مقالات و مضامین

وفاق کا اجلاس اور روزنامہ پاکستان کا اداریہ

بات اگر روزنامہ پاکستان کے ادارتی نوٹ کی نہ ہوتی تو لال مسجد اور وفاق المدارس کے مسئلہ پر مزید کچھ لکھنے کا ارادہ نہ تھا، کیونکہ اس کے بارے میں جو کچھ لکھ چکا ہوں، بعض تند و تلخ جوابات کے باوجود اس میں کسی اضافے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ میں مناظرانہ اسلوب اور طعن و تشنیع کی زبان کا عادی نہیں ہوں اور اپنی بات وضاحت کے ساتھ بیان کر کے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا کرتا ہوں کہ وہ دونوں طرف کی بات پڑھ لیں اور پھر اس کے مطابق جو رائے وہ قائم کر سکیں، کر لیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اگست ۲۰۰۷ء

قومی تعلیمی کمیشن کے سوالنامہ کے جوابات

(حکومت پاکستان کے قائم کردہ قومی تعلیمی کمیشن کی خصوصی کمیٹی نمبر ۵ کے کنوینر جناب جسٹس (ریٹائرڈ) محمد ظہور الحق کی طرف سے دینی مدارس اور عصری اسکولوں و کالجوں کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی کے سلسلہ میں ماہرین تعلیم کو ارسال کیے جانے والے سوالنامہ کا مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے جواب۔) سوالنامہ: محترم و مکرم، السلام علیکم! حکومت پاکستان نے شریعت کے نفاذ کے لیے اپنی کاوشوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ شریعت بل ۱۹۹۱ء کے تحت قومی تعلیمی کمیشن برائے اسلامائزیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۲ء

جامعہ حفصہ کی طالبات کا احتجاج اور اعتدال کی راہ

اسلام آباد میں حکومت کی طرف سے گرائی جانے والی مساجد کا مسئلہ حکومت اور علماء کے درمیان مذاکرات اور بظاہر ایک سمجھوتے تک پہنچ جانے کے باوجود زیادہ گھمبیر اور پریشان کن ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں تک مسجدوں کو گرانے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں اصولی موقف گزشتہ کالم میں ہم بیان کر چکے ہیں اور اب بھی اسی موقف پر قائم ہیں کہ اگر کسی مناسب اور موزوں سرکاری زمین پر علاقہ کے لوگوں نے اپنی ضرورت کے تحت مسجد بنا لی ہے اور مسجد بن جانے کے بعد سرکاری محکموں نے اپنی ڈیلنگ میں اسے مسجد کے طور پر قبول کر لیا ہے تو وہ شرعی مسجد بن گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ فروری ۲۰۰۷ء

مولانا عبد العزیز کی طرف سے شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان

جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات اور مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبد العزیز کی مسلسل تگ و دو کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے، اس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم اس سے قبل اس مہم کے حوالے سے اس کالم میں معروضات پیش کر چکے ہیں اور گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل اس کا خلاصہ ایک بار پھر قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جہاں تک اسلام آباد کی مساجد کے تحفظ، ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ اور معاشرہ میں فواحش و منکرات کے سدباب کے حوالے سے ان کے موقف اور مطالبات کا تعلق ہے تو ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اپریل ۲۰۰۷ء

سانحہ لال مسجد اور احتجاج کا موزوں طریقہ کار

گزشتہ ہفتے گوجرانوالہ شہر کے کچھ سرکردہ علمائے کرام میرے ہاں جمع ہوئے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحہ کے حوالے سے کوئی مؤثر احتجاجی پروگرام ہونا چاہیے اور ہمیں اس سلسلے میں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے اور سانحہ لال مسجد میں جو کچھ ہوا ہے، میں خاموش تماشائی کے طور پر اسے دیکھتے رہنے کے حق میں نہیں ہوں مگر سوال یہ ہے کہ اس کا صحیح پلیٹ فارم کون سا ہے اور معروضی صورتحال میں کس عنوان اور فورم سے احتجاج منظم کرنا اور آواز بلند کرنا زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ جولائی ۲۰۰۷ء

دینی مدارس کی تقریبات اور انتظامیہ کا رویہ

دینی مدارس میں سالانہ تقریبات کا آغاز ہو گیا ہے اور ختم بخاری شریف و دستاربندی کے عنوانات سے پروگرام شروع ہو چکے ہیں جن کا سلسلہ رمضان المبارک تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔ یہ دینی مدارس کے تعلیمی نوعیت کے پروگرام ہوتے ہیں جن میں معاونین کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کے والدین اور دیگر متعلقہ احباب کو شریک کرنے کا اہتمام بھی کر لیا جاتا ہے جس سے یہ پروگرام ایک طرح کے سالانہ تعلیمی کانووکیشن کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ مگر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ کے مصداق ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ فروری ۲۰۲۰ء

