مقالات و مضامین

فرانسیسی صدر کی طرف سے اسلام کے کردار پر عمومی بحث کی تجویز

فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے تجویز پیش کی ہے کہ فرانسیسی معاشرے میں اسلام کے کردار پر ۵ اپریل سے عمومی بحث کا آغاز کیا جائے، ان کا خیال ہے کہ ’’فرانسیسی سوسائٹی میں اسلام کا رول کیا ہے؟‘‘ اس موضوع پر بحث کا اہتمام ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اس بحث کا فوکس صرف اسلام ہوگا اور اگر اس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے تو میں اس کی مخالفت کروں گا۔ سہ روزہ دعوت دہلی کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں اس وقت مسلمانوں کے حوالے سے جن مسائل پر گفتگو ہو رہی ہے ان میں مسلم خواتین کا حجاب ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ مارچ ۲۰۱۱ء

مولانا فضل الرحمان پر حملے ، استعمار کی سازش!

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان کو نشانہ بنانے کے لیے مسلسل دو خودکش حملے ملک بھر کے دینی کارکنوں اور محب وطن عناصر کے لیے باعث تشویش و اضطراب ہیں اور ان حملوں میں دو درجن کے لگ بھگ افراد کی المناک شہادت پر سینے میں دل رکھنے والا ہر شخص غمزدہ ہے۔ ابھی تھوڑی دیر قبل فون پر میں نے مولانا موصوف سے اس سانحہ پر تعزیت کرتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی ہے اور شہداء کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان کی حفاظت کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا کی ہے، اللہ تعالٰی قبول فرمائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اپریل ۲۰۱۱ء

انسانی حقوق کے نام پر شریعت مخالف سیکولر مہم

لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے آسٹریلیا مسجد اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس کی تعمیر کے بعد خطابت کا آغاز خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے فرمایا تھا اور کچھ عرصہ جمعۃ المبارک کے خطبات ارشاد فرمانے کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنے خصوصی شاگرد حضرت مولانا عبدا لحنان ہزارویؒ کو خطیب مقرر کر دیا تھا جو طویل عرصے تک خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اب کم و بیش ربع صدی سے ہمارے محترم دوست مولانا عبد الرؤف ملک اس مسجد کے خطیب ہیں جو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ابتدائی فضلاء میں سے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ فروری ۲۰۱۱ء

حمید اختر صاحب! حقائق کو تو مسخ نہ کریں

کوئی دانشور حالات کی ترتیب اور معروضی حقائق سے اس قدر بھی بے خبر ہو سکتا ہے، روزنامہ ایکسپریس میں ۸ فروری کو محترم جناب حمید اختر صاحب کا ’’پرسش احوال‘‘ کے عنوان سے کالم پڑھنے سے قبل مجھے اس بات کا اندازہ نہ تھا۔ حمید اختر صاحب پرانے دانشوروں سے ہیں، ان کا تعلق لیفٹ سے ہے اور وہ بائیں بازو کے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کالم میں انہوں نے حالات سے باخبر ہونے کے حوالے سے بہت مایوس کیا ہے۔ پہلے ان کا ارشاد ملاحظہ فرما لیجئے پھر اس پر ہم کچھ گزارشات پیش کریں گے، وہ لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ فروری ۲۰۱۱ء

مسلمانوں کا قرآن و سنت سے تعلق اور مغرب کا مطالبہ

دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا میں کافی عرصے کے بعد حاضری کا اتفاق ہوا، حضرت مولانا منظور الحق صاحبؒ اور حضرت مولانا عبد الخالق صاحبؒ کی زیارت تو مجھے یاد نہیں البتہ حضرت مولانا علی محمدؒ کی خدمت میں حاضری اور دعاؤں کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ مولانا محمد انورؒ میرے دوستوں اور بے تکلف ساتھیوں میں سے تھے، جماعتی اور تحریکی زندگی میں ان کے ساتھ ایک عرصہ رفاقت رہی ہے۔ حضرت مولانا ارشاد احمد زید مجدہم میرے دعاگو بزرگوں میں سے ہیں، ہمیشہ شفقت فرماتے ہیں اور دعاؤں سے نوازتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ فروری ۲۰۱۱ء

تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں مجوزہ ترامیم ۔ آل پارٹیز کانفرنس لاہور کے مطالبات

لاہور میں کل جماعتی کانفرنس اور عوامی ریلی کے بعد تحریک تحفظ ناموس رسالت کے راہنما اب شاید پشاور کا رخ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور فروری کے تیسرے ہفتہ کے دوران پشاور میں کل جماعتی کانفرنس اور عوامی ریلی کا پروگرام تشکیل پا رہا ہے۔ منصورہ لاہور میں ۲۹ جنوری کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں پاکستان شریعت کونسل کے دیگر راہنماؤں مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اور حافظ ذکاء الرحمان اختر کے ہمراہ مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور مختلف جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ فروری ۲۰۱۱ء

مشترکہ ملی و قومی جدوجہد کی ضرورت اور جناب آیت اللہ خامنہ ای کا فتوٰی

برف دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے اور دینی حلقوں میں باہمی رابطہ و مفاہمت کے ساتھ مشترکہ ملی و دینی مقاصد کے لیے متفقہ موقف اور جدوجہد کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ میں گزشتہ دنوں کراچی میں تھا اور متعدد احباب سے اس سلسلہ میں ملاقاتیں ہوئیں۔ جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی طلب کردہ کل جماعتی کانفرنس، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں ہونے والا اجتماع اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا اسد اللہ بھٹو کے طلب کردہ سیمینار میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ دسمبر ۲۰۱۰ء

انسدادِ توہینِ رسالت کا قانون اور مسیحی راہنماؤں کا نقطۂ نظر

سلمان تاثیر کے قتل پر ملک بھر میں جس ردعمل کا اظہار ہوا ہے اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلم امہ اور خاص طور پر پاکستان کے غیور مسلمان خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو کسی قسم کی لچک اور نرمی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور اس مسئلہ پر مسلمانوں کا جذباتی ہونا جو مغرب کے نزدیک قابل اعتراض بات ہے مسلمانوں کی ایمانی جرأت اور دینی حمیت کے اظہار کی علامت بن گیا ہے۔ مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی ہر قوم کو اور ہر بات کو اپنے ماحول اور ذہنی دائروں میں پرکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۱۱ء

بائبل کی پکار ۔ من چہ گویم و طنبورہ من چہ سراید

پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک بار پھر حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون کو ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ ان کے بقول اقلیتوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اور بطور خاص مسیحی اقلیت اس کا نشانہ بن رہی ہے۔ ہم اس کالم میں یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اول تو اس قانون کے غلط استعمال کی بات اس حوالہ سے محل نظر ہے کہ غلط استعمال کی بات صرف اس قانون کے حوالہ سے کیوں کی جا رہی ہے؟ ملک میں دیگر بہت سے قوانین کا بھی تو غلط استعمال ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جنوری ۲۰۱۱ء

ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے قوم کا عزم

ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان اور ۷ ستمبر کو یومِ ختم نبوت تھا، بحمد اللہ تعالٰی دونوں دن خاصی مصروف رہی۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ہمارے قومی فرائض میں سے ہے اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی اہم ترین ملی تقاضا ہے چنانچہ ملک بھر میں دونوں حوالوں سے بھرپور جوش و خروش کا اظہار کیا گیا جس میں تھوڑا بہت ہمارا حصہ بھی شامل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۲۰۱۸ء

وزیر اعظم سے مجوزہ ملاقات۔ ایک ضروری وضاحت

وزیراعظم جناب عمران خان کے ساتھ مجوزہ ملاقات اور ہماری معذرت کے بارے میں مختلف تبصرے مسلسل سامنے آرہے ہیں، بہت سے دوست اس معذرت سے اتفاق کر رہے ہیں اور اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ دونوں طرف مخلصین ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ اپنی بات کہہ رہے ہیں اور دلائل و قرائن بھی کسی کے کمزور نہیں ہیں مگر چونکہ سوالات کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو صورتحال رونما ہوئی وہ قارئین کے سامنے رکھ دی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ ستمبر ۲۰۱۸ء

مولانا جلال الدین حقانیؒ

مولانا جلال الدین حقانیؒ کی وفات کی خبر دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی گہرے صدمہ کا باعث بنی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون، اور اس کے ساتھ ہی جہادِ افغانستان کے مختلف مراحل نگاہوں کے سامنے گھوم گئے ہیں۔ مولانا جلال الدین حقانیؒ جہاد افغانستان کے ان معماروں میں سے تھے جنہوں نے انتہائی صبر و حوصلہ اور عزم و استقامت کے ساتھ نہ صرف افغان قوم کو سوویت یونین کی مسلح جارحیت کے خلاف صف آرا کیا بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے افغان جہاد میں شرکت کے لیے آنے والے نوجوانوں اور مجاہدین کی سرپرستی کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ ستمبر ۲۰۱۸ء

قادیانیوں کی پاکستان کے لیے ’’خدمات‘‘

وزیراعظم عمران خان نے ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات کے حوالہ سے جو ایڈوائزری کونسل قائم کی ہے اس میں عاطف میاں کی شمولیت پر سوشل میڈیا میں بحث چھڑ گئی ہے کہ وہ مبینہ طور پر قادیانی ہیں اور مرزا قادیانی کے خاندان کے ساتھ ان کا تعلق بھی بتایا جاتا ہے، اس لیے اس کونسل میں ان کی شمولیت درست نہیں ہے اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کا نام کونسل سے خارج کر دیں۔ اس پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندی کا بے جا اظہار ہے اور مطالبہ کرنے والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ ستمبر ۲۰۱۸ء

سہ ماہی تعطیلات کی سرگرمیاں

صفر کے پہلے پیر کو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا سہ ماہی امتحان ہوتا ہے، یہ ایک دن کا تقریری امتحان ہوتا ہے اور اس سے قبل طلبہ کا دو دن کا تیاری کے لیے تقاضا ہوتا ہے جبکہ امتحان کے بعد تین چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح مجھے اس ہفتہ کے دوران چند روز گھومنے پھرنے کے لیے مل جاتے ہیں اور میں ان سے بھرپور استفادے کی کوشش کرتا ہوں۔ انہی دنوں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کا کراچی میں اجلاس تھا جس کے لیے دعوت نامہ موصول ہو چکا تھا اور برادرم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے فون پر بھی تاکید کی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جنوری ۲۰۱۰ء

حلال و حرام کا اسلامی تصور اور سوسائٹی کی خواہشات

سپریم کورٹ آف انڈیا نے حال ہی میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کا مشورہ دیا ہے اور اپنے اس مشورہ کو اس مسئلہ کا حل قرار دیا ہے کہ بے شمار قوانین کے باوجود جسم فروشی کے کاروبار میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ دو فاضل ججوں پر مشتمل بینچ نے کہا ہے کہ: ’’دنیا بھر میں کہیں بھی اور کوئی بھی قانون اس کاروبار کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور یہ کہ اس کو قانونی درجہ دے دیے جانے سے اتھارٹیز کو اس کاروبار کی نگرانی کرنے، اس کے ملوثین کی آبادکاری اور طبی امداد فراہم کرنے کا حق و اختیار حاصل ہو جائے گا۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ فروری ۲۰۱۰ء

قومی خودمختاری کا تحفظ ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس

گزشتہ اتوار کو لاہور میں ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام مختلف مکاتب فکر اور طبقات کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جو اس لحاظ سے بھرپور اور نمائندہ تھا کہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام نے اس میں شرکت کی اور ریٹائرڈ جنرل حمید گل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل راجہ ذوالقرنین اور صحافی برادری کی دو سرکردہ شخصیات چودھری اصغر علی وڑائچ اور جناب سلمان غنی بھی شریک ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جنوری ۲۰۱۰ء

موجودہ حالات اور جنرل حمید گل

دو روز قبل جنرل (ر) حمید گل صاحب نے فون پر مجھے کہا کہ ۸ دسمبر کو راولپنڈی میں کچھ حضرات کو ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے جس میں آپ کی آمد بھی ضروری ہے۔ میرا خیال تھا کہ کوئی محدود سطح کا مشاورتی اجلاس ہوگا لیکن میں جب ۳ بجے کے لگ بھگ راولپنڈی صدر کے فلیش مین ہوٹل کے مین ہال میں داخل ہوا تو وہاں ایک اچھے خاصے قومی سیمینار کا سماں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ دسمبر ۲۰۰۹ء

دینی جدوجہد کی معروضی صورتحال کی بحث

دینی جماعتوں کے اتحاد کے بارے میں معروضی صورتحال کے حوالے سے ان کالموں میں گفتگو کر رہا ہوں، اس میں ماضی کے تجربات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور مستقبل کے امکانات اور ضروریات کا جائزہ بھی اس کا حصہ ہے۔ اس پس منظر میں حافظ عبد الوحید اشرفی صاحب نے ایک مضمون میں مجھ سے تقاضا کیا کہ دوسرے حضرات کو توجہ دلانے کی بجائے خود اس سمت پر پیشرفت کیوں نہیں کرتا؟ اس کے جواب میں ایک قدرے تفصیلی مضمون میں راقم الحروف نے ان اسباب کا تذکرہ کیا جو اس بارے میں میری عملی پیشرفت میں حائل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جنوری ۲۰۱۰ء

دینی جدوجہد ۔ ضرورت اور تقاضے

ہمارے محترم دوست حافظ عبد الوحید اشرفی صاحب (مدیر ماہنامہ فقاہت لاہور) نے روزنامہ اسلام میں گزشتہ دنوں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں راقم الحروف کی ان گزارشات کو موضوع بحث بنایا ہے جن میں کچھ عرصہ سے مسلسل یہ عرض کر رہا ہوں کہ قومی سیاست میں دینی نمائندگی اور ہمارے تحریکی ماضی کے تسلسل کا خلا دن بدن گھمبیر ہوتا جا رہا ہے، اس لیے اس خلا کو پر کرنے اور تحریکی تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے کسی نہ کسی کو آگے بڑھنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ و ۶ دسمبر ۲۰۰۹ء

نیدرلینڈز کے مجوزہ گستاخانہ خاکوں کے پروگرام کی منسوخی

مسلمانوں کا ایمانی جذبہ بالآخر رنگ لایا ہے اور ہالینڈ (نیدرلینڈز) کی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے ان مجوزہ نمائشی مقابلوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو دس نومبر کو وہاں کی پارلیمنٹ میں منعقد کرائے جانے والے تھے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ’’تحریک لبیک یا رسول اللہؐ‘‘ کی ریلی کے اسلام آباد پہنچنے پر تحریک کے راہنما پیر محمد افضل قادری کو مذاکرات میں بتایا ہے کہ ہالینڈ کے وزیرخارجہ نے انہیں فون پر اطلاع کی ہے کہ یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم ستمبر ۲۰۱۸ء

شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی جدوجہد کے دو اہم پہلو

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی یاد میں ۳۰ اکتوبر کو خانیوال میں سیمینار منعقد ہو رہا ہے جس میں مولانا فضل الرحمان مہمان خصوصی ہوں گے اور مختلف ارباب فکر و دانش حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت مفتی صاحبؒ کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اس سیمینار کا اہتمام جناب اکرام القادری اور ان کے رفقاء کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے دور میں جمعیۃ علماء اسلام کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے سالہا سال تک مدیر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اکتوبر ۲۰۰۹ء

ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟

روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء کی رپورٹ کے مطابق حکمران پارٹی کی سربراہ بیگم بے نظیر بھٹو نے لاہور ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے شریعت بل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ: ’’ہم ایسا اسلام چاہتے ہیں جو واقعی اللہ کی ہدایات کے مطابق ہو۔ پوری دنیا اللہ کی ہے۔ عوام اللہ کے نمائندے ہیں۔ منتخب پارلیمنٹ اللہ کی امانت ہوتی ہے۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رکھیں گے۔ ہم انسانوں کے کان یا ہاتھ کاٹنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۱۹۹۰ء

ایران کے اہل سنت علماء کی حالت زار

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۷ مارچ ۱۹۹۶ء کے مطابق ایران کے دو سُنی علماء مولانا عبد المالک اور مولانا عبد الناصر، جو کراچی میں گزشتہ آٹھ برس سے جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، قتل کر دیے گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا اور ان کی لاشیں تدفین کے لیے ایران روانہ کر دی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۶ء

گلگت بلتستان صوبہ ۔ چند سنجیدہ خدشات و تحفظات

بلتستان کے مطالعاتی دورے کے بارے میں کچھ گزارشات ایک گزشتہ کالم میں پیش کر چکا ہوں۔ یہ علاقہ سنی شیعہ کشیدگی کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ گلگت بلتستان کے جس خطے کو ایک الگ صوبائی یونٹ کی حیثیت دی گئی ہے اس میں اہل سنت کی مجموعی آبادی ۲۷ فیصد بیان کی جاتی ہے، ان میں اکثریت علماء دیوبند سے متعلق ہے، کچھ اہل حدیث حضرات بھی ہیں اور اب خال خال لوگ بریلوی مکتب فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ اہل تشیع میں اثنا عشریوں کے علاوہ اسماعیلیوں اور نور بخشیوں کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اکتوبر ۲۰۰۹ء

موجودہ حالات اور تحفظ ختم نبوت کا محاذ

ماہِ رواں کی پانچ تاریخ کو مجلسِ احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ حضرات کا ایک مشترکہ اجلاس متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کی دعوت پر امیر احرار پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء اسلام، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث، پاکستان شریعت کونسل، خاکسار تحریک، مجلس احرار اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، ملت اسلامیہ پاکستان اور دیگر جماعتوں کے ذمہ دار حضرات نے شرکت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۹ء

نیدرلینڈز کے گستاخانہ خاکے، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم

سینٹ آف پاکستان نے ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ہالینڈ (نیدرلینڈز) میں دس نومبر کو منعقد کی جانے والی گستاخانہ خاکوں کی مجوزہ نمائش کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اگست ۲۰۱۸ء

اسلامی قوانین ۔ غیر انسانی؟

روزنامہ جنگ لاہور نے پی پی آئی کے حوالہ سے ۷ نومبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں یہ خبر شائع کی ہے کہ: ’’پاکستان ویمن لیگل رائٹس کمیٹی نے حکومت سے زنا حدود آرڈیننس فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اسے غیر اسلامی، غیر جمہوری اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں کہا ہے کہ یہ آرڈیننس کسی بھی طرح خواتین کے ساتھ زنا اور اغوا جیسے جرائم کو روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۸۹ء

گلگت کو صوبہ بنانے کا منصوبہ

ہم اس سے قبل ان کالموں میں گلگت اور دیگر شمالی علاقہ جات کو نیا صوبہ بنانے کا منصوبہ پر اظہار خیال کر چکے ہیں اور ہمارے نقطۂ نظر سے پاکستان، چین، بھارت، روس اور افغانستان کی سرحدوں کے درمیان اس نازک اور حساس خطہ کو الگ صوبہ کی حیثیت دینا کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۱۹۸۸ء

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی ۔ پروگرام اور عزائم

گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نام سے پرائیویٹ اسلامی یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ جو کچھ عرصہ پہلے تک محض ایک خواب نظر آتا تھا اب جمعیۃ اہل السنۃ کے باہمت راہنماؤں کی مسلسل محنت اور تگ و دو کے نتیجہ میں زندہ حقیقت کا روپ اختیار کر رہا ہے اور ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے لیے نہ صرف جی ٹی روڈ پر گوجرانوالہ سے لاہور کی جانب اٹاوہ کے پاس دو سو ساٹھ کنال جگہ حاصل کر لی گئی ہے بلکہ اس پر تعمیر کا کام بھی شروع ہو چکا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۹۰ء

شریعت بل اور شریعت کورٹ ۔ قومی اسمبلی کی نازک ترین ذمہ داری

سینٹ آف پاکستان نے مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کا پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کم و بیش پانچ سال کی بحث و تمحیص کے بعد بالآخر متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ شریعت بل ۱۹۸۵ء میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے سامنے رکھا گیا تھا، اسے عوامی رائے کے لیے مشتہر کرنے کے علاوہ سینٹ کی مختلف کمیٹیوں نے اس پر طویل غور و خوض کیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھی اسے بھجوایا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۹۰ء

خلیج کا آتش فشاں

کویت پر عراق کے جارحانہ قبضہ اور سعودی عرب و متحدہ عرب امارات میں امریکی افواج کی آمد سے یہ خطہ ایک ایسے آتش فشاں کا روپ اختیار کر چکا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور خلیج میں پیدا ہو جانے والی خوفناک کشیدگی کے حوالہ سے دنیا پر تیسری عالمگیر جنگ کے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۰ء

دینی مدارس اور قربانی کی کھالیں ۔ دو اہم تجویزیں

عید الاضحٰی کے موقع پر دینی مدارس کے لیے قربانی کی کھالوں کا مسئلہ اس سال بھی خاصی گہماگہمی کا میدان بنا رہا اور مختلف مقامات پر گرفتاریوں، مقدمات اور چھاپوں کا سلسلہ رہا۔ جبکہ کھالیں جمع کرنے کی اجازت کے بارے میں انتظامیہ کا رویہ بھی حوصلہ افزا اور آبرومندانہ نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اگست ۲۰۱۸ء

دینی مدارس اور مغربی لابیاں

روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۴ اپریل ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں ایک جرمن اخبار میں پاکستان کے دینی مدارس کے بارے میں شائع شدہ سروے رپورٹ کے بعض مندرجات کا حوالہ دیا ہے جس میں دینی مدارس کو دہشت گردی سکھانے والے اڈے قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان دینی مدارس میں لاکھوں طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۶ء

ترکی پر امریکہ کا معاشی حملہ اور عہدِ نبویؐ کی چند جھلکیاں

ترکی کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو دلچسپ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کو ترکی سے یہ شکایت ہے کہ وہ پون صدی تک مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے اور اس کے ایجنڈے کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد اب کچھ فیصلے آزادانہ بھی کرنے لگا ہے، جس سے امریکہ اور یورپی یونین کو صرف ترکی یا یورپ کی حد تک نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں اس بغاوت کے اثرات وسیع ہوتے چلے جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اگست ۲۰۱۸ء

مدینہ منورہ طرز کی فلاحی ریاست

وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان کی پہلی نشری تقریر کو ملک بھر میں پوری توجہ کے ساتھ سنا گیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے جو ظاہر ہے کہ کافی دیر تک چلتا رہے گا۔ مجھ سے بعض دوستوں نے تقریر کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ تقریر کے طور پر تو بہت اچھی تقریر ہے اور جناب وزیر اعظم نے اس تقریر میں جن خواہشات کا اظہار کیا ہے اگر ان کے دس فیصد پر بھی وہ عمل کر پائے تو میں اسے ان کی کامیابی سمجھوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۲۰۱۸ء

اسلامی بیداری کی لہر اور مسلم ممالک

روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۰ فروری ۱۹۹۰ء کی اشاعت میں ہانگ کانگ کی ڈیٹ لائن سے ’’ایشیا ویک‘‘ کی ایک رپورٹ کا خلاصہ خبر کے طور پر شائع کیا ہے جس میں مغربی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی اور ان کے مذہبی رجحانات میں روز افزوں اضافہ کو ’’مغرب میں اسلام کی خوفناک پیش قدمی‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۱۹۹۰ء

اسلامی نظریاتی کونسل کی رجعتِ قہقری

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے جس کے قیام کی گنجائش ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس مقصد کے لیے رکھی گئی تھی کہ پاکستان میں مروجہ قوانین کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لے کر خلافِ اسلام قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے اور قانون سازی کے اسلامی تقاضوں کے سلسلہ میں قانون ساز اداروں کی راہنمائی کی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۰ء

فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی کی تشریف آوری اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا افتتاح

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی (اٹاوہ، جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ) کے ابتدائی بلاک کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے۔ یہ بلاک جو عارضی طور پر تعمیر کیا گیا ہے یونیورسٹی کے سائٹ آفس کے علاوہ تعمیری ضرورت کے اسٹورز پر مشتمل ہے اور اس میں پانچ کمرے اور ایک برامدہ شامل ہے، جبکہ پہلے تعلیمی بلاک کی بنیادوں کی کھدائی شروع کر دی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۰ء

دینی مدارس کا نظام: خدمات، تقاضے اور ضروریات

دینی مدارس کے موجودہ نظام کی بنیاد امدادِ باہمی اور عوامی تعاون کے ایک مسلسل عمل پر ہے جس کا آغاز ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد اس جذبہ کے ساتھ ہوا تھا کہ اس معرکۂ حریت کو مکمل طور پر کچل کر فتح کی سرمستی سے دوچار ہوجانے والی فرنگی حکومت سیاسی، ثقافتی، نظریاتی اور تعلیمی محاذوں پر جو یلغار کرنے والی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۲ء

مسلم سربراہ کانفرنس ۔ وقت کا اہم تقاضہ

گزشتہ ہفتے سعودی مملکت کے فرمانروا شاہ فہد کے ساتھ حکومت پاکستان کے ایک وفد کی ملاقات کے حوالے سے یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ شاہ فہد مسئلہ کشمیر پر اسلامی سربراہ کانفرنس بلانے والے ہیں۔ معلوم نہیں اس خبر کی حقیقت کیا ہے لیکن جہاں تک اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس طلب کرنے کی ضرورت ہے اس سے انکار یا صرفِ نظر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۰ء

پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام ۱۹۴۷ء میں ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے اجتماعی ورد کی فضا میں اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا کہ اس خطہ کے مسلمان الگ قوم کی حیثیت سے اپنے دینی، تہذیبی اور فکری اثاثہ کی بنیاد پر ایک نظریاتی اسلامی ریاست قائم کر سکیں۔ لیکن تینتالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود دستور میں ریاست کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دینے اور چند جزوی اقدامات کے سوا اس مقصد کی طرف کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۰ء

مرزا طاہر احمد کی دعوت مباہلہ اور حسن محمود عودہ کا قبول اسلام

مرزا طاہر احمد کے دور میں قادیانی قیادت کی یہ ذہنی الجھن اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے کہ دلائل و براہین اور منطق و استدلال کے تمام مصنوعی حربوں کی مکمل ناکامی کے بعد جھوٹی نبوت کے خاندان کے ساتھ قادیانی افراد کی ذہنی وابستگی کو نفسیاتی چالوں کے ذریعے برقرار رکھنا حقیقت شناسی کے اس دور میں زیادہ دیر تک ممکن نہیں رہا۔ یہ الجھن خود مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی درپیش تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۸۹ء

جہادِ افغانستان کے خلاف امریکی سازش

امریکی سینیٹر مسٹر سٹیفن سولارز ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں اور اپنے ساتھ افغانستان کے مسئلہ پر ایک فارمولا لائے ہیں جس کا بنیادی نکتہ افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو افغانستان میں کوئی کردار سونپنا بیان کیا جاتا ہے۔ سٹیفن سولارز وہی صاحب ہیں جو امریکہ کی رائے عامہ کو پاکستان اور اسلامی قوتوں کے خلاف منظم کرنے کی مہم کے سرخیل بنے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۰ء

حجیّتِ حدیث اور ختمِ نبوت کے موضوع پر شکاگو میں عالمی کانفرنس

شکاگو کا شمار ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے جو دنیا کی پانچ بڑی جھیلوں کے سلسلہ میں مشی گن نامی بڑی جھیل کے کنارے آباد ہے۔ دنیا میں میٹھے پانی کی یہ سب سے بڑی جھیل کہنے کو جھیل ہے لیکن ایک سمندر کا نقشہ پیش کرتی ہے جو سینکڑوں میل کے علاقہ کو احاطہ میں لیے ہوئے ہے، میٹھے پانی کے اس سمندر کی وجہ سے شکاگو کا پورا علاقہ انتہائی سرسبز و شاداب ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۸۹ء

عالمِ اسلام میں جہاد کی نئی لہر

جہاد افغانستان کے منطقی اثرات رفتہ رفتہ ظاہر ہو رہے ہیں کہ نہ صرف مشرقی یورپ نے روس کی بالادستی کا طوق گلے سے اتار پھینکا ہے بلکہ وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی اپنی آزادی اور تشخص کی بحالی کے لیے قربانی اور جدوجہد کی شاہراہ پر گامزن ہو چکی ہیں اور فلسطین، کشمیر اور آذربائیجان کے حریت پسند مسلمان جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر ظلم و استبداد کی قوتوں کے خلاف صف آرا ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۱۹۹۰ء

مولانا فضل الرحمان اور نئی سیاسی صورتحال

چیچہ وطنی کے ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ ہمارے پرانے جماعتی، مسلکی اور نظریاتی ساتھیوں میں سے ہیں، حالات کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتے ہیں اور مختلف حوالوں سے اپنے جذبات کا متعلقہ حضرات کے سامنے اظہار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز ان کے ساتھ اسلام آباد کا سفر ہوا اور مولانا فضل الرحمان سے تفصیلی ملاقات ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب کو مولانا کی سیاسی پالیسیوں کے حوالہ سے کچھ تحفظات تھے اور میں موجودہ حالات کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہونے کے باوجود انہیں مولانا فضل الرحمان سے ان کے لہجے میں سننا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اگست ۲۰۱۸ء

دستوری ترامیم کی بحث اور دینی جماعتوں کا مطلوبہ کردار

دستور پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں کی جانے والی سترہویں ترمیم پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی اپنے کام میں مصروف ہے اور اس کے بارے میں مختلف اطراف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ پارلیمانی کمیٹی صرف سترہویں ترمیم کے خاتمہ کا طریق کار طے کرنے تک محدود نہیں ہے جس سے اس کی ذمہ داری پورے دستور کی ’’اوورہالنگ‘‘ تک پھیلی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اگست ۲۰۰۹ء

سوات کی صورتحال اور علماء کا اجلاس

والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے آخری ایام میں انہیں سب سے زیادہ پریشانی سوات کی صورتحال کے بارے میں تھی، میں جب بھی حاضر ہوتا وہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے حالات کے بارے میں دریافت کرتے اور دیگر حضرات سے بھی پوچھتے رہتے۔ میں نے کئی بار انہیں سوات اور اس خطہ کے حالات سن کر روتے دیکھا، مجاہدین کے ساتھ انہیں ہمدردی تھی لیکن ملکی صورتحال اور وطن عزیز کو درپیش مشکلات بھی ان کے لیے بے چینی کا باعث تھیں۔ چند ہفتے قبل انہوں نے مولانا سمیع الحق کو پیغام بھیج کر بلوایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مئی ۲۰۰۹ء

نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا تسلسل اور طریقہ کار

گزشتہ منگل سے برطانیہ میں ہوں اور وطن عزیز کے حوالہ سے اب تک تین چار اچھی خبریں سن چکا ہوں۔ پہلی خبر سوات کے معاہدۂ امن کی قومی اسمبلی سے توثیق کے حوالہ سے تھی، دوسری خبر نظام عدل ریگولیشن کے دائرہ کار کی مالاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان تک توسیع کے بارے میں تھی، تیسری خبر مولانا عبد العزیز کی رہائی اور لال مسجد میں ان کے خطبۂ جمعہ کی ہے، اور چوتھی خبر میں اس کو قرار دے رہا ہوں کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران سوات کے معاہدۂ امن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اپریل ۲۰۰۹ء

۱۴ اگست ۔ تجدیدِ عہد اور احتساب کا دن

تاریخ اور سماجیات کے ایک طالب علم کے طور پر جب قیام پاکستان کے پس منظر کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے اس کے سوا اس کی کوئی اور تعبیر نہیں سوجھتی کہ یہ اسلام کی حقانیت اور اعجاز کا اظہار تھا جو اس دور میں رونما ہوا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے صرف دو عشرے بعد اسلام کے نام پر ایک نئی ریاست پاکستان وجود میں آگئی جبکہ خلافت عثمانیہ کم و بیش پانچ صدیاں اسلام کے عنوان سے شرعی قوانین کے نفاذ کے ساتھ گزار کر دنیا کے نقشے سے غائب ہوگئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اگست ۲۰۱۸ء

Pages