مقالات و مضامین

جناب حکمت یار کا انتخابی فارمولا

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے گزشتہ روز تہران میں پاکستانی رہنماؤں محترم قاضی حسین احمد، جناب وسیم احمد سجاد اور جناب الٰہی بخش سومرو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کے سربراہ امیر المؤمنین ملا محمد عمر اگر الیکشن میں منتخب ہو جائیں تو وہ انہیں امیر المؤمنین تسلیم کر لیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ملا محمد عمر کو ایک خط میں فارمولا پیش کیا ہے کہ وہ اپنی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کریں جس میں تمام گروپوں کو نمائندگی دی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اپریل ۲۰۰۱ء

گوجرانوالہ، پہلوانوں اور خوش خوراکوں کا شہر

گوجرانوالہ پہلوانوں اور خوش خوراکوں کا شہر مشہور ہے، اس شہر کے پہلوانوں نے کسی دور میں نہ صرف برصغیر میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا ہے لیکن اب یہ بات قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے اور بڑے بڑے پہلوانوں کے روایتی اکھاڑے ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔ اکا دکا اکھاڑوں میں اب بھی پہلوانی زور ہوتا ہے اور گوجرانوالہ کے بعض پہلوان ملکی اور بین الاقوامی دنگلوں میں شریک ہوتے ہیں مگر اس کی حیثیت اب ماضی کی یاد کو تازہ رکھنے کی ہوگئی ہے۔ البتہ خوش خوراکی کی رسم ابھی باقی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ مارچ ۲۰۰۱ء

سنی و شیعہ رہنماؤں سے ایک دردمندانہ گزارش

شیخ حق نواز کی پھانسی کے بعد جھنگ، ہنگو اور شیخوپورہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے جو المناک واقعات رونما ہوئے ہیں اور بیسیوں بے گناہ شہریوں کی افسوسناک ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں انہوں نے اس سوال کی شدت اور سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہےکہ آخر اس عمل کو کب اور کہاں بریک لگے گی؟ عید کے دن مجھے اپنے علاقہ کے پولیس افسران کی ایڈوائس پر اپنے تیس سال سے چلے آنے والے معمول کو بدل کر ایک متعین راستے پر پیدل عید گاہ جانے کی بجائے راستہ بدل کر اور سواری پر نماز عید پڑھانے کے لیے جانا پڑا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۲۰۰۱ء

حق نواز کی پھانسی اور مذہبی انتہا پسندی

لاہور میں ایران کے خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر آقائے صادق گنجی کے قتل کے جرم میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جھنگ کے مذہبی کارکن حق نواز کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے اور اسے اس کی وصیت کے مطابق جامعہ محمودیہ جھنگ میں سپاہ صحابہؓ پاکستان کے بانی مولانا حق نواز شہیدؒ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس پھانسی کو رکوانے کے لیے سپاہ صحابہؓ کے راہنماؤں نے ہر ممکن کوشش کی اور بعض دیگر دینی حلقوں نے بھی اس سلسلہ میں ان سے تعاون کیا لیکن ایسی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ مارچ ۲۰۰۱ء

درسگاہِ نبویؐ کا ایک طالب علم

ادارہ علوم اسلامی بھارہ کہو اسلام آباد کے منتظم مولانا فیض الرحمان عثمانی نے فون پر یہ خوش خبری سنائی کہ ان کے ادارہ کے دو طلبہ نے میٹرک کے امتحان میں اسلام آباد ثانوی تعلیمی بورڈ کے نتائج کے مطابق دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے تو بے حد خوشی ہوئی مگر چونکہ دوسرے روز مجھے ایک دو ضروری اجلاسوں کے لیے اسلام آباد جانا تھا اس لیے فون پر مبارکباد دینے کی بجائے اس مقصد کے لیے خود ادارہ علوم اسلامی میں حاضری کا وعدہ کر لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جولائی ۲۰۰۰ء

خلیج عرب میں امریکہ کی نئی مہم

امریکہ بہادر آج کل پھر اس کوشش میں ہے کہ خلیج میں کسی بہانے عراق کو اشتعال دلا کر اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد کرا دی جائے جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی افواج کو وہاں مزید کچھ عرصہ تک موجود رکھنے کی راہ ہموار کی جا سکے اور عربوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ خلیج میں بعض عرب ممالک کے تحفظ و دفاع کے لیے امریکی افواج کی موجودگی کی مدت کی توسیع قبول کر لیں اور اس معاہدہ کی ازسرنو تجدید کر دیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مارچ ۲۰۰۱ء

میاں محمد شریف کے لیے ایک قابل غور نکتہ

طیارہ سازش کیس کا فیصلہ میں نے دینہ ضلع جہلم میں سنا۔ دینہ کے عالم دین مولانا محمد حسین ایک عرصہ سے انگلینڈ میں مقیم ہیں، ان کے بیٹے امین الرشید نے حرکۃ الجہاد الاسلامی کے ساتھ میدان جنگ میں شہادت پائی ہے اور انہوں نے اس کی یاد میں دینہ میں جامعہ امینیہ اسلامیہ کے نام سے دینی درسگاہ تعمیر کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ تین کنال جگہ میں طالبات کی دینی تعلیم کا مدرسہ قائم کیا جائے گا۔ ۶ اپریل کو اس کے سنگ بنیاد کی تقریب تھی جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اپریل ۲۰۰۰ء

مذہب اور ریاست: مغربی اور مسلم تاریخ کے تین بنیادی فرق

محترمہ بے نظیر بھٹو نے گزشتہ دنوں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک مباحثہ میں مسلمان مقرر کے طور پر خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ اگرچہ ان کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں اور اس سے قبل بھی وہ متعدد مواقع پر ’’نیو سوشل کنٹریکٹ‘‘ کے عنوان سے یہ سب کچھ کہہ چکی ہیں لیکن اسلام اور مغرب کے درمیان روز افزوں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی کشمکش کے حالیہ تناظر میں اس کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ مباحثہ کا عنوان تھا کہ ’’اس ایوان کی رائے میں اسلام اور مغرب کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ اپریل ۲۰۰۰ء

جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزراء

چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئین کی اسلامی دفعات کو ختم نہیں کیا جا رہا اور توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون میں بھی کوئی ترمیم نہیں کی جا رہی۔ جبکہ دینی جماعتوں نے پشاور میں مولانا شاہ احمد نورانی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں حکومت سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ آئین کی اسلامی دفعات کو عبوری آئین میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جون ۲۰۰۰ء

مولانا فضل الرحمان کی گوجرانوالہ آمد

گزشتہ جمعۃ المبارک کو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اور پیر طریقت حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی گوجرانوالہ تشریف لائے اور جامعہ نصرۃ العلوم کی مسجد نور میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر جامعہ نصرۃ العلوم کے دورہ حدیث، شعبہ تجوید اور درجہ حفظ کے فضلاء کی دستار بندی کا سالانہ پروگرام تھا، دونوں حضرات نے جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا اور فضلاء کی دستار بندی کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اپریل ۲۰۱۸ء

امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان

جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کی نائب وزیرخارجہ محترمہ کرسٹینا روکا ان دنوں جنوبی ایشیا کے دورے پر ہیں اور جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں وہ اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ جبکہ امارت اسلامی افغانستان کے سفیر محترم ملا عبد السلام ضعیف سے بھی ان کی ملاقات ہونے والی ہے۔ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد کرسٹینا روکا کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق ان کے ایجنڈے میں (۱) پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی روک تھام ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۱ء

مسئلہ کشمیر: تاریخی پس منظر، موجودہ صورتحال اور صدر مشرف کا دورۂ بھارت

صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف ماہِ رواں کے دوران بھارت کے دورے پر جا رہے ہیں جہاں وہ انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات اور تعلقات پر بات چیت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ گفتگو میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہوگا اور انہیں توقع ہے کہ وہ اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۱ء

حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ

حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاریؒ کی وفات کی خبر آج صبح نماز فجر کے بعد واٹس ایپ کے ذریعے ملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کافی دنوں سے علالت میں اضافہ کی خبریں آرہی تھیں، اس دوران ایک موقع پر ملتان حاضری اور بیمار پرسی کا موقع بھی ملا اور ان کے فرزند گرامی مولانا سید عطاء اللہ شاہ ثالث سے وقتاً فوقتاً ان کے احوال کا علم ہوتا رہا مگر ہر آنے والے نے اپنے وقت پر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے اور شاہ جی محترمؒ بھی ایک طویل متحرک زندگی گزار کر دار فانی سے رخصت ہوگئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۲۰۱۸ء

پاکستان شریعت کونسل کے عزائم

پاکستان شریعت کونسل نے ملک میں این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کو واچ کرنے اور اسلام اور پاکستان کے خلاف ان سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے تمام دینی جماعتوں سے رابطہ قائم کرنے اور جدوجہد کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں کیا گیا جو گزشتہ دنوں جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۰ء

معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں

محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے جو گفتگو کچھ عرصے سے چل رہی ہے اس کے ضمن میں ان کے دو شاگردوں جناب معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ماہنامہ اشراق لاہور کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں کچھ مزید خیالات کا اظہار کیا ہے جن کے بارے میں چند گزارشات پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ معز امجد صاحب نے حسب سابق (۱) کسی مسلم ریاست پر کافروں کے تسلط کے خلاف علماء کے اعلان جہاد کے استحقاق (۲) زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی ممانعت (۳) اور علماء کے فتویٰ کے آزادانہ حق کے بارے میں اپنے موقف کی مزید وضاحت کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۱ء

حزب التحریر کے نوجوانوں سے ایک گزارش

۲۱ فروری ۲۰۰۱ء کو فیلیٹیز ہوٹل لاہور میں پاکستان شریعت کونسل کا سیمینار تھا جس میں جمعیۃ علماء اسلام، جمعیۃ علماء پاکستان، جماعت اسلامی، مجلس احرار اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں مولانا عبد المالک خان، علامہ شبیر احمد ہاشمی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد الرشید انصاری، قاری زوار بہادر، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، چوہدری ظفر اقبال ایڈووکیٹ اور دیگر رہنماؤں کے علاوہ راقم الحروف نے بھی مختصر اظہار خیال کیا جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے سیمینار کی صدارت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ فروری ۲۰۰۱ء

دینی مدارس اور دورِ جدید کے مسائل و تقاضے

اس دفعہ دارالعلوم جمیکا نیویارک کے مہتمم مولانا محمد یامین اور ان کے رفقاء کار بھائی برکت اللہ اور مولانا حافظ اعجاز احمد کی دعوت پر میں نے عید الاضحٰی کی تعطیلات دارالعلوم نیویارک میں گزاریں۔ عید کے دوسرے روز اسلام آباد سے کویت ایئرویز کے ذریعے سفر کرتا ہوا شام کو نیویارک پہنچا اور ۱۹ نومبر کو واپسی کے سفر کا آغاز کر کے ان سطور کی اشاعت تک گوجرانوالہ پہنچ جاؤں گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہمارے مخلص ساتھیوں بھائی برکت اللہ اور مولانا محمد یامین نے اپنے دیگر رفقاء کے تعاون سے اب سے کوئی چودہ برس قبل یہ ادارہ قائم کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ و ۲۳ نومبر ۲۰۱۱ء

پاکستان کے سیاسی طبقات

گزشتہ ایک کالم میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کی سعودی عرب جلاوطنی پر تبصرہ کرتے ہوئے طاقت اور دولت کی کشمکش کے حوالہ سے کچھ عرض کرنے کا وعدہ کیا تھا اس لیے آج اسی سلسلہ میں کچھ گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ملک کی باگ ڈور جن طبقات کے ہاتھوں میں چلی گئی وہ تین تھے: (۱) جاگیردار اور زمیندار (۲) بیوروکریٹس (۳) اور جرنیل صاحبان۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی آمد تک ملک کی اسٹیبلشمنٹ انہی تین طبقات سے عبارت رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جنوری ۲۰۰۱ء

ملک کی بربادی کا سبب ۔ علامہ ابن خلدونؒ کی نظر میں

علامہ ابن خلدونؒ آٹھویں صدی ہجری کے وہ نامور مؤرخ ہیں جنہوں نے نہ صرف تاریخ پر قلم اٹھایا ہے اور انسانی معاشرہ کی تاریخ کے مختلف ادوار کے حالات و واقعات کو قلمبند کیا ہے بلکہ قوموں کی نفسیات، انسانی تاریخ کے مد و جزر اور اتار چڑھاؤ کے پس منظر اور اقوام کے عروج و زوال کے اسباب و عوامل پر فلسفیانہ گفتگو بھی کی ہے اور انہیں تاریخ کی فلسفہ نگاری کا بانی شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مرتب کردہ تاریخ اور اس کے مقدمہ میں قوموں کے عروج و زوال اور حکومتوں کی کامیابی و ناکامی کے معاشی اسباب پر بحث کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ نومبر ۲۰۰۰ء

مولانا اکرم اعوان کا پرویز مشرف کے نام خط

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جارج ڈبلیو بش اور الگور کی تاریخی کشمکش اور پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی خاندان سمیت جلاوطنی نے بہت سے موضوعات کو نگاہوں سے وقتی طور پر اوجھل کر دیا تھا، اب کچھ دھند چھٹی ہے تو بعض باتیں یاد آنے لگی ہیں۔ امریکی انتخابات میں تو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسٹر الگور نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جارج ڈبلیو بش کو مبارکباد دے کر بات صاف کر دی ہے مگر میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے حوالہ سے الجھنوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ دسمبر ۲۰۰۰ء

کیا اسلامی نظام صرف مولویوں کا مسئلہ ہے؟

وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے یہ کہہ کر اسلامی نظام اور اس کی علمبردار دینی قوتوں کے خلاف ایک بار پھر وہی گھسی پٹی دلیلیں دہرائی ہیں جو اس سے قبل پچاس سال سے ہم سن رہے ہیں کہ ’’الگ الگ جھنڈے اٹھا کر مذہبی جماعتیں ملک میں کون سا اسلام نافذ کرنا چاہتی ہیں اور اگر دینی جماعتیں واقعی موزوں، مفید اور مناسب طور پر یہ کام کر رہی ہیں تو وہ اب تک کے الیکشنوں میں اچھے نتائج کیوں نہیں دکھا پائیں؟‘‘ یہ بات پاکستان کے قیام کے بعد ہی سیکولر حلقوں نے کہنا شروع کر دی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۰۰ء

حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ

دارالعلوم (وقف) دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی علالت کے بارے میں کئی روز سے تشویشناک خبریں آرہی تھیں، اسی دوران خواب میں ان کی زیارت ہوئی، عمومی سی ملاقات تھی، میں نے عرض کیا کہ حضرت! دو چار روز کے لیے دیوبند میں حاضری کو جی چاہ رہا ہے مگر ویزے کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آرہی، میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا اچھا کچھ کرتے ہیں۔ خواب بس اتنا ہی ہے، اب خدا جانے پردۂ غیب میں کیا ہے، مگر یہ اطمینان ہے کہ خاندانِ قاسمی کی نسبت سے جو بھی ہوگا خیر کا باعث ہی ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اپریل ۲۰۱۸ء

ملالہ دیوی اور قندوز و کشمیر کے شہداء

ملالہ دیوی کی وطن واپسی اور قندوز کے دینی مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ کی خبریں ایک ہی دن قومی اخبارات میں پڑھنے کو ملیں اور ذہن میں ان دونوں خبروں کے باہمی تعلق کے حوالہ سے کئی سوالات گردش کرنے لگے۔ دیوی کے درشن میں ہمارے محترم وزیراعظم شریک تھے اور یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ملالہ نے کہا ہے کہ میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتی، جبکہ مستقبل میں وزیراعظم کے عہدہ کے ایک بڑے امیدوار سیاستدان نے کہا ہے کہ وہ اسے وزیرتعلیم بنائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۲۰۱۸ء

متحدہ مجلس عمل کی بحالی

متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے تحت مولانا فضل الرحمان کو صدر، جناب لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل اور مولانا شاہ اویس نورانی کو سیکرٹری اطلاعات منتخب کر کے مرکزی باڈی تشکیل دی گئی ہے۔ اور کم و بیش سبھی دینی مکاتب فکر کی اہم قیادتوں نے اگلا الیکشن متحدہ مجلس عمل کے فورم پر ایک پرچم، ایک منشور اور ایک نشان کے ساتھ لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے جس پر ملک بھر کے سنجیدہ دینی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ مارچ ۲۰۱۸ء

دینی مدارس کا مقصد قیام اور معاشرتی کردار

ان دنوں دینی مدارس میں تعلیمی سال کا اختتام ہے، اس مناسبت سے ملک کے مختلف حصوں میں سالانہ امتحانات کے علاوہ ختم بخاری شریف کی تقریبات اور سالانہ جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔ اور چونکہ کچھ عرصہ سے یہ دینی مدارس عالمی میڈیا کی طرف سے کردار کشی کی مہم کا ایک بڑا ہدف ہیں اس لیے ان مجالس میں دینی مدارس کے قیام کے اسباب اور معاشرہ میں ان کے کردار کے حوالہ سے بھی گفتگو ہوتی ہے۔ راقم الحروف کو گزشتہ دنوں جامعہ علوم اسلامیہ میر پور آزاد کشمیر، جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ نومبر ۱۹۹۹ء

تعلیمی اداروں میں قرآن کریم کی تعلیم اور پنجاب اسمبلی کی قرارداد

پنجاب اسمبلی نے ۸ مارچ ۲۰۱۲ء کو محترمہ عاصمہ ممدوٹ کی پیش کردہ ایک قرارداد متفقہ طور پر پاس کی ہے جس میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ (۱) سرکاری تعلیمی اداروں کے نصابِ تعلیم میں قرآن کریم کو نصابی کتاب کے طور پر شامل کیا جائے۔ (۲) مکمل قرآن کریم ترجمہ سمیت پڑھایا جائے۔ (۳) اس کے لیے حکومت کی طرف سے تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔ (۴) قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس کو تعلیمی اداروں میں یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ مارچ ۲۰۱۲ء

مواخذہ سے استثنا اور اسلامی تعلیمات

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سوئس عدالت کو خط لکھنا آئین کے آرٹیکل ۶ کی خلاف ورزی ہوگی جس کی سزا موت ہے، اس لیے وہ توہینِ عدالت میں سزا پانے کو ترجیح دیں گے جو چھ ماہ قید ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پی پی سے بے وفائی نہیں کریں گے اور اپنے ہی صدر کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپیں گے۔ سوئس عدالت کو خط لکھنے کا معاملہ عجیب سی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود وزیراعظم پاکستان، صدر آصف علی زرداری کے مقدمات کے حوالے سے سوئس عدالت کو خط لکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مارچ ۲۰۱۲ء

پاکستانی عوام کیسا نظام چاہتے ہیں؟

گیلپ انٹرنیشنل کے حالیہ سروے نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت آج بھی ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق یہ سروے اسامہ بن لادن کی وفات سے پہلے کیا گیا تھا، اس کے مطابق۶۷ فیصد عوام نے اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ۲۰ فیصد نے خاموشی اختیار کی ہے اور ۱۳ فیصد نے کہا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات بار بار دہرانے کی اب ضرورت نہیں رہی کہ پاکستان کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جولائی ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا مفتی عبد المتینؒ

دینی، علمی اور جماعتی حلقوں کے لیے یہ خبر انتہائی صدمہ کا باعث ہوگی کہ آزاد کشمیر کے بزرگ اور مقتدر عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب (تاریخ وفات: ۲۲/اکتوبر ۱۹۸۲ء) فاضل دیوبند طویل علالت کے بعد گزشتہ جمعہ کے روز راولپنڈی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی صاحب مرحوم آزاد کشمیر کے علاقہ تھب تحصیل باغ کے رہنے والے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا السید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے شاگرد اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ العالمی کے ہم سبق تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۱۹۸۲

بین الاقوامی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں، عالمی استعمار کے مورچے

بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز مختلف ممالک میں اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح کام کرتی ہیں، اس سے واقفیت دینی کام کرنے والی جماعتوں اور کارکنوں بالخصوص علمائے کرام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اور اسی غرض سے چند منتخب مضامین زیرنظر شمارہ میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں جو موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ تو نہیں کرتے البتہ ان سے عالم اسلام میں کام کرنے والی این جی اوز کے بنیادی اہداف اور طریق کار کے اہم پہلوؤں کا ایک ہلکا سا خاکہ ضرور سامنے آجاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۸ء

عالم اسلام کے دینی حلقے اور امریکہ بہادر

افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد جہاں سوویت یونین کی عظیم قوت بکھری ہے اور مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئی ہیں وہاں عالمی سطح پر طاقت کا توازن بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے بعد امریکہ ’’انا ولا غیری‘‘ کے نعرہ کے ساتھ دنیا کی تنہا چودھراہٹ کو مستحکم کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔ لیکن اس کے دل میں یہ خوف بھی بیٹھا ہوا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور جلد یا بدیر کسی نہ کسی طاقت کو اس کے مد مقابل آنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۸ء

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر ۲۳ مارچ ۱۹۹۷ء کو اسلام آباد میں مسلم سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کے سربراہوں اور ان کے نمائندوں نے شریک ہو کر عالم اسلام کے مسائل پر گفتگو کی اور پاکستانی قوم کو پچاس سالہ قومی زندگی مکمل ہونے پر مبارک باد دی۔ آزادیٔ وطن کے حوالہ سے پچاس سالہ تقریبات کا اہتمام بھارت میں بھی ہو رہا ہے جبکہ بنگلہ دیش نے انہی دنوں اپنے قیام کی پچیس سالہ تقریبات منائی ہیں۔ پاکستان کے قیام کو پچاس سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں ہر سطح پر تقریبات کا اہتمام ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۷ء

قادیانی مسئلہ ایک نئے موڑ پر

گزشتہ سال امریکی وزارتِ خارجہ نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں قادیانیوں کا بطور خاص ذکر کیا تو قادیانی مسئلہ کا ادراک رکھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ حالات کا رخ اب کدھر کو ہے اور امریکہ بہادر اس حوالہ سے ہم سے کیا چاہتا ہے۔ پاکستان میں قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دینا اور انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات و اصطلاحات استعمال کرنے سے قانوناً روکنا امریکہ اور دیگر مغربی لابیوں کے نزدیک انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ جنوری ۱۹۹۷ء

اسلام اور خواتین کے حقوق

انسانی نسل کی بقا اور معاشرت کی گاڑی جن دو پہیوں پر رواں دواں ہے ان میں ایک عورت ہے جس کا نسلِ انسانی کی نشوونما اور ترقی میں اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا مرد کا ہے۔ اس لیے اسلام نے عورت کے وجود کو نہ صرف تقدس اور احترام بخشا بلکہ اس کی اہمیت و افادیت کا بھرپور اعتراف کیا ہے اور اسے ان تمام حقوق اور تحفظات سے نوازا ہے جو مرد اور عورت کے فطری فرائض کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عورت کو انسانی معاشرہ میں ایک آزاد اور خودمختار وجود کی حیثیت حاصل نہ تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۳

بین الاقوامی لابیاں، قادیانی گروہ اور بعض پاکستانی دانشور

روزنامہ نوائے وقت میں ’’اور پاکستان بدنام ہو رہا ہے‘‘ کے عنوان سے اصغر علی گھرال کے مضمون کی تین قسطیں نظر سے گزریں جس میں انہوں نے پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف درج مقدمات اور ان کے حوالہ سے عالمی سطح پر قادیانیوں کی طرف سے پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم کا ذکر کیا ہے اور قادیانیوں کو یہ تسلی دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے خلاف شوروغوغا صرف تنگ نظر ملاؤں نے بپا کر رکھا ہے ورنہ عام مسلمانوں کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ ہی ملک کی عام آبادی قادیانیوں کے خلاف کسی قسم کی مہم میں شریک ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۸ء

محترمہ بے نظیر بھٹو! معاملات کو گڈمڈ نہ کریں

قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک حالیہ مضمون میں موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت آرڈیننس اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے معاملات پر بھی بحث کی ہے۔ محترمہ کا موقف ہے کہ پاکستان کو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دینا چاہئیں بلکہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ جبکہ ہماری معلومات کے مطابق خود حکومت پاکستان نے بھی سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اس کے لیے حالات کو سازگار بنانے پر کام کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ فروری ۱۹۹۹ء

’’الشریعہ‘‘ کا دورِ نو

ہم نے پہلے دن سے جو اہداف طے کر رکھے ہیں بحمد اللہ تعالیٰ آج بھی ان پر قائم ہیں کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور غلبہ و نفاذ، اسلام دشمن عناصر اور لابیوں کے تعاقب، اسلامی تحریکات کے درمیان مفاہمت کے فروغ، دینی حلقوں کی بریفنگ اور ذہن سازی اور اسلامی نظام کے بارے میں مختلف حلقوں کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے علمی اور فکری محاذ پر اپنی بساط کے مطابق سرگرم عمل رہیں گے، اور گروہی مخاصمتوں اور لابیوں کی ترجیحات سے بالاتر رہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جنوری ۱۹۹۹ء

مسٹر رابن کک! یہ ایجنڈا ادھورا ہے

لاہور کے ایک اردو روزنامے میں برطانوی وزیرخارجہ مسٹر رابن کک کا یہ بیان نظر سے گزرا ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے یورپی یونین اور اسلامی تنظیم (او آئی سی) کے درمیان مذاکرات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ایک اسلامک سنٹر میں اپنی کسی تقریر کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں انہوں نے ’’اسلام اور مغرب کے اشتراک‘‘ پر اظہارِ خیال کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اس حوالہ سے یورپی یونین اور او آئی سی میں بہت جلد مذاکرات شروع ہونے والے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۸ء

چند بزرگوں اور دوستوں کی یاد میں

پرانے رفقاء میں سے کسی بزرگ یا دوست کی وفات ہوتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ جنازہ یا تعزیت کے لیے خود حاضری دوں اور معمولات کے دائرے میں ایک حد تک اس کی کوشش بھی کرتا ہوں مگر متنوع مصروفیات کے ہجوم میں صحت و عمر کے تقاضوں کے باعث ایسا کرنا عام طور پر بس میں نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں چند انتہائی محترم بزرگ اور دوست جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ مارچ ۲۰۱۸ء

اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اس کے تقاضے

شاہ صاحب موصوف گزشتہ دنوں فقہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے اپنے معزز رفقاء کے ہمراہ گوجرانوالہ تشریف لائے تو ان کے پاس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مضامین و مقالات کے مجوزہ عنوانات کی فہرست میں سے ایک عنوان کا میں نے خود انتخاب کیا جو فہرست کے مطابق یوں تھا: ’’تقلید و اجتہاد کی حدود کا تعین اور اجتماعی اجتہاد کے تصور کا علمی جائزہ‘‘۔ لیکن جب قلم و کاغذ سنبھالے خیالات کو مجتمع کرنا چاہا تو محسوس ہوا کہ یہ ایک نہیں دو الگ الگ عنوان ہیں اور ہر عنوان اپنی جگہ مستقل گفتگو کا متقاضی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۶ء

حکومت اور دینی مدارس کی کشمکش کا ایک جائزہ

’’دینی مدارس، انسانی حقوق اور مغربی لابیاں‘‘ کے عنوان سے ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم نے اس شمارے میں شامل کرنے کے لیے مضامین کے انتخاب میں اس ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے کہ دینی مدارس کے خلاف مغربی لابیوں اور میڈیا کی موجودہ مہم کے پس منظر اور مقاصد کو آشکارا کرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں کے حوالہ سے دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ناگزیر تبدیلیوں اور تعلیم کے جدید ذرائع اور مواقع سے دینی تعلیم کے لیے استفادہ کے امکانات کا جائزہ بھی قارئین کے سامنے آجائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۱۹۹۶ء

ورلڈ اسلامک فورم کا قیام

پاکستان سے میری طویل غیر حاضری اور لندن میں قیام کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد کی طرف بحمد اللہ تعالیٰ پیش رفت ہوئی ہے اور چند اصحاب فکر نے راقم الحروف کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے نام سے ایک نیا فکری حلقہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’الشریعہ‘‘ کے قارئین گواہ ہیں کہ راقم الحروف نے علمائے کرام اور دینی تحریکات کے قائدین کی خدمت میں ہمیشہ یہ عرض کیا ہے کہ اسلام کے غلبہ و نفاذ کی جدوجہد میں مؤثر پیش قدمی کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے حوالہ سے مغربی فلسفہ کا مکمل ادراک حاصل کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۳ء

ورلڈ اسلامک فورم کے پہلے باضابطہ اجلاس کا دعوت نامہ

باسمہ سبحانہ۔ بگرامی خدمت، زید لطفکم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ کافی عرصہ سے اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی میڈیا اور اسلام دشمن لابیوں کے معاندانہ پراپیگنڈا کا سائنٹیفک انداز میں جائزہ لیا جائے اور اس کے توڑ کے لیے منظم کام کیا جائے۔ نیز یورپ میں مقیم مسلمانوں بالخصوص مشرقی یورپ کے کمیونزم سے آزاد ہونے والے ممالک کی مسلم اقلیتوں کی دینی ضروریات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اس کے مطابق ضروری لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کا اہتمام کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۶ء

جناب حمزہ اور چند سیاسی یادیں

سینٹ آف پاکستان کے انتخابات کا عمل جاری ہے اور چند روز میں سینٹ کا نیا ایوان اپنا کام شروع کر دے گا۔ پنجاب سے سینٹ کے بارہ ارکان حسب سابق متفقہ طور پر منتخب ہوئے ہیں جو ایک خوش آئند روایت اور سیاست میں افہام و تفہیم کی علامت ہے۔ مگر میرے لیے اس میں سب سے زیادہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگ دوست حمزہ صاحب بھی اس انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر پارلیمنٹ کے ایوان میں آگئے ہیں اور ایوان میں ان کی کھری کھری باتیں ایک بار پھر گونجا کریں گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ فروری ۲۰۱۲ء

نفاذِ اسلام اور ہمارا نظامِ تعلیم

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام ایک صحت مند اور مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور اس سلسلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم سمیت بانیان پاکستان کے واضح اعلانات تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں جن میں اسلام کے مکمل عادلانہ نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کی بالادستی کو پاکستان کی حقیقی منزل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ دنیا کے نقشے پر اس نظریاتی ملک کو نمودار ہوئے نصف صدی کا عرصہ گزرنے کو ہے مگر ابھی تک ہم اسلامی نظام کی منزل سے بہت دور ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۶ء

سماجی ارتقا اور آسمانی تعلیمات

انسانی سماج لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہے اور اس میں ہر پیش رفت کو ارتقا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ تغیر اور پیش رفت سوسائٹی کے مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لیے ہر آنے والے دور کو پہلے سے بہتر قرار دے کر اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور اسے نظرانداز کرنے کو قدامت پرستی اور معاشرتی جمود کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج کی مروجہ عالمی تہذیب و قوانین کو ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ کے عنوان سے انسانی سماج کی سب سے بہتر صورت اور آئیڈیل تہذیب کے ٹائٹل کے ساتھ پوری نسل انسانی کے لیے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۲۰۱۸ء

درخواستی خاندان کی اسلام کے لیے خدمات

حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ پاکستان کی دینی و سیاسی تاریخ کی ایک اہم شخصیت تھے جن کا اوڑھنا بچھونا تعلیم و تدریس اور ذکر و اذکار تھا۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان جیسی معروف دینی و سیاسی جماعت کے تین عشروں تک امیر رہے اور ان کی امارت میں کام کرنے والے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا پیر محسن الدین احمدؒ، مولانا شمس الحق افغانیؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری شامل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ اکتوبر ۲۰۱۲ء

توہین رسالت کا قانون اور امریکی موقف

امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بدنام زمانہ امریکی فلم کی مذمت کی ہے جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں کی جانے والی توہین پر پورا عالمِ اسلام سراپا احتجاج ہے اور بہت سے مقامات پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تشدد کے باعث خاصا جانی و مالی نقصان بھی سامنے آیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے پرتشدد مظاہروں میں لیبیا میں امریکی سفیر اور دیگر امریکی شہریوں کے قتل کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ان پرتشدد مظاہروں کا کوئی جواز نہیں ہے اور ان سے بین الاقوامی قوانین کی توہین ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ ستمبر ۲۰۱۲ء

تسخیرِ کائنات اور قرآنِ کریم

مریخ تک رسائی بلاشبہ انسانی تاریخ کا اہم واقعہ اور سائنس کی غیر معمولی پیش رفت ہے جس پر امریکی سائنسدان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مجھے ہیوسٹن میں واقع ناسا ہیڈکوارٹر میں عام وزیٹر کے طور پر ایک سے زیادہ مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ہے اور چاند پر اترنے والی خلائی گاڑی اپالو میں بیٹھنے کا موقع بھی ملا ہے جو عام نمائش کے لیے وہاں رکھی ہوئی ہے۔ جبکہ ناسا ہیڈکوارٹر کے مین گیٹ کے سامنے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے قاری مطیع الرحمان مرحوم کے قائم کردہ حفظ قرآن کریم کے مدرسہ میں بھی حاضری ہوئی جو پہلے کرائے کی ایک بلڈنگ میں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اگست ۲۰۱۲ء

رمضان المبارک، تربیت کا مہینہ

رمضان المبارک قرآن کریم اور روزوں کا مہینہ ہے، برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، مغفرت اور نجات کا مہینہ ہے، جو اپنی بہاریں دکھا کر چند دنوں میں رخصت ہونے والا ہے۔ مبارکباد کے مستحق ہیں وہ سعادت مند جنہوں نے ان مبارک ساعات سے فیض حاصل کیا اور اپنے ذخیرۂ آخرت میں اضافہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک صبر و مواخاۃ کا مہینہ بھی ہے کہ اس ماہ میں مسلمانوں کو بھوک پیاس پر صبر کر کے اپنے بھوکے پیاسے بھائیوں کی تکالیف کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ان میں بھوکوں پیاسوں کے لیے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات کو ابھارتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اگست ۲۰۱۲ء

Pages