مغرب کی بالادستی اور حضرت عمرو بن العاصؓ

مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشیؓ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت سے پہلے رومی لوگوں میں کثرت سے پھیل جائیں گے۔ روم اس دور میں عیسائی سلطنت کا پایۂ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے عیسائی حکمران مراد ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہؐ سے سنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جولائی ۱۹۹۷ء

’’کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‘‘

قائد اعظمؒ کے ان ارشادات اور ان کے دیگر درجنوں فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں قانونی نظام اور قوانین کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ اسلام کے معاشی اور معاشرتی قوانین کو بروئے کار لانے کے متمنی تھے اور مغرب کے نظام معیشت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق ملک میں ایک نئے معاشی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل چاہتے تھے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ’’انڈیا ایکٹ‘‘ سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۲ء

ہمارا علمی و ثقافتی ورثہ ۔ انڈیا آفس لائبریری لندن

انڈیا آفس لائبریری لندن کو دیکھنے کے بعد سب سے پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ یہ علمی ڈکیتی کی ایک افسوسناک شکل ہے کہ پورے برصغیر کو علمی وراثت سے محروم کر کے فرنگی حکمرانوں نے اس علمی ذخیرے کو اپنی جھولی میں ڈال لیا اور برصغیر کے باشندوں کے مال و دولت اور صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ ان کے علمی اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ لیکن معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر اپنے انگریز حکمرانوں کا بہرحال شکرگزار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے ہمارے کتب خانوں کے ساتھ تاتاریوں والا سلوک نہیں کیا، ورنہ ہندوستان میں بھی بہت سے دریاؤں کا پانی سیاہ ہو سکتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ ستمبر ۱۹۹۷ء

ہمارے عدالتی نظام کا ماحول

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے یہ ریمارکس دیے ہیں کہ ’’پنجاب دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں مرتے ہوئے بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ڈکیتی کے کے مبینہ ملزم کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے فاضل جج نے کہا کہ یہ میں نہیں کہتا بلکہ 1925ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک انگریز جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ پنجاب کے لوگوں کے نزعی بیان پر یقین نہ کیا کریں یہ مرتے ہوئے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسا خطہ ہے جہاں نزعی بیان میں دشمنی کا حساب برابر کیا جاتا ہے اور خاندان کے خاندان کو نامزد کر دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۶ء

دور نبویؐ میں اسلامی ریاست کا نقشہ

جناب نبی اکرمؐ کی ہجرت سے قبل یثرب کے علاقہ میں ریاست کا ماحول بن چکا تھا اور اس خطہ میں قبائلی معاشرہ کو ایک باقاعدہ ریاست و حکومت کی شکل دینے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انصار مدینہ کے قبیلہ بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے آنحضرتؐ کو بتایا کہ آپؐ کی تشریف آوری سے پہلے اس بحیرہ کے لوگوں نے باقاعدہ حکومت کے قیام کا فیصلہ کر کے عبد اللہ بن أبی کو اس کا سربراہ منتخب کر لیا تھا اور صرف تاج پوشی کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ یعنی جناب نبی اکرمؐ تشریف لے آئے جس سے عبد اللہ بن أبی کی بادشاہی کا خواب بکھر گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ ستمبر ۲۰۱۶ء

قرآنِ کریم اور سماج باہم لازم و ملزوم ہیں

حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدؐ تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے ہزاروں انبیاء کرامؑ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لی جائے کہ سماجی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کے بارے میں ان کا طرز عمل کیا تھا اور انہوں نے سوسائٹی کے اجتماعی فیصلوں اور طرز عمل کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ اسے ہم قرآن کریم کے حوالہ سے دیکھیں تو کچھ اس طرح کا نقشہ سامنے آتا ہے کہ حضرت آدمؑ کے بعد انسانی سوسائٹی نے جو ترقی کی تھی اور اس دوران جو سماجی ارتقاء عمل میں آیا تھا، حضرت نوحؑ نے اسے من و عن قبول نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اگست ۲۰۱۶ء

وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے

امریکہ نے جب اقوام متحدہ کے سامنے اپنا کیس رکھا اور اس سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے این او سی مانگا تو دلیل اور دانش نے ڈرتے ڈرتے وہاں بھی عرض کیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف طے کر لی جائے اور اس کی حدود متعین کرلی جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی زد میں وہ مظلوم اور مجبور اقوام نہ آجائیں جو اپنی آزادی اور تشخص کے لیے قابض اور مسلط قوتوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ مگر دلیل اور دانش کی آنکھوں پر یہ کہہ کر پٹی باندھ دی گئی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، ابھی امریکہ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ دسمبر ۲۰۰۱ء

دانشوروں کی سوچ تاریخ کے آئینے میں

سلطان ٹیپوؒ سمجھ رہا تھا کہ انگریزوں نے اس کی سلطنت پر حملہ تو ویسے بھی کرنا ہے مگر وہ اس کے لیے فرانسیسیوں کی موجودگی کا بہانہ کر رہے ہیں، اس لیے اس نے انگریزوں کی کوئی بھی شرط ماننے سے انکار کر دیا۔ سلطان ٹیپوؒ کی فوج کے فرانسیسی افسر خود سلطان ٹیپوؒ کے پاس آئے اور کہا کہ اگر اس سے انگریزوں کا غصہ وقتی طور پر ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، آپ ہمیں ان کے حوالے کر دیں۔ اس وقت بھی کسی نہ کسی دانشور، ڈپلومیٹ، یا فقیہ عصر نے سلطان ٹیپوؒ کو یہ مشورہ ضرور دیا ہوگا کہ کوئی حرج کی بات نہیں، وقت نکالو اور سر پر آئی ہوئی جنگ کو سردست ٹالنے کی کوشش کرو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۲۰۰۱ء

ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کا انٹرویو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی طویل عرصے تک خارزار سیاست میں آبلہ پائی کرنے کے بعد اب کئی سالوں سے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دنیا کی دوسری تہذیبوں سے مکالمہ کرتے اور ان پر اسلام کی حقانیت واضح کرتے ہیں۔ وہ قدیم اسلامی علوم میں بھی دستگاہ رکھتے ہیں اور دور جدید کے سیاسی، معاشی، اور عمرانی مسائل کی مبادیات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے سیاسی تجربات اور قومی حوادث کے بارے میں بھی استفسار کیا اور اسلامی دنیا کی بحرانی کیفیت پر بھی کئی سوالات اٹھائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

خلافت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبد المجید مرحوم بہت متاثر ہوئے اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے فرمائش کی کہ وہ اسلام اور مسیحیت کے حوالے سے متعلقہ مسائل پر مبسوط کتاب لکھیں جو سرکاری خرچے پر چھپوا کر دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر سلطان ترکی نے اسے تقسیم کرایا۔ یہ معرکۃ الاراء کتاب عربی میں ہے اور جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے اردو میں اس کا ترجمہ کر کے ایک وقیع مقدمہ بھی اس پر تحریر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۰۵ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter