پاکستان پیپلز پارٹی کا تحفظ ختم نبوت سیمینار

ماہ ستمبر کے دوران ملک بھر میں جہاں وطن عزیز کے جغرافیائی دفاع و استحکام کے حوالہ سے مختلف تقریبات اور پروگراموں کا اہتمام ہوا وہاں تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے بھی ملک کے نظریاتی دفاع و استحکام کے فروغ کے موضوع پر متنوع تقریبات منعقد کی گئیں۔ 6 ستمبر کو 1965ء کی جنگ کی یاد میں ’’یوم دفاع‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ 7 ستمبر کو ’’یوم فضائیہ‘‘ کے علاوہ ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ کا عنوان بھی دیا جاتا ہے کیونکہ اس روز 1974ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی دستوری فیصلہ کیا تھا۔ مجھے اس حوالہ سے دو تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ ستمبر ۲۰۱۷ء

شرعی عدالتیں اور نوائے وقت

روزنامہ نوائے وقت لاہور کے مراسلات کے کالم میں چونیاں کے محترم نور احمد کا ایک مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے شرعی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو حسن نیت او رخلوص پر مبنی قرار دیتے ہوئے دو وجوہ سے اسے ناقابل عمل اور سادہ لوحی کا شکار ہونے کے مترادف قرار دیا۔ ان کا ارشاد ہے کہ (۱) کوئی حکومت وقت اپنے مقابلے میں متوازی نظام کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتی خواہ وہ نظام صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ (۲) جمعیۃ علماء اسلام کے پاس کوئی ایسی قوت نہیں کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کرا سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جنوری ۱۹۷۶ء

کمیونزم کا خطرہ اور ہمارا موجودہ نظام

روزنامہ نوائے وقت کی ۱۷ اپریل کی اشاعتِ ملی میں ’’کمیونزم اور سوشلزم کے سبز باغ‘‘ کے عنوان سے منشی عبد الرحمان خان صاحب کا مضمون نظر سے گزرا جس میں بعض باتیں اگرچہ مبالغہ آمیز ہیں، مثلاً مصر کے صدر ناصر مرحوم کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ انہوں نے سوشلزم کے خلاف فتوے دینے سے علماء ازہر کو حکماً روک دیا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ناصر مرحوم کے دورِ حکومت میں مصر میں ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ مسلسل خلاف قانون رہی اور روسی وزیراعظم مسٹر خروشچیف اپنے دورۂ مصر کے موقع پر بار بار اصرار کے باوجود ناصر مرحوم کو کمیونسٹ پارٹی پر عائد پابندی ہٹانے پر آمادہ نہ کر سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ مئی ۱۹۸۰ء

نظام شریعت کنونشن کے اہم گوشے

جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام دو روزہ نظامِ شریعت کنونشن گزشتہ شب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ کنونشن میں پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان اور آزادکشمیر سے کم و بیش دس ہزار مندوبین نے شرکت کی جن میں علماء کرام، وکلاء، طلباء اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ کنونشن کا اعلان ۲۸ و ۲۹ اپریل کو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ ملتان کے بعد کیا گیا تھا۔ مولانا مفتی محمود نے صوبائی حکومت سے بھی رابطہ قائم کیا مگر آخر وقت تک انتظامیہ نے شیرانوالہ باغ میں کنونشن کے انعقاد کی اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں مجلس استقبالیہ کو کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ اکتوبر ۱۹۷۵ء

عدالتِ شرعیہ کا کنونشن

گزشتہ ہفتہ لاہور کے دینی و سیاسی حلقوں میں خاصی گہماگہمی رہی، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تشریف آوری اور ماہنامہ الرشید کے ’’دارالعلوم دیوبند نمبر‘‘ کی افتتاحی تقریب سے اس گہماگہمی کا آغاز ہوا۔ اور جمعیۃ علماء اسلام کی مجلس شوریٰ کے دو روزہ اجلاس اور شرعی عدالتوں کے دو روزہ کنونشن کے بعد قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود کی پریس کانفرنس تک یہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام کے زیراہتمام شرعی عدالتوں کے قاضیوں کا دو روزہ کنونشن گزشتہ روز مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں منعقد ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۱۹۷۶ء

عدالتِ شرعیہ کے لیے طریق کار

واضح رہے کہ اہل اسلام و اہل دین، جو اپنے تنازعات اور جھگڑوں کو اسلامی اور شرعی نقطۂ نظر سے طے کرانا چاہتے ہیں، ہر دو فریق اپنی مرضی سے عدالت شرعیہ کو حکم اور ثالت تسلیم کریں گے۔ اور تحریری طور پر حسب ضابطہ ثالثی نامہ شرعی عدالت میں پیش کریں گے جس میں یہ ذکر ہوگا کہ شریعت کا فیصلہ ہمیں بہرصورت منظور رہے گا۔ اس کے بعد شرعی عدالتیں ان تنازعات و مقدمات کو فیصلہ کے لیے قبول کریں گی۔ عدالت شرعیہ کا وجود صرف عامۃ المسلمین کے باہمی اختلافات اور تنازعات کے ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ اپریل ۱۹۷۶ء

جمعیۃ علماء اسلام، تاریخ کے پس منظر میں

جمعیۃ علماء اسلام حق پرست علماء اور دین دار کارکنوں کی ایسی تنظیم ہے جس کی فکری بنیاد علماء کے شاندار ماضی اور اہل حق کے مجاہدانہ کردار پر ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام اپنی موجودہ ہیئت و حیثیت میں دراصل اسی قافلۂ حق و صداقت اور کاروانِ عزمِ وفا کا ایک حصہ ہے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں فرنگی حکومت و نظام کے خلاف جرأت مندانہ جنگ لڑی، اور اب فرنگی حکومت سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد فرنگی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اس کی جگہ اسلام کا عادلانہ نظام نافذ و رائج کرنے کی مقدس جدوجہد میں مصروف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۱۹۷۸ء

اراکان کے مسلمان اور بنگلہ دیش کا موقف

روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی آہستہ آہستہ عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کر رہی ہے اور ان کی داد رسی و حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ، ہیومن رائٹس واچ کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں اور شخصیات کی زبانوں پر اب میانمار میں کٹنے جلنے والے مسلمانوں کے حق میں کلمۂ خیر بلا جھجھک آنے لگا ہے۔ جبکہ ہمیں سب سے زیادہ اطمینان اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کی پیش رفت سے حاصل ہوا ہے اس لیے کہ اس مسئلہ پر فطری طور ترتیب اور راستہ یہی بنتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ ستمبر ۲۰۱۷ء

’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟‘‘

نیویارک سے شائع ہونے والے اردو جریدے ہفت روزہ ’’نیویارک عوام‘‘ نے ستمبر ۲۰۰۷ء کے پہلے شمارے میں امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل ارج کیسی کی ایک تقریر کی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انہوں نے نیشنل گارڈ ایسوسی ایشن کی ایک سو انتیسویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی نظریاتی جنگ کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے اور یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک اعتدال پسند مسلمان انتہا پسند مسلمانوں پر بالادستی حاصل نہ کر لیں۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ نومبر ۲۰۰۷ء

ڈاکٹر روون ولیمز کا بیان اور اسلامی شرعی قوانین

برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے کے سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز کا یہ بیان عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو خاندانی معاملات اور مالیاتی مسائل میں اپنے شرعی قوانین پر عمل کا حق ملنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے اسلامی شرعی قوانین کو ملک کے قانونی نظام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جو تفصیلات مختلف اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ڈاکٹر روون کا کہنا ہے کہ نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ جیسے خاندانی معاملات میں اسلام کے شرعی احکام پر عمل کرنا مسلمانوں کا حق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ مارچ ۲۰۰۸ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter