مقالات و مضامین

کرم ایجنسی کے افسوسناک واقعات

کراچی میں بموں کے افسوسناک دھماکوں میں سینکڑوں بے گناہ شہریوں کی المناک شہادت کے بعد شمال مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ کرم ایجنسی میں ہونے والے اضطراب انگیز سانحہ نے پوری قوم کے دلوں کو کرب و اضطراب کی ناقابل برداشت کیفیت سے دوچار کر دیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیرونی لابیاں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اگست ۱۹۸۷ء

جہادِ افغانستان اور عالمِ اسلام

جہاد اسلام کے بنیادی احکام میں سے ایک حکم ہے جس پر ملت اسلامیہ کی سطوت و شوکت اور غلبہ و اقتدار کا دارومدار ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے جہاد کے احکام و مسائل اسی تفصیل و اہتمام کے ساتھ ذکر فرمائے ہیں جس تفصیل و اہتمام کے ساتھ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر احکام شرعیہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرونِ اولیٰ میں اسلام کے احکام کا ذکر جب بھی ہوتا تھا جہاد کا ذکر ان کے ساتھ ہوتا تھا اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور جہاد میں فکری یا عملی طور پر کوئی فرق نہیں کیا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اگست ۱۹۸۷ء

صوبہ سرحد میں شرعی قوانین کے نفاذ میں درپیش مشکلات

صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اسلامی اصلاحات کے عمل کا آغاز کر دیا ہے اور وزیر اعلیٰ محمد اکرم خان درانی نے گزشتہ روز صوبائی کابینہ کے طویل اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مولانا مفتی غلام الرحمان کی سربراہی میں جو نفاذ شریعت کونسل صوبہ میں نفاذ اسلام کے سلسلہ میں سفارشات اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی اس نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے، اور اس رپورٹ کی روشنی میں سرحد اسمبلی میں شریعت ایکٹ لایا جا رہا ہے جس میں صوبائی دائرہ اختیار کی حدود میں تمام اسلامی قوانین اور اقدامات کو شامل کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ مارچ ۲۰۰۳ء

قرآنِ کریم اور ماضی کا سبق

سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عظیم سانحہ کے بارے میں جسٹس حمود الرحمان مرحوم کی سربراہی میں قائم کیے گئے کمیشن کی مبینہ رپورٹ بھارت کے کسی اخبار میں شائع ہوئی اور اس کے بعد پاکستان میں اس کی باضابطہ اشاعت کے مطالبہ نے زور پکڑا تو چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے یہ کہہ کر اس سے دامن چھڑا لیا کہ یہ پرانی بات ہو چکی ہے اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور پچھلے واقعات کی کرید میں پڑنے کی بجائے مستقبل کی فکر کریں۔ ہمارے خیال میں جنرل صاحب کا یہ مشورہ قرین انصاف نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ ستمبر ۲۰۰۰ء

سعودی عرب کا تاریخی پس منظر اور حالیہ شاہی کشمکش

’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ میں اس وقت جو صورتحال ہے اسکے بارے میں حرمین شریفین سے عقیدت اور اسکی وجہ سے سعودی عرب سے محبت رکھنے والا دنیا کر ہر مسلمان پریشان بلکہ مضطرب ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کے عنوان سے شاہی خاندان میں باہمی کشمکش، گرفتاریوں، کم از کم ایک شہزادہ کے شہید ہو جانے اور متعدد سرکردہ علماء کرام کے زیر حراست ہونے کی خبریں اس پریشانی اور اضطراب میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔ مگر اس حوالہ سے کچھ عرض کرنے سے قبل سعودی سلطنت کے قیام اور اسکے پس منظر کے بارے میں چند زمینی حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری دکھائی دیتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ نومبر ۲۰۱۷ء

میاں نواز شریف کی جلا وطنی اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے لیے امریکی دباؤ

آج ہم دو امریکی عہدے داروں کی پریس بریفنگ کے حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ایک وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جیک سیورٹ ہیں جنہوں نے اپنی پریس بریفنگ میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی جلاوطنی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور دوسرے جنوبی ایشیا کے امور کے امریکی ماہر اسٹیفن پی کوہن ہیں جنہوں نے اسلام آباد کے امریکی مرکز اطلاعات میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدارت ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن سے ری پبلکن صدار جارج ڈبلیو بش کو منتقل ہونے کے بعد امریکی پالیسوں میں متوقع تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جنوری ۲۰۰۱ء

گوجرانوالہ، ہنر مندوں اور کاریگروں کا شہر

گوجرانوالہ میں بننے والی اشیاء اور مصنوعات کی نمائش ۱۵ فروری سے ۴ مارچ تک گلشن اقبال پارک میں ’’میڈ اِن گوجرانوالہ صنعتی نمائش‘‘ کے نام سے جاری رہی۔ مطبوعہ پروگرام میں ۵ مارچ کا دن بھی شامل تھا اور میں نے اسی کے مطابق آخری روز نمائش میں جانے کا پروگرام اپنے شیڈول میں شامل کر لیا تھا کہ نمائش دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی مجموعی سرگرمیوں سے بھی آگاہی ہو جائے گی اور اس کے بعد آسانی سے کچھ گزارشات اپنے قارئین کے لیے قلمبند کر سکوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مارچ ۲۰۰۱ء

اراکان کے نئے قوانین اور مسلمانوں کی مشکلات

اراکان کے بارے میں دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’زیریں برما کا انتہائی مغربی حصہ جو کوہستان اراکان، یوما اور خلیج بنگال کے درمیان واقع ہے۔ ۱۱۹۹ھ (۱۷۸۴ء) تک اراکان ایک خودمختار مملکت تھی اس کے بعد یہ برطانوی حکومت کے تحت ۱۸۲۶ء سے برما کا حصہ بن گئی۔‘‘ اراکان مسلم اکثریت کا صوبہ ہے لیکن برما میں شامل ہونے کے بعد اس خطہ کے مسلمانوں کو کسی دور میں بھی امن اور سکون میسر نہیں آیا اور اب بھی وہ برما (میانمار) کی حکومت کے مظالم کا نشانہ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء

ایک اور ’’زاہد الراشدی‘‘

مرزا غلام نبی جانباز مرحوم تحریک آزادی کے ان کارکنوں میں سے تھے جنہوں نے فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف جدوجہد آزادی میں اپنا بہت کچھ قربان کر دیا اور اپنے خون سے آزادی کی شمع روشن کی۔ ان کا تعلق مجلس احرار اسلام سے تھا، وہ ایک انقلابی شاعر کےطور پر کاروانِ آزادی کے حدی خوان تھے اور انہوں نے ایثار و قربانی کے دیگر کٹھن مراحل کے علاوہ اپنی جوانی کے تقریباً چودہ برس آزادی کی خاطر جیلوں کی نذر کیے۔ عام حلقوں میں جانباز مرزا کے نام سے متعارف تھے اور ماہنامہ تبصرہ کے نام سے لاہور سے ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ ستمبر ۲۰۰۰ء

مسلم خواتین: حجاب اور رد عمل

جرمنی میں حجاب کے مسئلہ پر شہید ہونے والی خاتون مروی شیربینی کا تذکرہ امریکہ سے شائع ہونے والے اخبارات میں مختلف حوالوں سے جاری ہے: ہفت روزہ ’’ایشیا ٹریبیون‘‘ نیویارک نے ۳۱ جولائی کے شمارہ میں اس کی تفصیلات یوں بیان کی ہیں: جرمنی کی عدالت میں قتل کی گئی ایک مسلم خاتون کی لاش ان کے آبائی وطن مصر لائی گئی ہے جسے حجاب کے لیے شہید قرار دیا گیا تھا۔ اسے ایک اٹھائیس سالہ جرمن شخص نے عدالت میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا تھا جسے عدالت نے خاتون کے مذہب کی توہین کرنے کا قصور وار پایا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۲۰۰۹ء

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی پاکستان آمد

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا تعلق انڈیا کے صوبہ گجرات سے ہے، فاضل اور دانش ور عالم دین ہیں، صاحب قلم ہیں اور عالم اسلام کے اجتماعی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، گزشتہ ۲۵ سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں راقم الحروف اور مولانا منصوری دونوں نے مل کر دوسرے رفقاء کے ہمراہ ورلڈ اسلامک فورم کی بنیاد رکھی تھی، پانچ سال تک راقم الحروف چیئرمین اور مولانا موصوف سیکرٹری جنرل رہے، اب دو سال سے وہ چیئرمین ہیں اور میں ان کی مجلس عاملہ کا رکن ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ نومبر ۱۹۹۹ء

دینی قیادت کی آواز بھی سنی جائے!

آج ہم ان عظیم شہداء ختم نبوت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہیں جنہوں نے ۱۹۵۳ء میں عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور قادیانیت کے بڑھتے ہوئے قدموں کو بریک لگا دی۔ اس تحریک میں جس کی قیادت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا سید ابوالحسنات قادریؒ اور حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ جیسے عظیم بزرگوں کے ہاتھ میں تھی، دینی جماعتوں کے دو بڑے مطالبات تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اپریل ۲۰۰۳ء

جہادِ افغانستان کو سبوتاژ کرنے کی سازش

افغان مجاہدین روسی افواج کو سرحدوں سے باہر دھکیلنے کے بعد روسی جارحیت کے بچے کھچے اثرات اور روس کے چھوڑے ہوئے اسلحہ اور اس کے محافظوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں مگر کابل پر افغان مجاہدین کی نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہوجانے کا خوف امریکہ، روس، بھارت اور اسرائیل کو مضطرب کیے ہوئے ہے اور عالمی سطح پر یہ سازشیں ہو رہی ہیں کہ افغان مجاہدین کی جدوجہد کو آخری مرحلہ میں سبوتاژ کر دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ مارچ ۱۹۸۹ء

مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد ۔ پس منظر، نتائج اور تقاضے

سوات ہمارے آباء و اجداد کا وطن ہے جہاں سے ہمارے بڑے کسی دور میں نقل مکانی کر کے ہزارہ کے وسطی ضلع مانسہرہ کے مختلف اطراف میں آباد ہوگئے تھے۔ اسی وجہ سے ہمارا تعارف سواتی قوم کے طور پر ہوتا ہے اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان کے نام کے ساتھ سواتی کی نسبت مستقل طور پر شامل رہتی ہے۔ مگر مجھے زندگی میں اس سے قبل کبھی سوات جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ دنوں مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے اس خطہ کے حالات کا براہ راست جائزہ لینے کا داعیہ پیدا ہوا تو دو تین روز کے لیے سوات جانے کا پروگرام بن گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۵ء

دینی مدارس، بنیاد پرستی اور انسانی حقوق

روزنامہ جنگ لاہور ۴ دسمبر ۱۹۹۴ء کے مطابق گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین نے دینی مدارس کی کارکردگی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور فرقہ وارانہ کردار کے حامل مدارس کی بندش کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے ملک میں نئے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور پرانے مدارس کی رجسٹریشن کی تجدید کے لیے وزارت داخلہ سے پیشگی اجازت کی شرط عائد کر دی ہے، اور متعلقہ حکام کو ہدایت کر دی ہے کہ اس اجازت کے بغیر کسی نئے مدرسہ کو رجسٹرڈ نہ کیا جائے اور نہ ہی پہلے سے قائم کسی مدرسہ کی رجسٹریشن کی تجدید کی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۵ء

پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات ۔ مجلس فکر و نظر کے زیراہتمام سیمینار

حافظ حسین احمد صاحب نے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی اور شرکاء مجلس نے گہری توجہ کے ساتھ ان کی باتوں کو سنا جو متحدہ مجلس عمل کی پالیسیوں اور طریق کار کی وضاحت پر مشتمل تھی۔ مجھے کافی عرصہ کے بعد حافظ صاحب کی تفصیلی اور سنجیدہ گفتگو سننے کا موقع ملا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ متانت اور استدلال کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی اعلیٰ ذہانت کے سامنے غور و فکر کے نئے پہلو رکھنے کی صلاحیت سے بھی پوری طرح بہرہ ور ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جنوری ۲۰۰۳ء

شمالی علاقہ جات کے زلزلے اور امدادی صورتحال

شمالی علاقہ جات جن کا صدر مقام گلگت ہے، سیاسی اور جغرافیائی دونوں حوالوں سے پاکستان کا حساس ترین خطہ ہے اور ایک عرصہ سے بین الاقوامی حلقوں کی اس پر نظر ہے۔ شمالی علاقہ جات کا ضلع دیامر اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ کارگل کی طرف جانے والی شاہراہ اس علاقہ سے گزرتی ہے اور چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا وسیع میدان دیوسائی بھی اسی ضلع میں واقع ہے جسے حاصل کرنے کے لیے مغربی قوتیں کافی عرصہ سے بے چین ہیں۔ اس لیے کہ اس بلند ترین میدان کو مرکز بنا کر چین، بھارت، افغانستان، روس اور پاکستان کو با آسانی واچ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ فروری ۲۰۰۳ء

’’اسلام اور مسلمانوں کا غدار‘‘

اسامہ بن لادن اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے اور اس کی سعودی شہریت منسوخ کی جا چکی ہے اس لیے اگر اسے امریکہ کے حوالہ کر دیا جائے تو سعودی حکومت کو کوئی تشویش نہیں ہوگی۔ خبر کے مطابق سعودی وزیردفاع نے یہ بات واشنگٹن میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ہے۔ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکہ نے ایک عرصہ سے جو مہم چلا رکھی ہے اس کے پس منظر میں سعودی شہزادے کی یہ بات کسی طور پر بھی خلاف توقع نہیں ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں اس کے علاوہ وہ کچھ اور کہہ بھی نہیں سکتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ نومبر ۱۹۹۹ء

اقبالؒ کے نادان دوستوں سے!

علامہ محمد اقبال مرحوم کو پاکستان کے عوام ایک مخلص قومی مفکر اور راہنما کی حیثیت سے پہچانتے ہیں جس نے برصغیر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمانوں کے ملی جذبات کو ابھارنے اور ان میں عظمت رفتہ کی بحالی کا احساس اجاگر کرنے کے لیے مسلسل محنت کی اور اس خطۂ زمین کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کر کے تحریک پاکستان کی فکری بنیاد رکھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۱۹۸۷ء

ایم آر ڈی اور علماء حق

ایم آر ڈی کے حالیہ اجلاس نے ان حلقوں کی خوش فہمی کو ختم کر دیا ہے جو یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ تحریک بحالیٔ جمہوریت کے نام سے متضاد نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا یہ گٹھ جوڑ انتخابی اتحاد میں تبدیل ہو کر آئندہ انتخابات میں کوئی مؤثر کردار ادا کر سکے گا۔ اور کراچی کے اجلاس میں ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نے یہ بات اور زیادہ واضح کر دی ہے کہ یہ سیاسی اتحاد اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ دسمبر ۱۹۸۷ء

زندہ باد افغان مجاہدین

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک بار پھر افغانستان سے روسی افواج کی مکمل واپسی کا مطالبہ کیا ہے اور اس دفعہ یہ مطالبہ پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ کیا گیا ہے جو یقیناً افغان مجاہدین کی عظیم اصولی اور اخلاقی کامیابی ہے۔ روسی حکومت اور کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے کچھ عرصہ سے جنگ بندی کی یکطرفہ پیشکش اور قومی افغان مصالحت کے عنوان سے سیاسی حربے اختیار کر کے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش شروع کر رکھی تھی کہ روس اپنی افواج واپس بلانے کے لیے تیار ہے لیکن افغان مجاہدین قومی مصالحت کی طرف پیش رفت نہ کر کے روسی افواج کی واپسی میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء

دینی قوتوں کے باہمی اتحاد و اشتراک عمل کی ضرورت

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر سے ملاقات کے لیے گکھڑ تشریف لائے اور ان کی بیمار پرسی کے علاوہ دینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت و اشتراک عمل کی ضرورت پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن اور جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد المالک خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر راقم الحروف کے والد محترم ہیں اور دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی اکثریتی دینی و سیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ ’’مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کے سربراہ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ فروری ۱۹۹۹ء

مسندِ حدیث و فتویٰ اور خواتینِ اسلام

ان دنوں واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کا عام چرچا ہے جس میں حیدرآباد دکن انڈیا کے ایک دینی مدرسہ جامعۃ المومنات کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ اس مدرسہ کے منتظمین نے اپنی تین خاتون عالمات فاضلات کو فتویٰ نویسی کی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کر کے خواتین کے لیے ان تینوں پر مشتمل مفتی پینل بنا دیا ہے جس سے عورتیں براہ راست رجوع کر کے مسائل دریافت کرتی ہیں اور وہ انہیں متعلقہ مسائل پر فتویٰ دیتی ہیں۔ مجھ سے ایک دوست نے گزشتہ روز دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے اور کیا اس سے قبل بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء

ایماندار افسران کی تلاش

آج ایک قومی اخبار کے گوجرانوالہ ایڈیشن میں مقامی صفحہ کی اس بڑی سرخی نے بار بار اپنی طرف متوجہ کیا کہ ’’ایماندار ایس ایچ اوز کی تلاش، ریجن بھر کے پولیس انسپکٹروں کے کوائف طلب‘‘۔ ہمارے موجودہ معاشرتی ماحول میں یہ کوئی بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ صرف پولیس نہیں بلکہ کم و بیش ہر شعبہ اور ادارہ میں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے کہ ایماندار افراد تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ اس پر اسلامی تاریخ کے دو حوالے ذہن میں آگئے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اکتوبر ۲۰۱۷ء

برطانیہ کے چند مذہبی اداروں میں حاضری

گزشتہ ہفتے کے دوران برطانیہ میں ندوۃ العلماء لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا سید سلمان حسنی ندوی کے ساتھ جن اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا ان میں سے چند کا تذکرہ قارئین کی معلومات کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جامعہ الہدٰی نوٹنگھم میں ہمارا قیام تھا اور اس کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی ہمارے میزبان تھے۔ یہ ادارہ نوٹنگھم کے وسط میں ’’فارسٹ ہاؤس‘‘ نامی ایک بڑی بلڈنگ خریدکر قائم کیا گیا ہے جہاں پہلے محکمہ صحت کے دفاتر تھے۔ خوبصورت اور مضبوط بلڈنگ ہے، چار منزلہ عمارت میں اڑھائی سو کے لگ بھگ کمرے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جون ۱۹۹۸ء

ساؤتھال لندن میں مسلمانوں کی مذہبی جدوجہد

مغربی لندن میں ساؤتھال کا علاقہ ایشین آبادی کا علاقہ کہلاتا ہے جہاں پاکستان اور بھارت سے آئے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور آبادی کی اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مسلمان، ہندو اور سکھ تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں، زیادہ تعداد سکھ کمیونٹی کی بتائی جاتی ہے اس کے بعد مسلمان اور ہندو ہیں۔ اور اب صومالیہ سے آنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے اس علاقہ میں آباد ہونے سے آبادی میں مسلمانوں کا تناسب خاصا بڑھ گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جولائی ۱۹۹۸ء

لندن میں ’’ریلی فار اسلام‘‘

’’المہاجرون‘‘ نے ۲۶ جولائی کو ٹریفالیگر اسکوائر لندن میں ’’ریلی فار اسلام‘‘ کے نام سے ایک ریلی کا اہتمام کیا جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ المہاجرون مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے پرجوش نوجوانوں کی تنظیم ہے جس کے سربراہ شیخ عمر بکری محمد ہیں۔ شیخ عمر کا تعلق شام سے ہے اور دینی حلقوں کے خلاف ریاستی جبر سے تنگ آکر انہوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ شافعی المذہب سنی عالم ہیں، شریعہ کالج کے نام سے لندن میں ادارہ قائم کر رکھا ہے جس میں نوجوانوں کو قرآن و سنت، فقہ اور اسلام کے اجتماعی نظام کی تعلیم دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اگست ۱۹۹۸ء

مسلم ہینڈز، ایک بین الاقوامی رفاہی ادارہ

مغربی ممالک میں مسلمانوں کے کسی ادارے کو تعلیمی یا رفاہی کام کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ ہم مسلمان پوری دنیا میں اس کام میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ سماجی خدمات اور رفاہی کام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اسلامی تعلیمات میں سوشل ورک کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے مسلمان بالخصوص پاکستانی دوستوں کا کوئی کام اس حوالہ سے دیکھنے میں آتا ہے تو مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ دسمبر ۱۹۹۸ء

بارہ ربیع الاول کو ساؤتھال میں المہاجرون ریلی

۲۶ جون کو برمنگھم جانے کے لیے ایک بجے کے لگ بھگ ابوبکرؓ مسجد ساؤتھال براڈوے سے نکلا، مجھے اڑھائی بجے وکٹوریہ کوچ اسٹیشن سے بس پکڑنا تھی جس کی سیٹ دو روز قبل ریزرو کرالی تھی۔ خیال تھا کہ وقت پر پہنچ جاؤں گا مگر ساؤتھال براڈوے کے بس اسٹاپ پر لوکل بس کے انتظار میں کھڑا تھا کہ ایک طرف سے اسلام زندہ باد کے نعروں اور تلاوت قران کریم کی آواز کانوں میں پڑنے لگی۔ تعجب سے ادھر ادھر دیکھا کہ یہ آوازیں کدھر سے آرہی ہیں، معلوم ہوا کہ ’’المہاجرون‘‘ کی ریلی ہے جو اس تنظیم نے اسلام کے تعارف کے لیے منعقد کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۱۹۹۹ء

دوبئی کے چند دینی و علمی مراکز میں حاضری

دوبئی پہلے بھی کئی بار جا چکا ہوں مگر اس بار خاصے عرصہ کے بعد جانے کا اتفاق ہوا۔ نو روزہ قیام کے دوران میرے میزبانوں محمد فاروق الشیخ، حافظ بشیر احمد چیمہ، مفتی عبد الرحمان اور چوہدری رشید احمد چیمہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ وقت نکال کر مجھے مختلف مقامات پر لے جا سکیں۔ چنانچہ ان کی توجہات کے باعث میں نے خاصا مصروف وقت گزارا اور کوشش رہی کہ ذاتی معلومات اور استفادہ کے ساتھ ساتھ اپنے قارئین کے لیے بھی دلچسپی کی کچھ چیزیں جمع کر سکوں جس کے لیے ان دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جنوری ۲۰۰۱ء

برطانیہ کا ایک دینی ادارہ: جامعہ الہدٰی نوٹنگھم

گزشتہ روز برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں مسلمان بچیوں کے ایک تعلیمی ادارہ ’’جامعۃ الہدٰی‘‘ کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جس میں ان بچیوں کے لیے دو سالہ تعلیمی نصاب کا خاکہ تجویز کیا گیا ہے جو سولہ سال کی عمر تک سرکاری مدارس میں لازمی تعلیم کے مرحلہ سے گزر کر سکول و کالج کی مزید تعلیم کی متحمل نہیں ہوتیں اور ان کے والدین چاہتے ہیں کہ یہ نوجوان بچیاں سکول و کالج کے مخلوط و آزاد ماحول سے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ کچھ دینی تعلیم بھی حاصل کر لیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جون ۱۹۹۷ء

’’فضائل اعمال‘‘ پر اعتراضات کا علمی جائزہ

جدہ میں مقیم پاکستانی علماء کرام اور قراء کرام نے کچھ عرصہ سے باہمی مشاور ت کا ہلکا پھلکا سا نظم قائم کر رکھا ہے، وقتاً فوقتاً جمع ہوتے ہیں، دینی اور مسلکی ضروریات اور تقاضوں کا جائزہ لیتے ہیں اور مشورہ کے ساتھ اپنی حکمت عملی اور پروگرام طے کرتے ہیں۔ میں نے حاضری کی دعوت قبول کر لی اور علماء کرام، قراء کرام اور احباب کے ساتھ اجتماعی ملاقات میں شمولیت کا موقع مل گیا۔ اجلاس میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت کے دعوتی نصاب ’’فضائل اعمال‘‘ پر مختلف حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات بھی زیر بحث آئے اور ان کے جواب کی حکمت عملی پر غور ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جولائی ۲۰۱۲ء

سرد جنگ کے بعد کی صورتحال اور ورلڈ اسلامک فورم

افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں روسی استعمار کی پسپائی اور عالمی سرد جنگ کے نتیجہ میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد ملت اسلامیہ پوری دنیا میں ایک نئی صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے۔ مغرب نے امریکی استعمار کی قیادت میں کمیونزم کے بعد اسلام کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دیتے ہوئے ملت اسلامیہ کے ان طبقوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے جو اسلام کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلم معاشرہ میں اسلامی اصولوں کی بالادستی اور حکمرانی کے لیے برسرپیکار ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۵ء

بھارتی طیارے کا اغوا اور طالبان

بھارتی طیارے کے اغوا کے باقی پہلوؤں سے قطع نظر اب تک کے حالات میں جو دو باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہوئی ہیں ان میں ایک مسئلہ کشمیر کی نزاکت اور سنگینی کا پہلو ہے جس نے دنیا بھر کو ایک بار پھر اس بات کا احساس دلا دیا ہے کہ اس مسئلہ کو اس خطہ کے عوام کی خواہش کے مطابق حل نہ کیا گیا تو جنوبی ایشیا میں امن کا قیام کبھی نہیں ہو سکے گا اور آزادیٔ کشمیر کی تحریک بھی آگے بڑھنے کے معروف راستوں کو مقید پا کر دیگر تحریکات آزادی کی طرح کوئی نیا رخ اختیار کر سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جنوری ۲۰۰۰ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان یا صرف پاکستان؟

بارہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کی طرف سے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ملک کا نظم و نسق سنبھالنے اور ۱۹۷۳ء کا دستور معطل کرنے کے اعلان کے بعد ملک کے دینی حلقے مسلسل ایک تشویش سے دوچار ہیں اور مختلف حوالوں سے اس کا اظہار ہو رہا ہے کہ دستور کی معطلی کے بعد دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص قرارداد مقاصد اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ سے متعلقہ شقوں کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ فروری ۲۰۰۰ء

صدارت کا منصب اور جونیئر افسر کی ماتحتی

اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان سے پی سی او کے تحت حلف لیے جانے کے بعد صدر مملکت جناب محمد رفیق تارڑ کے بارے میں بھی مختلف خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ان سے بھی پی سی او کے تحت حلف لینا ضروری ہوگیا ہے، بعض دوست اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ شاید یہ حلف اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں اس لیے کہ ان کے ایوان صدر سے رخصت ہونے کا وقت قریب آرہا ہے۔ ایک معروف قانون دان کا کہنا ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی وہی آخری علامت رہ گئے ہیں اس لیے ان کی رخصتی عملاً دستور پاکستان کی رخصتی ہوگی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ فروری ۲۰۰۰ء

جداگانہ طریقِ انتخاب اور الیکشن کمیشن آف پاکستان

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ دنوں حکومت سے سفارش کی ہے کہ ملک میں جداگانہ طرز انتخاب ختم کر کے مخلوط طریق انتخاب رائج کیا جائے اور اس کے لیے قانون میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب کے تحت غیر مسلموں کے ووٹوں کا الگ اندراج کرنا پڑتا ہے، ان کے ووٹوں کی الگ گنتی کرنا پڑتی ہے اور ان کے امیدواروں کے الگ نتائج مرتب کرنا پڑتے ہیں جو بہت مشکل کام ہے اس لیے الیکشن کمیشن کو کام کی اس مشکل اور الجھن سے نکالنے کے لیے جداگانہ طرز انتخاب کو ہی سرے سے ختم کر دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ مارچ ۲۰۰۰ء

انتخابی اصلاحات بل میں ترامیم اور قوم کے شکوک و شبہات

انتخابی اصلاحات کے بل میں قادیانیوں کے حوالہ سے سامنے آنے والی خفیہ ترامیم کے بارے میں قومی اسمبلی میں نیا ترمیمی بل طے ہو جانے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے متعدد وضاحتوں کے باوجود مطلع صاف نہیں ہو رہا اور شکوک و شبہات کا ماحول بدستور موجود ہے۔ اس سلسلہ میں یہ تاثر بھی سامنے لایا جا رہا ہے کہ کیا اس قسم کی فضا قائم کرنے کا مقصد کسی اور خفیہ کام سے توجہ ہٹانا تو نہیں ہے کیونکہ ماضی میں متعدد بار ایسا ہو چکا ہے کہ قوم کو ایک طرف الجھا کر پس منظر میں دوسرے کام سر انجام دیے جاتے رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ اکتوبر ۲۰۱۷ء

پاکستان کے دینی حلقے اور مغربی ذرائع ابلاغ۔ ایک بی بی سی پروگرام کی تفصیل

مغربی ذرائع ابلاغ ان دنوں عالم اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ ملت اسلامیہ کے اہل علم و دانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بالخصوص پاکستان کے دینی حلقوں کو جس انداز میں عالمی رائے عامہ کے سامنے متعارف کرایا جا رہا ہے اس کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں ہم قارئین کی خدمت میں معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ۲ کے نشر کردہ ایک پروگرام کا خاکہ پیش کر رہے ہیں جس میں مختلف مذہبی پہلوؤں کے حوالے سے پاکستان کے دینی حلقوں کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۵ء

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ

روزنامہ جنگ لندن ۸ جولائی کی ایک خبر کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اپنی اس سال کی رپورٹ میں بھی توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون اور قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روکنے کو موضوع بحث بنایا ہے اور ان تمام قوانین کے ضمن میں درج مقدمات اور گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں قادیانیوں اور مسیحیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا تذکرہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۵ء

سقوط ڈھاکہ، جہادِ افغانستان اور معاشی خودمختاری

محترم راجہ انور صاحب کا کہنا ہے کہ ’’سامراج سے آزادی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم پانچ سال کے لیے اپنی ساری ترجیحات معطل کر دیں، صرف پانچ سال کے لیے اپنے سارے اہم مسائل طلاق نسیاں کی نذر کر دیں اور معاشی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ جس دن ہم معاشی طور پر مضبوط اور آزاد ہوگئے اس دن دنیا کی کوئی قوت، کوئی سامراج اور کوئی سازش ہمیں غلام نہیں رکھ سکے گی۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مارچ ۲۰۰۰ء

لوئیس فرخان اور نیشن آف اسلام کا خودساختہ اسلام!

امریکہ کی سیاہ فام کمیونٹی کی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے بارے میں ہم ان کالموں میں کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں کہ لوئیس فرخان کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروہ کو امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۳۰ء میں امریکہ کے شہر ڈیٹرائیٹ میں ’’فارد محمد‘‘ نامی ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ انہیں امریکہ کے سیاہ فاموں کی فلاح و بہبود کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ مارچ ۲۰۰۰ء

وسطی ایشیا کی ریاستیں آزادی کے بعد

ان ممالک کی بدقسمتی یہ رہی کہ آزادی کا لیبل چسپاں ہونے کے باوجود ان ریاستوں میں حکومتی ڈھانچے، ریاستی نظام او رحکمران کلاس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور آزادی کے منتظم اور رکھوالے بھی وہی قرار پائے جو آزادی سے قبل کمیونسٹ نظام کو چلانے کے ذمہ دار تھے اور چلاتے آرہے تھے۔ اس طرح وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی ’’ٹریجڈی‘‘ ہوئی جس کا اس سے قبل ہم جنوبی ایشیا کے مسلمان شکار ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ ستمبر ۲۰۰۰ء

اسلامی ریاست کے خدوخال ۔ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کی نظر میں

1953ء کی تحریک ختم نبوت کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیے گئے جسٹس محمد منیر اور جسٹس اے آر کیانی پر مشتمل اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقاتی کمیشن نے انکوائری کے دوران بہت سے دیگر قومی اور دینی مسائل کے علاوہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کے خدوخال کو بھی موضوع بحث بنایا تھا اور سرکردہ علماء کرام سے اس سلسلہ میں متنوع سوالات کے ساتھ ساتھ اپنی رائے کا بھی اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس وقت ہمارے ملک کی اعلیٰ سطح کی عدلیہ کا ’’اسلامی ریاست‘‘ کے بارے میں تصور کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اکتوبر ۲۰۱۷ء

بلدیاتی انتخابات اور مسلم لیگ

حکومت نے بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے کا اعلان کیا تو ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اسے غیر اصولی فیصلہ قرار دینے کے باوجود میدان کو خالی نہ چھوڑتے ہوئے ان میں حصہ لیا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے بھی اپنے کارکنوں کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی ہدایات جاری کر دیں جن کے بحمد اللہ تعالیٰ خاطر خواہ اثرات ظاہر ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ دسمبر ۱۹۸۷ء

قومی سنی کنونشن: پس منظر، اہمیت اور تقاضے

شیعہ سنی تنازعہ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور پاکستان میں بھی ایک عرصے سے ماتمی جلوسوں اور تقریبات کے حوالہ سے مختلف شہروں میں یہ تنازعہ خونریز فسادات کا باعث بنتا چلا آرہا ہے۔ لیکن پڑوسی ملک ایران میں کامیاب مذہبی انقلاب کے بعد اردگرد کے دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان میں بھی شیعہ سنی تنازعہ مذہبی اختلاف کا لبادہ اتار کر اپنے اصل سیاسی روپ میں ظاہر ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جنوری ۱۹۸۸ء

علامہ اقبالؒ کے نام پر گمراہ کن خیالات پیش کیے جا رہے ہیں

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے بارے میں سردار محمد عبد القیوم خان کی ناروے کی تقریر کے حوالہ سے جو باتیں منظر عام پر آئی ہیں وہ غیر محتاط ضرور ہیں لیکن یہ سب کچھ علامہ اقبالؒ کے بعض نادان دوستوں کی اس نئی مہم کا فطری ردعمل ہے جو انہوں نے اقبالؒ کو پیغمبر اور فکر اقبالؒ کو وحی کے طور پر پیش کرنے کی صورت میں شروع کر رکھی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۱۹۸۸ء

اوجڑی کیمپ راولپنڈی کا سانحہ

۱۰ اپریل کو راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ کے اسلحہ کے ڈپو میں آگ لگنے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس سے پورا ملک نہ صرف سوگوار ہے بلکہ رنج و الم اور اضطراب کی ٹیسیں رہ رہ کر اسلامیانِ پاکستان کے دلوں میں اٹھ رہی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اپریل ۱۹۸۸ء

جہادِ افغانستان فیصلہ کن مرحلہ میں!

افغان عوام کا جہادِ حریت سیاسی اور فوجی دونوں محاذوں پر فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ جہادِ آزادی جو آج سے آٹھ نو برس پہلے چند سو سرفروشوں کے نعرۂ مستانہ کے ساتھ شروع ہوا تھا، قربانی، ایثار اور جہد و استقلال کے کٹھن مراحل سے گزرتا ہوا آج اس مرحلہ تک پہنچ چکا ہے کہ افغانستان کے اسی فیصد علاقہ پر مجاہدین کا کنٹرول عملاً قائم ہو گیا ہے۔ روس جیسی استعماری قوت اور عالمی طاقت کو افغان مجاہدین کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ اب واپسی کے ارادہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے بعد قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں تحفظات کی تلاش میں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء

مولانا سید اسعد مدنی کی آمد اور جماعتی مصالحت کی کوشش

جمعیۃ العلماء ہند کے سربراہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی مدظلہ العالی کی پاکستان تشریف آوری کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے متوازی دھڑے کے ساتھ اختلافات کے خاتمہ اور جماعتی اتحاد کے لیے ایک بار پھر گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا اور اس ضمن میں متعدد حضرات نے دونوں جانب سے خلوص کے ساتھ اس نیک مقصد کے لیے محنت کی لیکن بات چیت آگے نہ بڑھ سکی اور صورتحال جوں کی توں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جنوری ۱۹۸۸ء

Pages