی رفقاء بھائی فاروق صاحب، عبد المتین صاحب، ڈاکٹر محمد الیاس صاحب (اسلام آباد)، حافظ محمد بلال فاروقی، اور دیگر ٹیم کے ہمراہ موجود تھے۔ حج بیت اللہ کی میدان عرفات سے براہ راست نشریات کا سلسلہ جاری تھا اور امیر حج کا خطبہ شروع ہونے والا تھا جو گزشتہ تین عشروں سے سعودی عرب کے مفتی اعظم ارشاد فرما رہے ہیں۔ مگر اس دفعہ ان کی علالت کی وجہ سے امام حرمین فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۲۰۱۶ء

قادیانی اقلیت کے حقوق اور ان کی آبادی کا تناسب

قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی سرحدی تقسیم کے موقع پر ضلع گورداس پور میں قادیانی حضرات نے اپنی آبادی کو خود ہی مسلمانوں سے الگ شمار کروایا تھا اس لیے انہیں اس بات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی آبادی کو الگ طور پر شمار کیا جائے۔ جبکہ یہ بات دستور پاکستان کے مطابق ان کے حقوق اور معاشرتی حیثیت کے صحیح طے ہونے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمیں قادیانیوں کے سیاسی، شہری، انسانی، اور معاشرتی حقوق سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور کو تسلیم کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ ستمبر ۲۰۱۶ء

دستور سے مسلسل انحراف کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟

1974ء کی منتخب پارلیمنٹ کے سامنے یہ مسئلہ ’’استفتاء‘‘ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟ بلکہ اسمبلی کے سامنے ’’دستوری بل‘‘ رکھا گیا تھا کہ قادیانیوں کو پوری ملت اسلامیہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے اس لیے پارلیمنٹ بھی دستور و قانون کے دائرے میں اس فیصلہ کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق قادیانیوں کو ملک میں مسلمانوں کے ساتھ شامل رکھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرے۔ یہ استفتاء نہیں تھا بلکہ قادیانیوں کے معاشرتی اسٹیٹس کو مسلمانوں سے الگ کرنے کا دستوری بل تھا اور پارلیمنٹ نے یہی فیصلہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ ستمبر ۲۰۱۶ء

امامِ اہلِ سنتؒ کی تحریکی و جماعتی زندگی

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی تحریکی زندگی کا آغاز طالب علمی کے دور میں ہی ہوگیا تھا کہ وہ دور طالب علمی میں سالہا سال تک مجلس احرار اسلام کے رضاکار رہے اور تحریک آزادی میں اس پلیٹ فارم سے حصہ لیتے رہے۔ ان کی اس دور کی دو یادگاریں ہمارے گھر میں ایک عرصہ تک موجود رہی ہیں، ایک لوہے کا سرخ ٹوپ جو وہ پریڈ کے وقت پہنا کرتے تھے اور دوسری کلہاڑی۔ لوہے کا سرخ ٹوپ تو اب موجود نہیں ہے لیکن ان کی کلہاڑی اب بھی موجود ہے اور ان کے احراری ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ اسی دوران وہ جمعیۃ علماء ہند کے کارکن بھی رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جون ۲۰۰۹ء

مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ

مولانا قاری سعید الرحمٰن کو بھی اللہ تعالیٰ نے علمی، مسلکی اور تحریکی ذوق سے بہرہ ور فرمایا تھا اور راولپنڈی صدر میں کشمیر روڈ پر ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارہ جامعہ اسلامیہ کو ان حوالوں سے مرکزیت کا مقام حاصل تھا۔ ایک دور میں شیخ الحدیثؒ حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک راولپنڈی تشریف لانے پر ان کے ہاں قیام کیا کرتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ کو مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی فرودگاہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا بلکہ حضرت بنوریؒ کی وفات راولپنڈی میں ہوئی تو ان کی پہلی نماز جنازہ جامعہ اسلامیہ میں ہی ادا کی گئی جس میں شرکت کی مجھے بھی سعادت حاصل ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جولائی ۲۰۰۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter