مقالات و مضامین

پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ کی ملاقات

پاکستان کے وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری اور اسرائیل کے وزیر خارجہ سلوان شلوم کے درمیان گزشتہ دنوں استنبول میں ہونے والی ملاقات حسب توقع دنیا بھر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور اس کے حق میں اور خلاف دلائل دیے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کوئی بھی دو ملک آپس میں کسی بھی سطح پر رابطہ کر سکتے ہیں اور ان کے درمیان ملاقات و مذاکرات کا اہتمام ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ پاکستان نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور اسرائیل کے بارے میں پاکستان عوام کے جذبات میں شدت و حساسیت پائی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۵ء

ریاست مدینہ کی منزل اور نئی حکومت سے عوام کی توقعات

۲۵ جولائی کے انتخابات میں منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھا لیا ہے اور وزیر اعظم کے طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کو ملک کا نیا حکمران منتخب کر لیا گیا ہے، جو کرپشن سے پاک پاکستان اور ریاست مدینہ طرز کی رفاہی ریاست کے عزم و اعلان کے ساتھ اپنی حکومت کا آغاز کر رہے ہیں۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا اور سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات و اعتراضات کا جو بازار گرم گیا، پھر اپوزیشن کی کم و بیش سبھی پارٹیوں نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالہ سے اپنے تحفظات و خدشات کا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۸ء

مارچ میں ’’سہ روزۂ ختم نبوت‘‘

’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کا سب سے بڑا محاذ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ’’مجلس احرار اسلام پاکستان‘‘ اور ’’انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ‘‘ پوری دل جمعی کے ساتھ اس محاذ پر مسلسل سرگرم عمل ہیں، جبکہ مختلف مذہبی مکاتبِ فکر کی متعدد دیگر جماعتیں بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت ؐ کے تحفظ کی جدوجہد مسلمانوں کے تمام حلقوں اور طبقات کی مشترکہ محنت سے جاری ہے اور اس کے لیے جو بھی کسی دائرہ میں کام کر رہا ہے لائق تحسین ہے اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۱۸ء

توہینِ رسالتؐ کی سزا کا قانون اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۳ اپریل ۱۹۹۴ء میں شائع ہونے والی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی آف پاکستان نے گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے حوالہ سے (۱) وزیر داخلہ جناب نصیر اللہ بابر (۲) وزیر قانون جناب اقبال حیدر (۳) وزیر امور بہبود آبادی جناب جے سالک ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۱۹۹۴ء

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اور جنرل مشرف سے دو سوال

”حمود الرحمن کمیشن“ کی رپورٹ کا ایک حصہ بالآخر حکومت نے شائع کر دیا ہے اور اس طرح ملک کے عوام کو کم و بیش تیس سال بعد وطن عزیز کے دولخت ہونے اور مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش کے قیام کے اسباب و عوامل کو براہ راست جاننے اور ان کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ کمیشن سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کے المناک سانحہ کے بعد اس کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کے لیے سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس حمود الرحمن مرحوم کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جنوری ۲۰۰۱ء

سعودی عرب اور اقوام متحدہ میں قادیانیوں کی سرگرمیاں

حرمین شریفین اور حجاج کرام و معتمرین کی مسلسل خدمت کی وجہ سے سعودی عرب پورے عالم اسلام کی عقیدتوں کا مرکز ہے، اور حرمین شریفین کے تقدس و تحفظ کے حوالہ سے سعودی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی و یکجہتی کا اظہار بلاشبہ ہمارے ایمانی تقاضوں میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی دینی و ملی امور میں راہنمائی کے لیے مسلمانوں کا سعودی عرب بالخصوص ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ اور سعودی علماء و مشائخ کی طرف متوجہ رہنا بھی فطری امر ہے، چنانچہ ۱۹۷۴ء کے دوران جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مسئلہ درپیش تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ ستمبر ۲۰۱۹ء

افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت اور وزیر داخلہ کا اعتراف حقیقت

وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل جناب معین الدین حیدر نے گزشتہ دنوں دارالعلوم کورنگی کراچی میں علماء کرام سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی مدد کرنا حرام ہے لیکن مجبوری کی حالت میں حرام کھانا بھی جائز ہو جایا کرتا ہے۔ اس طرح معین الدین حیدر اپنی تمام تر تلخ نوائی اور دھمکیوں کے باوجود اصولی طور پر ہمارے ساتھ اس موقف میں متفق ہوگئے ہیں کہ امارات اسلامی افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی مدد کرنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء

ریفرنڈم کی دلدل

صدر محمد ایوب خان مرحوم کا ریفرنڈم مجھے یاد نہیں ہے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا، البتہ اتنی سرگرمیاں اس دور کی ذہن کی یادداشت کے خانے میں محفوظ ہیں کہ نئے دستور کے لیے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی قیادت میں نظام العلماء پاکستان نے کچھ تجاویز مرتب کی تھیں جنہیں عرضداشت کے طور پر وزارت قانون کو مختلف شہروں سے خطوط کی شکل میں بھجوانے کی مہم جاری تھی اور گکھڑ میں اس پر دستخط کرانے کے لیے میں نے بھی تھوڑا بہت کام کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اپریل ۲۰۰۲ء

قرآن فہمی میں حدیث و سنت کی اہمیت

بھیرہ کی جامع مسجد اور بگوی خاندان ہماری علمی و دینی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ دہلی کی ولی اللہی درسگاہ سے لے کر بادشاہی مسجد لاہور کی خطابت اور بھیرہ میں حزب الانصار کی تعلیمی و اصلاحی سرگرمیوں تک ایک پوری تاریخ ہے جس کا احاطہ ایک یا دو مضمون نہیں کر سکتے۔ اس دینی مرکز اور علمی خاندان کی سب سے اہم خصوصیت وہ توازن اور اعتدال ہے جو اہل سنت اور حنفی مکتب کے دو بڑے گروہوں دیوبندی اور بریلوی کے درمیان اختلافات کی شدت کے دور میں بھی دونوں کے سرکردہ حضرات کو یکجا کرنے کے اہتمام سے ظاہر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۱۹۹۹ء

کیا پاک بھارت انضمام ممکن ہے؟

مولانا فضل الرحمن نے دورہ بھارت سے واپسی پر بعض اخبارات میں شائع ہونے والی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے گول میز کانفرنس کی کوئی تجویز پیش کی ہے، انہوں نے کہا کہ وہ ”اکھنڈ بھارت“ کے حامی نہیں ہیں اور نہ ہی اس سلسلہ میں انہوں نے کوئی بات کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اس وضاحت کے بعد ہمارے خیال میں اس حوالہ سے گفتگو کو آگے بڑھانے کی گنجائش باقی نہیں رہی، لیکن مسئلہ صرف مولانا فضل الرحمن کا نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جولائی ۲۰۰۳ء

جنرل پرویز مشرف کے بارے میں قادیانیوں کی خوش فہمی

مرزا طاہر احمد اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی صورت میں انہیں ایک ایسا حکمران میسر آگیا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کے حوالہ سے اپنے عزائم کی تکمیل کر سکیں گے، اسی لیے مرزا طاہر احمد اور ان کے ساتھ قادیانی جماعت مختلف دائروں میں پہلے سے زیادہ متحرک اور سر گرم دکھائی دے رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی سے پاک کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف مہم کے عنوان سے جنوبی ایشیا میں امریکہ اور اس کی قیادت میں عالمی اتحاد کی سرگرمیوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ مئی ۲۰۰۲ء

مذہب کا کارڈ اور دینی مدارس کے طلبہ

’’آزادی مارچ‘‘ کے لیے مولانا فضل الرحمان اور جمعیۃ علماء اسلام کی ملک گیر سرگرمیاں دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہا ہوں اور مختلف دوستوں کے متنوع سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ میں نے ان سرگرمیوں کے آغاز پر ایک کالم میں لکھا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا موقف اور رخ دونوں میرے خیال میں درست ہیں مگر رفتار اور لہجے کے حوالہ سے کچھ تحفظات ذہن میں موجود ہیں، یہ تحفظات ابھی تک قائم ہیں یا ان میں کچھ فرق پڑا ہے اس کے بارے میں کچھ دنوں کے بعد ہی عرض کر سکوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ ستمبر ۲۰۱۹ء

جناب صدر! پاکستان ”آئیڈیل ازم“ کے لیے بنا ہے

صدر جنرل پرویز مشرف نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بہت کچھ فرمایا ہے اور ریفرنڈم مہم کے لیے جن پبلک جلسوں کا حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے ان میں بھی صدر محترم کچھ فرمائیں گے۔ انہوں نے آئندہ سیاسی نظام کے لیے اپنی ذات کو محور بنانے اور آئینی ترامیم کے حوالہ سے اپنی سوچ کو واحد بنیاد قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی روایات کی پاسداری معروضی حالات میں ان کا ”حق“ بنتا ہے کیونکہ پاکستان کے ہر چیف آف آرمی سٹاف کو عملاً ملک میں سب سے بڑے ”پاور بروکر“ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اپریل ۲۰۰۲ء

دستور کو چھیڑنا خطرناک ہوگا

جناب محمد رفیق تارڑ ایوان صدر سے رخصت ہو کر لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر آرام کر رہے ہیں اور بعض اخبارات کی رپورٹ کے مطابق ان کا ارادہ اب مطالعہ کتب اور لکھنے پڑھنے کا ہے۔ وہ ملک میں دستور کی آخری علامت کے طور پر باقی رہ گئے تھے اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے فوجی حکام کے تقاضے پر استعفیٰ دینے سے انکار کیا مگر ان کے انکار کے باوجود انہیں پی سی او کے تحت سبکدوش کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا اور ان منتخب اداروں کے سربراہوں کو بھی ان کے مناصب سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جولائی ۲۰۰۱ء

’’حسبہ بل‘‘ پر عدالت عظمیٰ کا نیا فیصلہ

بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق صوبہ سرحد کے وزیر قانون ملک ظفر اعظم سپریم کورٹ آف پاکستان میں ”حسبہ بل“ کے مقدمہ میں ناکامی پر دل برداشتہ ہو گئے ہیں اور وزارت سے مستعفی ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ حسبہ بل صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت نے عوامی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنے کے لیے پیش کیا تھا، جسے صوبائی اسمبلی نے منظور کر لیا لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے چیلنج کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس بل کی تین دفعات کو دستور کے منافی قرار دے دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ فروری ۲۰۰۷ء

’’پاکستان، ترکی یا الجزائر نہیں ہے‘‘

متحدہ مجلس عمل کے اعلٰی سطحی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور اسلامی رہے گا، اس کے دستور کی بنیاد اسلام پر ہے اس لیے کوئی چاہے بھی تو پاکستان کو سیکولر ریاست نہیں بنا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی جا رہی اور نہ ہی اس کی اسلامی دفعات سے کوئی تعرض کیا جا رہا ہے۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر متحدہ مجلس عمل الیکشن میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو وہ اسے اقتدار منتقل کر دیں گے کیونکہ پاکستان ترکی یا الجزائر نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء

گوادر ڈپلومیسی

صدر جنرل پرویز مشرف بھارت کے کامیاب دورے سے واپس آگئے ہیں اور ان کے دورے کے مختلف پہلوؤں پر قومی اور بین الاقوامی پریس میں گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے۔ جس رات جنرل پرویز مشرف آگرہ سے واپس اسلام آباد آئے صبح کے اخبارات کی جلی سرخیوں میں دورے کو ناکام قرار دے کر بھارت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ ایک دو روز کے بعد دورے کو ناکام کی بجائے نامکمل کہنا شروع کر دیا گیا۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دورہ نامکمل تھا نہ ناکام، بلکہ صدر مشرف نے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو وہ اس دورے سے حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ آگرہ سے اپنے مشن میں کامیاب ہو کر واپس لوٹے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۲۰۰۱ء

صدر پرویز مشرف کے دس سوالات کا جائزہ

صدر جنرل پرویز مشرف کے جس خطاب کا پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں انتظار کیا جا رہا تھا وہ چند دن پہلے سن لیا گیا ہے اور اس پر مختلف اطراف سے تبصروں کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ ہم اس خطاب کے مختلف پہلوؤں پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں مگر پہلے ایک فنی کوتاہی کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے جو ٹی وی پر صدر پرویز مشرف کا خطاب سنتے ہوئے ہمیں محسوس ہوئی ہے، وہ یہ کہ صدر صاحب کی تقریر کے ساتھ ساتھ نشر ہونے والے انگلش ترجمہ کا نظم معیاری نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء

نظریۂ ضرورت اور ایڈہاک ازم

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے معاملہ نے اس قدر حیران و ششدر کر رکھا ہے کہ کئی بار قلم اٹھانے کے باوجود اس کالم کے لیے کچھ نہ لکھ سکا اور یہ زندگی کا پہلا تجربہ ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور میں اپنے ہفتہ وار کالم ”نوائے قلم“ کے لیے ایک مختصر سا مضمون لکھنے کے بعد قلم کو بریک سی لگ گئی اور بمشکل آج ذہن کو آمادہ کر پا رہا ہوں کہ اس کے بارے میں پھر قلم اٹھاؤں اور جو کچھ سامنے آ چکا ہے اس کے بارے میں کچھ معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کر دوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ مارچ ۲۰۰۷ء

فیصلے سے قبل ہی سزا

جسٹس افتخار محمد چودھری نے جب اسٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے فیصلہ دیا تو یہ خدشہ اسی وقت سے ذہن پر منڈلانے لگا تھا کہ ”کچھ ضرور ہو گا“۔ پھر جب پتنگ بازی کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سامنے آیا تو خدشے کا دائرہ وسیع ہو نے لگا، جب کہ بہت سے دیگر کیسوں میں چیف جسٹس کے برق رفتار فیصلوں نے بھی اس خدشے کو خطرے کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن سچی بات ہے کہ اس صورتحال کا ذہن کے کسی گوشے میں وہم و گمان بھی نہ تھا جس کا ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو سامنا کرنا پڑا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ مارچ ۲۰۰۷ء

جسٹس افتخار محمد چودھری کا تاریخی خطاب

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجتماع سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کا خطاب میں نے لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری کے گھر بیٹھ کر سنا۔ مجھے ۵ مئی کو لاہور سے لندن کے لیے سفر کرنا تھا، اسی روز جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب کے لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب کی خبر اخبارات میں پڑھی تو دو حوالوں سے تشویش ہوئی، ایک اس حوالہ سے کہ جب وہ گوجرانوالہ سے گزریں گے تو میں ان کے استقبال میں شریک نہیں ہو سکوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ مئی ۲۰۰۷ء

برطانوی استعمار اور امریکی استعمار کے مزاج کا فرق

تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر ایک بات عرصہ سے محسوس کر رہا ہوں اور کبھی کبھار نجی محافل میں اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے مگر اب اس احساس میں قارئین کو شریک کرنے کو جی چاہ رہا ہے، وہ یہ کہ ہر استعمار کا الگ مزاج ہوتا ہے اور اس کے اظہار کا اپنا انداز ہوتا ہے، ہم نے برطانوی استعمار کے تحت دو صدیاں گزاری ہیں، ایک صدی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ماتحتی میں اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ تاج برطانیہ کی غلامی میں گزار کر ۱۹۴۷ء سے آزاد قوم کی تختی اپنے سینے پر لٹکائے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ ستمبر ۲۰۱۹ء

سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ توجہ درکار ہے

وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے بارے میں زیر سماعت مقدمہ کو غیر متعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا ہے اور چیف جسٹس صاحب نے اس کے ساتھ یہ ریمارکس دیے ہیں کہ جس دور میں سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت کے حالات مختلف تھے اس لیے ان حالات میں نافذ کیے گئے قوانین و احکام کو آج کے دور پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، جبکہ مقدمہ کے التوا کے اسباب میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے ’’ربٰوا‘‘ کی جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ مروّجہ سود سے مختلف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۷ء

پسند کی شادیاں اور طلاق کی شرح

روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۱۱ نومبر ۲۰۱۷ء کو شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیں: ’’پسند کی شادیاں کرنے والی پندرہ سو لڑکیوں نے شادی کے ایک برس بعد ہی طلاقیں لے لیں۔ قانونی ماہرین نے پسند کی شادیوں کو معاشرے کے لیے بوجھ قرار دے دیا ہے۔ رواں برس میں جنوری سے نومبر تک لاہور کی سول عدالتوں نے دو ہزار خواتین کو طلاق کے سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جن میں پندرہ سو خواتین پسند کی شادیاں کرنے والی شامل ہیں۔ ان عدالتوں نے یہ سرٹیفکیٹس یکم جنوری سے یکم نومبر کے درمیانی عرصہ کے دوران جاری کیے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۱۷ء

قادیانی مسئلہ پر قوم کے شکوک و شبہات

انتخابی قوانین میں ترامیم کے حوالہ سے پارلیمنٹ کے منظور کردہ حالیہ بل میں قادیانیوں سے متعلق بعض شقوں میں تبدیلی کے انکشاف نے ملک بھر میں اضطراب کی ایک نئی لہر پیدا کر دی تھی، چنانچہ ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند ہونے پر قومی اسمبلی نے ترامیم کا قادیانیوں سے متعلقہ حصہ واپس لے کر سابقہ پوزیشن بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ملک میں شکوک و شبہات اور بے چینی کا ماحول موجود ہے اور مختلف دینی و قانونی حلقوں کی طرف سے صورتحال کا ازسرنو جائزہ لینے پر زور دیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۷ء

اسلام کے خاندانی قوانین اور عدالتی فیصلوں کی صورتحال

روزنامہ انصاف لاہور میں ۲۳ اگست ۲۰۱۷ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے اکٹھی تین طلاقیں دینے کے عمل کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے اس پر چھ ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی ہے اور حکومت ہند سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اس دوران قانون سازی کرے۔ یہ مسئلہ کافی عرصہ سے بھارت کی سپریم کورٹ میں چل رہا تھا اور ہم اس سے قبل ان صفحات میں اس پر اظہار خیال کر چکے ہیں اور اب اس کا ذکر کرنے کا مقصد دینی و علمی حلقوں کو اس طرف ایک بار پھر توجہ دلانا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۷ء

آزاد کشمیر میں شرعی عدالتوں کے نظام کا تحفظ ضروری ہے

۱۰ جولائی کو پلندری جانے کا اتفاق ہوا، جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف خان کے بیٹے کا ولیمہ تھا، اس موقع پر آزاد کشمیر کے بعض سرکردہ علماء کرام نے توجہ دلائی کہ ریاست آزاد و جموں کشمیر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر ججز اور قاضی صاحبان پر مشتمل جو دو رکنی عدالتیں کام کر رہی ہیں، ان کی بساط دھیرے دھیرے لپیٹی جا رہی ہے اور ہائیکورٹ کی سطح پر جو شرعی عدالت مصروف عمل ہے اس کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس سامنے آچکا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۷ء

تبدیلی کا مثالی فارمولا

ان دنوں ملک و قوم کے نظام اور معاشرتی صورتحال میں بہتری لانے کے دعوے ہر طرف سے کیے جا رہے ہیں، اور حکومت و اپوزیشن کے سب لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے موجودہ حالات کو بدلنا اور عوام کو ایک بہتر نظام اور سوسائٹی سے روشناس کرانا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ایک دوسرے پر کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے سنگین الزامات بھی مسلسل دہرائے جا رہے ہیں اور ایک عجیب سی صورتحال ملک میں پیدا ہو گئی ہے جس سے عام شہری پریشان ہیں اور انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ قومی راہنماؤں میں کس کا رخ کدھر کو ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۹ء

دینی مدارس اپنے آزادانہ کردار سے کیوں دستبردار نہیں ہوتے؟

دینی مدارس کا نظام ایک بار پھر ریاستی اداروں کے دباؤ کی زد میں ہے اور یہ کوشش نئے سرے سے شروع ہو گئی ہے کہ مدارس دینی تعلیم کے فروغ کے سلسلہ میں اپنے آزادانہ کردار سے دستبردار ہو کر خود کو بیوروکریسی کے حوالہ کر دیں۔ چنانچہ روزنامہ انصاف لاہور میں ۱۶ ستمبر ۲۰۱۶ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والی متعدد میٹنگوں کے بعد وفاقی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ تمام دینی مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم کے انتظام میں دے دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۱۶ء

نتن یاہو، نریندرا مودی کے نقش قدم پر

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے حوالہ سے ایک خبر سوشل میڈیا میں مسلسل گردش کر رہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ آئندہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تو غرب اردن کے بعض علاقوں کو وہ باقاعدہ اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔ اسرائیل کی جو سرحدیں اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے موقع پر طے کی تھیں، ان کے علاوہ اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ بین الاقوامی دستاویزات میں متنازعہ سمجھے جاتے ہیں، اور غرب اردن کا وہ علاقہ بھی ان میں شامل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ ستمبر ۲۰۱۹ء

کشمیر اور افغانستان کی تازہ صورتحال پر ایک نظر

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ میکنزی کے درمیان گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات خطہ کی موجودہ صورتحال بالخصوص کشمیر اور افغان مسئلہ کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے دور رس نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔ افغانستان کے حوالہ سے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ایک عرصہ سے جاری مذاکرات اچانک ڈیڈلاک کا شکار ہوگئے ہیں اور عین اس وقت جب کہ مذاکرات کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کی خبروں کے ساتھ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۲۰۱۹ء

کیا اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ صاحب کے ارشاد کے حوالہ سے آپ کا کالم نظر سے گزرا۔ میری طالب علمانہ رائے میں ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمۃ کا ارشاد بالکل بجا ہے کہ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کے درجہ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے، وہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ معمول کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں ملت اسلامیہ نے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۳ء

مذہب و ثقافت کی عالمی کشمکش اور چین کے صدر محترم

روزنامہ انصاف لاہور میں ۲۵ اپریل ۲۰۱۶ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے: ’’چینی صدر شی جن پنگ نے ملک کی مذہبی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ اپنی اقدار کو چینی ثقافت اور کمیونسٹ پارٹی سے ہم آہنگ بنائیں، چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق انہوں نے یہ بات بیجنگ میں پارٹی کے مذہب کے بارے میں خدوخال بتاتے ہوئے کہی، صدر شی نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی خدا سے زیادہ اہم ہے، مذہبی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے وابستہ رہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۶ء

اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان عالمی کشمکش ۔ نیوٹ کنگرچ کے خیالات

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۱۷ جولائی ۲۰۱۶ء کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں: ’’واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی ایوان نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ کنگرچ نے کہا ہے کہ جو مسلمان شریعت پر یقین رکھتے ہیں انہیں امریکہ سے نکال دیا جائے۔ اس سے قبل امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں، جبکہ ایوان نمائندگان (کانگریس) کے سابق اسپیکر نیوٹ کنگرچ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مغربی تہذیب حالت جنگ میں ہے، شریعت مغربی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۶ء

اسلام مخالف مہم اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری

صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین نے گزشتہ روز رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی حفظہ اللہ تعالیٰ سے ایوان صدر اسلام آباد میں ملاقات کے دوران دو اہم باتوں کا ذکر کیا ہے جس کی طرف نہ صرف رابطہ عالم اسلامی بلکہ عالم اسلام کے دیگر بین الاقوامی اداروں اور علمی و دینی مراکز کو بھی فوری توجہ دینی چاہیے۔ ایک بات یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر چلائی جانے والی مہم اور پروپیگنڈا کا مؤثر جواب دینے کی ضرورت ہے اور صدر محترم کے نزدیک رابطہ عالم اسلامی اس کے لیے موزوں فورم ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۱۵ء

اردو زبان کے حوالہ سے سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک ماہ سے بھی کم مدت تک چیف جسٹس رہنے والے فاضل جج محترم جسٹس جواد ایس خواجہ گزشتہ روز ریٹائر ہو گئے ہیں مگر ریٹائر منٹ سے پہلے انہوں نے سپریم کورٹ کے فل بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے ایک ایسا تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے جو ملک کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور آئندہ نسلیں یقیناً انہیں دعائیں دیتی رہیں گی۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے بارے میں یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنی ہیں کہ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران نہ کوئی سرکاری پلاٹ لیا اور نہ ہی امتیازی پروٹوکول اور مراعات سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۱۵ء

سودی نظام کے خلاف جدوجہد میں دینی حلقوں کی ذمہ داریاں

جامعۃ الرشید کراچی میں گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سودی بینکاری سے نجات حاصل کرنے کے لیے غیر سودی بینکاری کا تجربہ ضروری ہے اور اس وقت اس حوالہ سے جو محنت ہو رہی ہے اس کی اصلاح اور مزید بہتری کے لیے کوششوں کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر جناب سعید احمد نے جامعۃ الخیر لاہور میں ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سودی بینکاری کا متبادل شرعی نظام موجود ہے مگر اسے چلانے کے لیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۱۶ء

دینی مدارس کی جدوجہد اور مقتدر طبقات کی روش

۳ اپریل ۲۰۱۶ء کو لاہور میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیراہتمام ملک بھر کے دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور معاونین لاکھوں کی تعداد میں ’’استحکام پاکستان کانفرنس‘‘ کے عنوان سے جمع ہو کر ملکی صورتحال اور دینی مدارس کی معاشرتی جدوجہد کے حوالہ سے اپنے موقف اور عزائم کا ایک بار پھر اظہار کر رہے ہیں جو بلاشبہ اہل حق کی جدوجہد اور تاریخ کا اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ آج دینی مدارس کی یہ محنت اپنے علمی و فکری ماحول اور دینی و تہذیبی اثرات و نتائج کے حوالے سے دنیا بھر میں ہر سطح پر بحث و گفتگو کا موضوع ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۶ء

بھارتی سپریم کورٹ کا ایک افسوسناک فیصلہ

ممتاز بھارتی کالم نگار ڈاکٹر وید پرتاب ویدک کے روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۱ جولائی ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والے کالم کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’بھارت کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک انقلابی فیصلہ دیا ہے، اس نے ایک غیر شادی شدہ والدہ کی اس اپیل کو قبول کر لیا ہے کہ اس کا بچہ اپنے والد کی بجائے اپنی والدہ کا نام لکھے، اب ایسے بچوں کو اپنے والد کا نام لکھنا بتانا ضروری نہیں ہوگا۔ عدالت کا یہ فیصلہ پڑھتے ہی میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ہم سب بھارتی ہر جگہ اپنی ماں کا نام لکھیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۵ء

ایران کا ایٹمی سمجھوتہ اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل

ایران کے ساتھ چھ بڑے ممالک کے ایٹمی سمجھوتے پر دنیا بھر میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے، ایران میں اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے جشن کا سماں ہے، اقتصادی پابندیوں کے ختم ہو جانے پر ہر طرف خوشی منائی جا رہی ہے اور اسے ایران کی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ معروضی صورتحال میں ہمیں بھی اس سے اختلاف نہیں ہے مگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو اسے حالات کے جبر اور طاقت کی حکمرانی کے روایتی طریقِ کار کی ایک بار پھر توثیق کے علاوہ اور کوئی عنوان نہیں دیا جا سکتا کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۱۵ء

انسانی حقوق سیکرٹریٹ اور علمی اداروں کی ذمہ داری

روزنامہ انصاف لاہور میں ۱۸ اگست ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق: ’’وزیر اعظم نواز شریف نے انسانی حقوق سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دے دی ہے جو انسانی حقوق سے متعلق عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا، وزارت قانون نے نظام انصاف کو مؤثر بنانے اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اصلاحات پر مبنی سمری وزیر اعظم کو بھجوائی تھی جس کی روشنی میں وزیر اعظم نے انسانی حقوق سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دے دی ہے۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۱۵ء

عوام میں حلال و حرام کا شعور بیدار کرنے کی مہم

روزنامہ اوصاف لاہور نے ۱۴ اکتوبر ۲۰۱۵ء کی ایک خبر میں بتایا ہے کہ: ’’پنجاب حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی کے چیئرمین جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں سور کے گوشت اور دیگر حصوں کو ۱۰۰ سے زائد کھانے والی اشیا میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کو مسلمان بھی انجانے میں استعمال کر رہے ہیں، اس لیے علماء کرام عوام میں حلال و حرام کے استعمال کے حوالہ سے شعور پیدا کریں کہ صرف گوشت ہی حلال اور حرام نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۵ء

امت مسلمہ اور اقوام متحدہ ۔ چند ضروری گزارشات

روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق: ’’پاکستان نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ اسلام کی غلط اور غیر معقول عکاسی کرنے والوں کے خلاف کاروائی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکمت عملی بنائی جائے اور اسلام کے خلاف متعصبانہ رویے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں اسلامی عقائد کی تعصب پر مبنی کردارکشی کی روک تھام پر بھرپور توجہ دی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۵ء

سزائے موت کا قانون اور پاپائے روم

روزنامہ جنگ کراچی ۲۲ فروری ۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے: ’’کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ موت کی سزا ختم کر دینی چاہیے، تمام حکومتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مشترکہ رائے سے موت کی سزا کو ختم کر دیں، کیونکہ اس طرح حکومتیں کسی انسان کی ہلاکت کی مرتکب نہیں ہوں گی۔ ویٹی کن سٹی میں سینٹ پیٹرز اسکوائر میں پوپ نے ہزاروں عقیدت مندوں سے خطاب کرتے ہوئے پوری دنیا بھر کے مسیحیوں کو تلقین کی ہے کہ وہ موت کی سزا کے خاتمہ کے لیے اپنی کوشش شروع کر دیں۔‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۱۶ء

امت مسلمہ کی حالت زار اور اہل دین کی ذمہ داری

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی آج ہمارے سامنے ایک زندہ حقیقت کی صورت میں جلوہ گر ہے کہ ’’تداعت علیکم الامم تداع الاکلۃ علی قصعتھا‘‘ دنیا کی قومیں تم مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے تیار دسترخوان پر کوئی میزبان اپنے مہمان کو کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ آج ہم مسلمان دنیا کی قوموں کے سامنے ’’تر لقمہ‘‘ کی صورت میں بکھرے پڑے ہیں اور استعماری عزائم رکھنے والی ہر قوم حسب استطاعت اپنا حصہ وصول کرنے میں مصروف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ ستمبر ۲۰۱۹ء

ریاست مدینہ کی ایک ’’این جی او‘‘

معروف مفسر و مؤرخ حافظ ابن کثیرؒ اور دیگر مفسرین نے سورۃ التوبۃ کی آیات ۱۰۷ تا ۱۱۰ کی تشریح میں مختلف روایات کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار کے قبیلہ بن خزرج کا ایک شخص ابو عامر جو پہلے سے عیسائی ہوگیا تھا اور مسیحیت کا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کثرت عبادت کی وجہ سے راہب کہلاتا تھا، وہ بھی جناب نبی اکرمؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ علاقہ میں اس کا اپنا ایک حلقہ قائم ہو چکا تھا اور اس کی عقیدت کا ماحول پایا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اگست ۲۰۱۹ء

اردو زبان اور حکومتی رویہ

ان دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اردو زبان کے بارے میں حکومتی رویہ پر بحث جاری ہے اور فاضل جج صاحبان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حوالہ سے اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس ضمن میں روزنامہ اوصاف لاہور میں ۲۵ اپریل ۲۰۱۵ء کو ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے حوالہ سے شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیں۔ ’’دنیا بھر میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں سے اردو دوسری بڑی زبان بن چکی ہے جبکہ اول نمبر پر آنے والی زبان چینی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۵ء

دینی مدارس کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے خیالات

وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید کی ایک تقریر کے کچھ اقتباسات ان دنوں قومی پریس میں زیر بحث ہیں جو انہوں نے گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے اور جس میں انہوں نے دینی مدارس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ہماری نفسیات کا حصہ ہے کہ بچوں کو بھی علم سے محروم رکھو اور بڑوں کو بھی علم سے محروم رکھو، اب کتاب تو وجود میں آچکی، اسکول تو وجود میں آچکے، جب پاکستان بنتا ہے، یہ انگریز کا تحفہ ہے، اس کو بند نہیں کیا جا سکتا، اس سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۵ء

یمن کا تنازعہ اور عالمِ اسلام کی ذمہ داری

یمن کا تنازعہ رفتہ رفتہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو اس خاص رُخ کی طرف لے جا رہا ہے جس کی نشاندہی ہم ایک عرصہ سے کرتے آ رہے ہیں کہ اس خطہ میں ایران اور سعودی عرب کی کشمکش نے سنی شیعہ کشیدگی کو خانہ جنگی کا مستقل محاذ بنا دیا ہے اور دن بدن اس کے دائرے میں وسعت دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتحال کے پیچھے اصلاً تو امریکی استعمار، اسرائیل اور ان کے ہمنوا عالمی حلقے ہیں جن کی دلچسپی شروع سے اس بات میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب اور مسلمان ممالک کے درمیان کوئی ایسی وحدت اور اشتراکِ عمل وجود میں نہ آ سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۵ء

دیوبند کے حالیہ سفر کی مختصر روداد

شیخ الہندؒ ایجوکیشنل چیریٹی ٹرسٹ دیوبند کی دعوت پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے وفد کے ہمراہ دیوبند دہلی اور بھارت کے بعض دیگر شہروں میں حاضری اور متعدد بزرگوں سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے شیخ الہند ؒ کی تحریک ریشمی رومال کو ایک صدی مکمل ہونے پر صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا اور اسی کے تحت ۱۳ و ۱۴ دسمبر ۲۰۱۳ء کو دیوبند میں اور ۱۵ دسمبر کو دہلی میں ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۴ء

Pages