مقالات و مضامین

معزول جج صاحبان کی بحالی اور کچھ پرانی یادیں

چیف جسٹس جناب محمد افتخار چودھری اور دیگر معزز جج صاحبان کی بحالی سے صرف عدلیہ نہیں بلکہ ملک کی قومی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور اس کے اثرات تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ اس سے جہاں ملک کی جمہوری اور عوامی قوتوں کو حوصلہ ہوا ہے کہ کوئی ڈکٹیٹر کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو عوامی قوت کے ساتھ اس کے اقدامات کو رد کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مارچ ۲۰۰۹ء

ختم نبوت کے محاذ پر بیداری کے آثار

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے قادیانیت کو یہودیت کا چربہ قرار دیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ قادیانی پاکستان میں وہی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو۔ اسی طرح اقبالؒ نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا کام اللہ تعالیٰ نے بھٹو مرحوم سے لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ مارچ ۲۰۰۹ء

شرعی نظامِ عدل کا خوش آئند نفاذ

قومی اسمبلی سے سوات کے معاہدۂ امن کی منظوری کی خوش کن خبر مجھے لندن پہنچنے پر ملی۔ ۱۴ اپریل کو صبح ساڑھے چھ بجے کے لگ بھگ ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا تو سفر شروع کیے مجھے تقریباً بائیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ سعودیہ ایئر لائن کی فلائٹ تھی، ۱۳ اپریل کو ساڑھے بارہ بجے دن لاہور سے پرواز کی اور ریاض سے ہوتے ہوئے جدہ پہنچا۔ رات کو ڈیڑھ بجے دوسری پرواز سے روانہ ہوئے اور لندن کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے جبکہ پاکستان میں ساڑھے دس بجے کا وقت تھا ہم لندن پہنچے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اپریل ۲۰۰۹ء

انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس کیپ ٹاؤن

میں اس وقت جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر کیپ ٹاؤن میں ہوں جو جنوب میں دنیا کا آخری شہر کہلاتا ہے، سٹی کے کنارے پر ایک ہوٹل میں ہمارا قیام ہے اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حسب معمول چائے کا کپ پی کر قلم کاغذ سنبھالے یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ میں پاکستان سے علماء کرام کے ایک وفد کے ساتھ عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے جمعرات کو جوہانسبرگ حاضر ہوا تھا جہاں سے جمعہ کی صبح ہم کیپ ٹاؤن پہنچے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۰۸ء

تحریک ختم نبوت کا بڑھتا ہوا جوش و خروش

گزشتہ روز عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سرگودھا کی مرکزی عیدگاہ میں منعقد ہونے والی ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی مگر اس کی تفصیل عرض کرنے سے پہلے اپنے گزشتہ روز شائع ہونے والے کالم کے حوالہ سے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کالم میں ۱۹ اکتوبر کو تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں دفتر احرار لاہور میں منعقدہ مختلف جماعتوں کے راہنماؤں کے مشترکہ اجلاس کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں اجلاس کے اعلامیہ کی دو تین سطریں شائع ہونے سے رہ گئیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اکتوبر ۲۰۰۸ء

دینی مدارس اور این جی اوز کے بارے میں دوہرا حکومتی طرز عمل

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۱۳ جولائی ۲۰۱۸ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے: ’’بیرونی امداد کی تفصیل نہ بھجوانے والی ضلع بھر کی ۱۰۵ این جی اوز کو شوکاز جاری ہوئے مگر سماجی تنظیموں کے سربراہان نے ڈیٹا نہ بھجوا کر احکامات کو ہوا میں اڑا دیا، ذرائع کے مطابق عام انتخابات کی مصروفیت کے باعث سماجی تنظیموں کے خلاف کاروائی نہ ہونے کا امکان ہے، جس سے ساری تنظیموں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۸ء

اسلامی احکام و مسائل اور آج کی دنیا

اس دفعہ سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے موقع پر تین دن کے لیے کراچی حاضری کا پروگرام بنا تو میں نے یہ سوچ کر کہ کبھی کبھار کراچی آنے کا موقع ملتا ہے بہت ٹائٹ قسم کا شیڈول بنا لیا، بہت سے دوستوں کے تقاضے جمع تھے، میں نے سب کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن پہلی بار اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ’’من بعد قوۃ ضعفاً و شیبۃ‘‘ کی عملی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ کہنے کو تو میں نے وہ شیڈول جیسے کیسے بنا لیا لیکن واپسی پر خود کو پہلی کیفیت پر واپس لانے میں ایک ہفتہ لگ گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ فروری ۲۰۰۹ء

صدر باراک حسین اوباما کے لیے اصل چیلنج

فتح مکہ کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم دیا تو مکہ میں کہرام مچ گیا۔ حضرت بلالؓ نے اسی مکہ مکرمہ میں غلامی کی حیثیت سے زندگی بسر کی تھی، انہیں اسی سرزمین میں سنگریزوں پر گھسیٹا گیا تھا، وہ قریشی نہیں بلکہ حبشی تھے اور ان کا رنگ بھی کالا تھا۔ حرم مکہ میں قریش کے بڑے بڑے لوگ جمع تھے، ابو سفیان بن الحرب، حارث بن ہشام اور عتاب بن اسید اکٹھے بیٹھے صورتحال پر تبصرہ کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء

صدر باراک حسین اوباما اور امریکی پالیسیاں

باراک حسین اوباما نے امریکہ کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے جس سے امریکہ کی قومی تاریخ میں ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔ وہ سیاہ فام آبادی جسے آج سے پون صدی پہلے تک امریکہ میں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا اس کا نمائندہ آج امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ہے اور محاورہ کی زبان میں امریکہ کے سیاہ و سفید کا مالک کہلاتا ہے۔ باراک حسین اوباما کا باپ حسین ہے جو مسلمان تھا اور کینیا سے تعلق رکھتا تھا جبکہ اس کی ماں مسیحی خاتون تھی۔ ماں اور باپ کی علیحدگی کے بعد باراک حسین ماں کے ساتھ رہا اور اسی کے مذہب پر اس کی پرورش ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ جنوری ۲۰۰۹ء

مجوزہ نجی شرعی عدالتیں ۔ اہمیت اور امکانات

پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کی ضرورت اور اس کے لیے اس سے قبل کی جانے والی مساعی کے بارے میں چند معروضات گزشتہ کالموں میں پیش کر چکا ہوں۔ اور آج اس حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کے عالمی اور قومی تناظر میں اس کی اہمیت و ضرورت اور امکانات کی کیا صورتحال ہے اور اگر ہم آج کے ماحول میں اس کارِ خیر کی شروعات کرنا چاہیں تو وہ کس طرح کی جا سکتی ہے؟ پہلے ان مساعی پر ایک سرسری نظر پھر سے ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے جو اس سے قبل اس سلسلہ میں سامنے آچکی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جنوری ۲۰۰۹ء

شرعی عدالتوں کا قیام

۱۹۷۵ء کے دوران جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے ملک بھر میں شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان اور اس کی اصولی وضاحت کے حوالہ سے حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے ایک مضمون کے اقتباسات گزشتہ کالم میں پیش کر چکا ہوں۔ آج اس سلسلہ میں ۲۸ و ۲۹ مارچ ۱۹۷۶ء کو مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں منعقد ہونے والے دو روزہ کنونشن کی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے جو ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے ۹ اپریل ۱۹۷۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ و ۱۱ جنوری ۲۰۰۹ء

پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کی کوششوں کا پس منظر

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے ۱۹۷۵ء میں نفاذ شریعت کے سلسلہ میں حکومتی رویے سے مایوس ہو کر ملک بھر میں پرائیویٹ شرعی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور طے کیا تھا کہ جو مقدمات اور تنازعات قابل دست اندازیٔ پولیس نہیں ہیں اور جن میں لوگ اپنی مرضی کے مطابق تحکیم، پنچایت اور ثالثی کے ذریعے اپنے تنازعات کا فیصلہ کرا سکتے ہیں، ان میں عام مسلمانوں کو اپنے مقدمات کے فیصلے شرعی قوانین کی روشنی میں کرانے کے لیے سہولت اور نظام فراہم کیا جائے۔ میں نے اپنے ایک دو گزشتہ کالموں میں اس کا ذکر کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جنوری ۲۰۰۹ء

مالاکنڈ ڈویژن میں ’’نظامِ عدل ریگولیشن‘‘ کا نفاذ اور اس پر مختلف حلقوں کا ردعمل

مالاکنڈ ڈویژن میں ’’نظامِ عدل ریگولیشن‘‘ کے نفاذ کا اعلان ہوگیا ہے اور صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ جناب امیر حیدر ہوتی نے مالاکنڈ ڈویژن کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد اور ان کے رفقاء کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ تحریک کے مطالبات منظور کر لیے گئے ہیں جن کے تحت سوات سمیت مالاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ کے ضلع کوہستان میں شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو لوگوں کے مقدمات کے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کریں گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ فروری ۲۰۰۹ء

پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا ایک اہم پہلو

عید الاضحٰی کی تعطیلات کے دوران مجھے ایک روز کے لیے صوابی جانے کا موقع ملا، صوابی کے علماء کرام ہر سال عید الاضحٰی کے بعد علاقائی سطح پر علماء کا اجتماع کرتے ہیں، اس سے قبل مجھے اس اجتماع میں ضلع صوابی کے مقام باجہ میں شرکت کا موقع حاصل ہوا تھا، جبکہ اس سال یہ اجتماع صوابی سے آگے ضلع بونیر کے مقام طوطالئی کے مدرسہ حقانیہ میں منعقد ہوا جس سے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ دامت برکاتہم نے بھی خطاب کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۰۸ء

موجودہ ملکی صورتحال میں پاکستان شریعت کونسل کا موقف

عام انتخابات کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے مرکزی مجلس شورٰی کا اجلاس ۲ اگست کو مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں طلب کیا جس میں بعض دیگر ہم خیال دینی راہنماؤں کو بھی خاص طور پر دعوت دی گئی تاکہ ان کی رائے اور مشاورت سے استفادہ کیا جا سکے۔ ان میں سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا اور مولانا عزیز الرحمان ثانی، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، اور مجلس احرار اسلام کے راہنما قاری محمد قاسم احرار نے شرکت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اگست ۲۰۱۸ء

گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں سیرۃ النبیؐ کی تقریب

گزشتہ روز گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا، ڈاکٹر فضل الرحمان ہمارے محترم دوست ہیں اور جامعہ نصرۃ العلوم کی انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے خصوصی متعلقین بلکہ خدام میں سے ہیں۔ ان کی دعوت پر کالج میں منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت ہوئی جس میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر مختلف کالجوں کے طلبہ اور طالبات کے درمیان تقریری مقابلہ کی نشست بھی تھی اور اس میں مجھے جج بنایا گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اگست ۲۰۱۸ء

دینی جدوجہد کے مشترکہ فورم کی ضرورت

گزشتہ دنوں لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کے دو اجتماعات ہوئے جن سے کچھ امید ہونے لگی ہے کہ ملی و دینی مسائل میں دینی حلقوں کے موقف کے اجتماعی اظہار کی کوئی مناسب صورت بن جائے گی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر قومی و ملی امور پر تمام دینی حلقوں کا موقف کم و بیش یکساں ہوتا ہے جس کا اپنی اپنی جگہ وہ اظہار بھی کرتے ہیں لیکن کوئی مستقل فورم ایسا نہیں ہے جس پر وہ اس موقف کا اجتماعی طور پر اظہار کر سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ اکتوبر ۲۰۰۸ء

افغانستان کا مسئلہ ۔ پارلیمنٹ کے اجلاس سے توقعات

افغانستان میں برطانوی افواج کے کمانڈر بریگیڈیئر مازک اسمتھ نے سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ جیتنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کی کوئی صورت اختیار کرنا ہوگی۔ ادھر عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل پیٹریوس نے بغداد میں غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور پاکستان کے بعض علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ختم کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اکتوبر ۲۰۰۸ء

’’ہنگ پارلیمنٹ‘‘

الیکشن گزر چکے ہیں، وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کی سرگرمیاں جاری ہیں، متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیتے ہوئے حلف برداری کی تقریب کے بائیکاٹ اور احتجاجی مہم کی کال دے رکھی ہے، الیکشن کمیشن دھاندلیوں کے وسیع تر اور سنگین الزامات کی زد میں ہے، اور مختلف اطراف سے بیان بازی زور و شور کے ساتھ ہو رہی ہے۔ مگر اس ساری فضا میں ہمارا دکھ قدرے مختلف ہے کہ سب متعلقہ حلقے موجودہ صورتحال کو حالیہ انتخابات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ جولائی ۲۰۱۸ء

پاکستان کے عام انتخابات / امریکی وزارت خارجہ کی مذہبی کانفرنس

عام انتخابات کے نتائج سے پیدا شدہ صورتحال پر اس سرسری تبصرہ کے بعد آج کے کالم میں ایک اور اہم مسئلہ پر کچھ عرض کرنا ضروری اور بروقت معلوم ہوتا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ مذہبی آزادی کے عنوان سے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی کانفرنس منعقد کر رہی ہے جس کا آغاز ۲۹ جولائی کو واشنگٹن میں ہوگا اور وہ مسلسل تین روز تک جاری رہے گی۔ امریکی وزیر خارجہ جناب مائیک پومپیو کے اعلان کے مطابق چالیس سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ، مذہبی راہنما، دانشور، این جی اوز اور انسانی حقوق کے وکلاء اس میں شریک ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جولائی ۲۰۱۸ء

بخاری شریف اور اہل سنت کے علمی مسلّمات

امام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری شریف کا آغاز اس روایت سے کیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، اور آخری حدیث یہ لائے ہیں کہ قیامت کے دن اقول و اعمال کا وزن ہوگا۔ اس سے امام بخاریؒ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ کسی بھی عمل کا ابتدائی مرحلہ اس کی نیت اور ارادہ ہوتا ہے مگر اس کی آخری منزل قیامت کے دن وزنِ اعمال ہے۔ درمیان میں بہت سے مراحل آتے ہیں، اگر ایک مسلمان کا عمل نیت کے اعتبار سے صحیح ہے اور وزنِ اعمال کے مرحلہ تک محفوظ رہا تو وہ اس کے کام آئے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ تا ۱۰ ستمبر ۲۰۰۸ء

عوامی نمائندگی اور سیرتِ طیبہؐ

انتخابات کے موقع پر عام طور پر یہ سوال زیربحث آجاتا ہے اور بعض حلقوں کی طرف سے اس پر اظہار خیال کا سلسلہ بھی چلتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں عوام کی رائے اور ان کے نمائندوں کے چناؤ کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اس سلسلہ میں کوئی راہنمائی ملتی ہے؟ آج اس حوالہ سے کچھ گزارش کرنے کا ارادہ ہے۔ یہ بات تو معروف و مسلم ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جن معاملات میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی ان میں لوگوں سے مشورہ کر کے فیصلے کرتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ جولائی ۲۰۱۸ء

پارلیمنٹ کیسی ہونی چاہیے؟

گزشتہ روز پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی راہنماؤں مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مفتی محمد نعمان پسروری، قاری عبید اللہ عامر، مولانا عبد المالک فاروقی اور قاری محمد عثمان رمضان کے ساتھ فیصل آباد کے دورے پر تھا کہ دوران سفر مفتی محمد نعمان نے ایک پرانا کالم یاد دلایا جس میں عام انتخابات کے کسی موقع پر میں نے لکھا تھا کہ میں پارلیمنٹ میں کن حضرات کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ ان کا تقاضہ تھا کہ وہ کالم دوبارہ شائع ہونا چاہیے مگر حالات میں تغیرات کی وجہ سے میں اپنے جذبات و احساسات کے دائرے میں اس حوالہ سے ازسرنو کچھ عرض کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ جولائی ۲۰۱۸ء

شادی و کفالت اور سزا و جزا کا اسلامی تصور

میری تعلیمی سندِ حدیث والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے حوالہ سے ہے جو شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد ہیں، مگر طالبات کے سامنے بخاری شریف کی روایت میں ایک اور سند کے حوالہ سے پڑھتا ہوں جس میں واسطے کم ہیں اور ایک عظیم محدثہ خاتون بھی اس سند میں شامل ہیں۔ اس سند کے مطابق مجھے مکہ مکرمہ کے ایک معروف شافعی محدث الشیخ ابوالفیض محمد یاسین الفادانیؒ سے مشافہتًا روایت حدیث کی اجازت حاصل ہے اور انہیں الشیخہ امۃ اللہ محدثہ دہلویہؒ سے روایت حدیث کی اجازت حاصل تھی جو معروف محدث شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کی دختر ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ جولائی ۲۰۰۸ء

چند جواہر پاروں کی مکرر اشاعت

میرے نانا جی محترم مولانا محمد اکبرؒ کا تعلق راجپوت جنجوعہ فیملی سے تھا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا اور تو وہ موجودہ تھانہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے عقبی محلہ کی ایک مسجد میں امام و خطیب تھے اور مسجد کے مکان میں ہی ان کی رہائش تھی۔ ان کی وفات تک یہ محلہ میرے کھیل کود اور بچپن کی سرگرمیوں کی جولانگاہ رہا۔ وہ قرآن کریم معروف لہجے میں اچھی طرز سے پڑھتے تھے جو اس دور میں کمیاب تھا۔ مطالعہ کے شوق کے ساتھ ساتھ اس کا عمدہ ذوق بھی رکھتے تھے، دہلی کا ماہنامہ برہان اور لکھنؤ کے دو رسالے النجم اور الفرقان ان کے پاس پابندی سے آتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جولائی ۲۰۱۸ء

شہدائے لال مسجد اور تحفظ ختم نبوت کانفرنسیں

۶ جولائی کو ملک کی مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا جبکہ میں اسی روز کندیاں کی طرف عازم سفر تھا۔ اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ فاجعہ کو ایک سال گزر جانے کے باوجود مسائل کے حل کی طرف کوئی پیشرفت نہ ہونے پر ’’لال مسجد علماء ایکشن کمیٹی‘‘ نے لال مسجد میں ہی احتجاجی کنونشن رکھا ہوا تھا جس کی مشاورت میں شرکت کی مجھے بھی سعادت حاصل تھی اور میں نے مختلف مضامین میں اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جولائی ۲۰۰۸ء

خادم الحرمین الشریفین کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش

آج ۱۶ جولائی کے ایک قومی اخبار نے مکہ مکرمہ میں او آئی سی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی مسلم علماء کانفرنس اور دانشوروں کی حالیہ کانفرنس کے حوالہ سے خادم الحرمین شریفین شاہ سلیمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ تعالیٰ کا ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں جلد از جلد امن کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے افغان حکومت اور طالبان سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالیں اور فرمایا ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن کا قیام سعودی عرب کی ترجیحات میں شامل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جولائی ۲۰۱۸ء

لال مسجد و جامعہ حفصہ کے حل طلب معاملات

لال مسجد کے سانحہ کو ایک برس ہونے والا ہے مگر اس سے متعلقہ مسائل ابھی تک جوں کے توں ہیں اور بظاہر ان کے جلد طے ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف وحشیانہ آپریشن اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم بچیوں اور دیگر افراد کی مظلومانہ شہادت کے ذمہ داروں کی نشاندہی، جامعہ فریدیہ کی مسلسل بندش، جامعہ حفصہ کی دوبارہ تعمیر، مولانا عبد العزیز کی رہائی، اور اس سلسلہ میں درج کیے جانے والے مقدمات کے بارے میں حکومتی پالیسی جیسے اہم مسائل کے بارے میں آج بھی صورتحال وہی ہے جو اب سے گیارہ ماہ قبل تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جون ۲۰۰۸ء

توہینِ رسالتؐ کے خلاف منظم جدوجہد کی ضرورت

ڈنمارک کے اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات میں ایک بار پھر ہلچل پیدا کر دی ہے اور مختلف ممالک میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں بھی متعدد شہروں میں پرجوش مظاہرے ہوئے ہیں اور دھیرے دھیرے یہ احتجاجی مہم ملکی سطح پر منظم ہوتی نظر آرہی ہے۔ ان خاکوں کی اشاعت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق استعمال کر رہے ہیں اس لیے مسلمانوں کو اس سے غصہ میں نہیں آنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ مارچ ۲۰۰۸ء

ووٹ، نتائج اور نئی صورتحال

میں پیر کے دن سے کراچی میں ہوں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سہ ماہی امتحان کی تعطیلات میں تین چار روز کے لیے میں نے کراچی کا پروگرام بنا لیا تھا جہاں جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں مولانا فداء الرحمان درخواستی نے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے تین روزہ تربیتی پروگرام تشکیل دے رکھا تھا جو منگل سے جاری ہے اور کل جمعرات کو صبح آٹھ بجے سے بارہ بجے تک اس کی آخری نشست ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ فروری ۲۰۰۸ء

توہینِ رسالت کے خلاف بیداری کا مظاہرہ کیا جائے

ڈنمارک کے اخبارات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی بات چل رہی ہے اور اس پر عالم اسلام کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے کہ ہالینڈ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے قرآن مجید کے حوالے سے فلم کا مسئلہ کھڑا کر کے ’’یک نہ شد دو شد‘‘ والا معاملہ کر دیا ہے۔ اور عالم اسلام کے حکمرانوں کا رویہ وہی روایتی سا ہے کہ رسمی احتجاج کر کے وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ اپنے تعلق کا ثبوت فراہم کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ مارچ ۲۰۰۸ء

دینی مدارس کی جدوجہد کی تاریخ کا ایک باب

ڈاکٹر ممتاز احمد ہمارے فاضل دوست ہیں، گوجر خان سے تعلق رکھتے ہیں، ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں، ہیمپسٹن یونیورسٹی ورجینیا میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور جنوبی ایشیا کے دینی مدارس ان کی تحقیق و تدریس کا خصوصی موضوع ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کی تحقیقاتی رپورٹوں سے بین الاقوامی حلقوں میں استفادہ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے راقم الحروف کے ایک بہت پرانے مضمون کی فوٹو کاپی ارسال کی ہے جو ان کی فائل میں محفوظ تھا۔ یہ مضمون ’’دینی مدارس کا جرم؟‘‘ کے عنوان سے ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں ۳۱ جنوری ۱۹۷۵ء کو شائع ہوا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جون ۲۰۰۸ء

افغان حکومت اور طالبان کے مبینہ مذاکرات ۔ دو اہم موقف

۱۲ جولائی کے قومی اخبارات میں اے ایف پی کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں او آئی سی کے زیر اہتمام ۱۰۰ کے لگ بھگ مسلم اسکالرز کے ایک اجتماع میں افغان حکومت اور طالبان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنے کی اپیل کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف امارت اسلامیہ افغانستان نے بھی اس سلسلہ میں اپنا موقف جاری کیا ہے، صورتحال کو معروضی تناظر میں صحیح طور پر سمجھنے کے لیے دونوں کا مطالعہ ضروری ہے اس لیے ہم سردست یہ دونوں موقف قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۲۰۱۸ء

حدود آرڈیننس میں ترامیم ۔ چند حقائق

سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حدود کیا ہیں؟ ان کے لیے آرڈیننس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آرڈیننس کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ اہم اعتراضات کیا ہیں؟ تحفظ نسواں بل کے ذریعے اس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟ اس حوالہ سے موجودہ قانونی صورتحال کیا ہے؟ اس سلسلہ میں دینی حلقوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ تا ۳۰ دسمبر ۲۰۰۶ء

موجودہ معروضی حالات اور دینی جدوجہد کا مستقبل

گزشتہ منگل (۱۲ فروری) کو کافی عرصہ کے بعد پشاور جانے کا اتفاق ہوا، جامعہ عثمانیہ میں وفاق المدارس کے زیراہتمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے چار روزہ ’’تدریب المعلمین‘‘ کورس کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کچھ موضوعات پر مجھے بھی اظہار خیال کے لیے کہا گیا۔ وفاق المدارس العربیہ کی مجلس شورٰی نے گزشتہ سال جامعہ عثمانیہ پشاور کے مہتمم مولانا مفتی غلام الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کا مجھے اور مانسہرہ کے مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کو بھی رکن بنایا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ فروری ۲۰۰۸ء

تحریک نفاذ شریعت اور نظام عدل ریگولیشن

بی بی سی کے نشریہ کے حوالے سے روزنامہ پاکستان لاہور ۲۴ جنوری ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سرحد کی نگران حکومت نے اس ’’شرعی نظام عدل ریگولیشن‘‘ میں ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ۱۹۹۴ء میں مولانا صوفی محمد کی سربراہی میں ’’تنظیم نفاذ شریعت محمدی‘‘ کی طرف سے چلائی جانے والی پرجوش عوامی تحریک کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ سرحد جناب آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی حکومت نے نافذ کیا تھا۔ اس تحریک میں کم و بیش تیس ہزار کے لگ بھگ عوام مسلح ہو کر سڑکوں پر آگئے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جنوری ۲۰۰۸ء

اغوا کی وارداتیں اور پولیس کا کردار

بہاولپور کے ایک نوجوان عالم دین مولانا مفتی محمد یوسف کو اغوا ہوئے آج نواں روز ہے اور ان کی رہائی کے لیے آٹھ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر ہمارا حکومتی نظام ہے کہ ابھی تک اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر پا رہا۔ مفتی محمد یوسف دارالعلوم مدینہ (ماڈل ٹاؤن، بہاولپور) کے استاذ ہیں اور دارالعلوم کی طرف سے شائع ہونے والے ماہنامہ جریدہ ’’المصطفٰیؐ‘‘ کے مدیر ہیں۔ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد صاحب بہاولپور میں ہی حفظ قرآن کریم کا ایک مدرسہ چلا رہے ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اتنی بڑی رقم ادا کر سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء

برطانیہ میں اسلامی اداروں کی سرگرمیاں اور نوٹنگھم پولیس چیف سے ملاقات

عید الاضحٰی کی تعطیلات میں ہفتہ عشرہ کے لیے برطانیہ جانے کا موقع ملا۔ شعبان اور رمضان المبارک کے دوران برطانیہ اور امریکہ جانے کا معمول ہے لیکن اس سال امریکہ کا ویزا تاخیر سے ملنے کی وجہ سے یہ سفر نہیں کر سکا تھا اور اس کی برطانیہ کی حد تھوڑی سی ’’قضا‘‘ عید الاضحٰی کے موقع پر ہوگئی۔ ۲ جنوری کو گلف ایئر کے ذریعے سے بحرین اور پھر لندن پہنچا اور واپسی پر گلف ایئر کے ذریعے ہی ۱۰ جنوری کو لندن سے روانہ ہو کر قطر ایئرپورٹ پر چند گھنٹے رکنے کے بعد ۱۱ جنوری کی شام اسلام آباد پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء

تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کا نفاذ اور مجلس تحفظ حدود اللہ کا قیام

’’مجلس تحفظ حدود اللہ پاکستان‘‘ کے کراچی کنونشن کے بعد اس سلسلہ میں جدوجہد نے جو صورتحال اختیار کر لی ہے وہ بہت سے حوالوں سے غور طلب ہے اور دینی حلقوں سے سنجیدہ توجہ کا تقاضا کر رہی ہے۔ حکمران حلقوں نے اس حوالے سے واضح موقف اختیار کر لیا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے، وہ اس کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے خیال میں تحفظ حقوق نسواں کے عنوان سے نافذ شدہ ایکٹ پر نظرثانی کی کوئی گنجائش ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۲۰۰۶ء

تحفظ حقوق نسواں بل اور اسلامی نظریاتی کونسل

اسلامی نظریاتی کونسل نے گزشتہ روز صدر جنرل پرویز مشرف کی زیر صدارت اجلاس میں ’’تحفظ نسواں بل‘‘ کی حمایت کی ہے اور اسے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی طرف اہم قدم قرار دیا ہے۔ جبکہ اس سے قبل کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ تحفظ حقوق نسواں بل کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے کوئی باقاعدہ رائے قائم نہیں کی البتہ انہوں نے اور کونسل کے بعض ارکان نے ذاتی طور پر صدر جنرل پرویز مشرف کو اس بل کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ دسمبر ۲۰۰۶ء

الرشید ٹرسٹ کی فلاحی و رفاہی خدمات

گزشتہ روز ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ کے ایک ہال میں ’’الرشید ٹرسٹ‘‘ کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ الرشید ٹرسٹ رفاہی شعبہ میں اپنی خدمات کا تسلسل نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اس میں پیشرفت بھی ہو رہی ہے۔ اس پروگرام میں گوجرانوالہ کے کم و بیش دو سو خاندانوں کو رمضان المبارک پیکج کے عنوان سے اشیائے خورد و نوش کی صورت میں امدادی سامان تقسیم کیا گیا اور بتایا گیا کہ اس طرح کی امدادی سرگرمیاں ملک کے مختلف حصوں میں جاری ہیں اور ہزاروں خاندانوں تک امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ اکتوبر ۲۰۰۶ء

پوپ کا بیان ۔ وضاحتیں یا لیپاپوتی؟

پاپائے روم نے اس بات پر افسوس اور صدمہ کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں ان کی تقریر کے بعض حصوں کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ویٹی کن سٹی کے سیکرٹری آف اسٹیٹ کارڈینل، ٹارسیسیو برٹون کے ایک وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ پوپ بینی ڈکٹ نے امید ظاہر کی ہے کہ مسلمان ان کی بات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق پاپائے روم نے یہ بھی کہا ہے کہ جن الفاظ کے حوالے سے مسلمان اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ء

میاں محمد نواز شریف کو سزا کا ایک توجہ طلب پہلو

میاں نواز شریف کو ان کی بیٹی اور داماد سمیت جو سزا سنائی گئی ہے اس پر ایک عرصہ تک تبصروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب سے اٹھارہ برس قبل جب میاں صاحب موصوف کو طیارہ سازش کیس میں سزا سنائی گئی تھی تو اس وقت کے حالات کی روشنی میں ایک کالم میں اس پر ہم نے تبصرہ کیا تھا جو ۱۱ اپریل ۲۰۰۰ء کو روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں شائع ہوا تھا، اسے دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جولائی ۲۰۱۸ء

دینی تعلیم کے مختصر کورسز ۔ ضرورت و اہمیت

گزشتہ روز تھوڑی دیر کے لیے فیصل آباد جانا ہوا، ملت ٹاؤن میں واقع جامعہ دارالارشاد والاصلاح میں ’’فہم دین کورس‘‘ کے آغاز کی تقریب تھی۔ مولانا محمد اشرف ہمدانی کا شمار ایک دور میں ملک کے معروف خطباء میں رہا ہے۔ جس دور میں وہ گوجرانوالہ کی جامع مسجد پل لکڑ والا میں خطیب تھے، میرا طالب علمی کا آخری دور تھا۔ اس کے بعد وہ جناح کالونی فیصل آباد کی مرکزی جامع مسجد میں خاصا عرصہ خطیب رہے اور اب ملت ٹاؤن فیصل آباد میں مذکورہ بالا عنوان سے ادارہ قائم کر کے سرگرم عمل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۰۶ء

اسٹیل ملز کیس پر عدالت کا فیصلہ اور حکومت کا ردعمل

پاکستان اسٹیل ملز کراچی کی نجکاری کے حوالہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ پر مختلف حلقوں کی طرف سے متنوع ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عام طور پر یہ فیصلہ لوگوں کی خوشی کا باعث بنا ہے، اس حوالہ سے بھی کہ ملک کا ایک اہم اثاثہ اخباری رپورٹوں کے مطابق اونے پونے بکنے سے بچ گیا ہے اور اس حوالہ سے بھی کہ عدالت عظمیٰ نے حکومت وقت کے خلاف ایک اہم فیصلہ دے کر اس تاثر کو کم کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت اعلیٰ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے میں اکثر کامیابی حاصل کر لیتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ جولائی ۲۰۰۶ء

انتخابی امیدواروں سے دینی و قومی تقاضوں کی پاسداری کا وعدہ لیا جائے

بحمد اللہ تعالیٰ پاکستان شریعت کونسل کی اس تجویز کو مسلسل پذیرائی حاصل ہو رہی ہے کہ انتخابی امیدواروں سے دینی و قومی مقاصد کے لیے تحریری وعدہ لینے کا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ الیکشن کے اصل مقاصد کی طرف ملک کے منتخب نمائندوں کو توجہ دلائی جا سکے اور جس کام کے لیے انہیں منتخب کیا جاتا ہے متعلقہ اسمبلیوں میں وہ اس کی انجام دہی کا اہتمام کر سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۲۰۱۸ء

اجتہاد ۔ اعتدال کی راہ کیا ہے؟

’’اجتہاد‘‘ موجودہ دور میں زیربحث آنے والے اہم عنوانات میں سے ایک ہے اور یہ دین کی تعبیر کے حوالے سے قدیم و جدید حلقوں کے درمیان کشمکش کی ایک وسیع جولانگاہ ہے۔ اس پر دونوں طرف سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اور جب تک قدیم و جدید کی بحث جاری رہے گی یہ موضوع بھی تازہ رہے گا۔ اجتہاد کے حوالے سے اس وقت عام طور پر دو نقطۂ نظر پائے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۲۰۰۶ء

فکری ارتداد اور تشکیک کی مہم

یہ فکری ارتداد اب منظم اور مربوط انداز میں آگے بڑھ رہا ہے اور اسے بین الاقوامی لابیوں، عالمی میڈیا اور عالمی تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ بہت سی مسلم حکومتوں، این جی اوز اور مغربی فکر و فلسفہ سے متاثر و مرعوب مسلم دانشوروں کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس فکری یلغار کی خصوصی جولانگاہ ہے۔ ہم ایک عرصہ سے علمائے کرام، دانشوروں اور دینی مدارس و مراکز سے گزارش کر رہے ہیں کہ اس فکری ارتداد کی ماہیت، مقاصد اور طریق کار کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور نئی نسل کو اس سے بچانے کے لیے مربوط و منظم محنت کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جولائی ۲۰۰۶ء

ملکی صورتحال پر مغرب میں مقیم پاکستانیوں کی تشویش

مغرب میں مقیم بہت سے مخلص پاکستانیوں کی طرح یہ دوست بھی اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ پاکستان میں امارت بھی بڑھتی جا رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی غربت میں بھی پیہم اضافہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، علاج کی سہولتیں غریب آدمی کے لیے ناپید ہیں، سڑکوں اور راستوں کا برا حال ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور عام آدمی کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں مشورہ دیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جون ۲۰۰۶ء

تحریک ختم نبوت کا مرحلہ وار جائزہ اور ذکری مذہب کا تعارف

راقم الحروف کو تحریک ختم نبوت کے مرحلہ وار جائزہ اور ذکری مذہب کے تعارف کے دو عنوانات پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی چنانچہ ایک نشست میں تحریک ختم نبوت کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا اور دوسری نشست میں ’’ذکری مذہب‘‘ کے ساتھ امریکہ کی ’’نیشن آف اسلام‘‘ کو شامل کر کے ان دو مذاہب کا مختصر تعارف کرایا۔ تحریک ختم نبوت کے بارے میں عرض کیا کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک دائرہ علمی اور فکری جدوجہد کا ہے اور دوسرا دائرہ رائے عامہ کو قادیانیت کے خلاف بیدار اور منظم کرنے کی تحریکی جدوجہد کا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ مئی ۲۰۰۶ء

Pages