روہنگیا مسلمان ۔ عالمی عدالت انصاف کا ایک مستحسن فیصلہ

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۴ جنوری ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیں: ’’عالمی عدالت انصاف نے میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کا حکم دے دیا، نسل کشی کے خلاف ۱۹۴۸ء کے کنونشن کے تحت افریقی ریاست گیمبیا کی درخواست پر اقدامات کی منظوری دیتے ہوئے عالمی کورٹ کے جج عبد القوی احمد یوسف نے درخواست گزار ملک کو مقدمے کی کاروائی مزید آگے بڑھانے کی اجازت دے دی ہے، عدالت نے میانمار کی حکومت کو پابند بنایا کہ وہ مسلمان کمیونٹی کے خلاف اپنی فوج کے ظالمانہ اقدامات روکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ فروری ۲۰۲۰ء

مدارس کی رجسٹریشن اور یکساں نصاب تعلیم کا مسئلہ

ملک بھر کے دینی مدارس کی محکمہ تعلیم کے تحت ازسرنو رجسٹریشن اور ’’لازمی یکساں تعلیمی نصاب‘‘ کے حوالہ سے دینی حلقوں بالخصوص اساتذہ و طلبہ میں بعض ابہامات کے باعث جو تشویش پائی جاتی ہے اس کا مختلف دائروں میں اظہار ہو رہا ہے اور اس کا سلسلہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے۔ گزشتہ اتوار کو جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں میری معمول کی حاضری کے موقع پر ملی مجلس شرعی پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین تشریف لائے اور ملک کے مختلف شہروں میں اس سلسلہ میں آگاہی اور بیداری کو عام کرنے کے لیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جنوری ۲۰۲۰

اسلامی اصولِ فقہ کا خط و کتابت کورس

اسلامی علوم میں ’’اصول فقہ‘‘ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس علم میں ان اصول و ضوابط پر بحث کی جاتی ہے جن کے ذریعے قرآن و سنت سے احکام و مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے اور اسلامی قوانین و ضوابط کی درجہ بندی اور تشریح کی جاتی ہے۔ آج کی اصطلاح میں اسے ’’اصول قانون‘‘ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے، لیکن آج کے معروف اصول قانون کی بہ نسبت ’’اصول فقہ‘‘ کا دائرہ زیادہ وسیع اور اس کے پہلو زیادہ متنوع ہیں۔ البتہ اس کی بنیادی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اسے ’’اصول قانون‘‘ کی اصطلاح میں بیان کر دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ مئی ۲۰۰۵ء

لال مسجد کا معاملہ اور مولانا عبد العزیز کا عمومی خط

لال مسجد اسلام آباد کے حوالے سے درپیش مسئلہ زیادہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف حکومتی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر مفاہمت کا کوئی راستہ نہ نکلا تو آپریشن ناگزیر ہو جائے گا اور دوسری طرف لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے ملک بھر میں اپنے ہم خیال حضرات سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور ان کی طرف سے مدارس کے طلبہ کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچیں اور وہاں کی مختلف مساجد میں اعتکاف بیٹھیں، جس سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام آباد میں جمع کر کے حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ اپریل ۲۰۰۷ء

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مذاکرات میں علماء کا رویہ: چند توضیحات

حامد میر صاحب ہمارے محترم دوست ہیں، تجربہ کار صحافی اور تجزیہ نگار ہیں، میرے محسن ہیں کہ کسی درجے میں چھوٹی موٹی کالم نگاری کر رہا ہوں تو اس کا باعث وہی ہیں کہ انہوں نے اور مولانا اللہ وسایا قاسم شہیدؒ نے مل کر مجھے اس راہ پر لگایا تھا۔ میں سالہا سال تک روزنامہ اوصاف، اسلام آباد میں حامد میر صاحب کی ٹیم کے ایک رکن کے طور پر ’’نوائے قلم‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتا رہا ہوں اور جب انہوں نے روزنامہ اوصاف سے علیحدگی اختیار کی تو میں بھی اوصاف کے ساتھ رفاقت قائم نہ رکھ سکا۔ حامد میر صاحب انتہائی باخبر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ جولائی ۲۰۰۷ء

عقلی مصالح کی بنیاد پر منصوص احکام میں اجتہاد

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر و نواہی اور قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام و فرائض کا عقل و مصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں: ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے اور بس! اس سے زیادہ ان میں غور و خوض کرنا اور ان میں مصلحت و معقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل و مصلحت پر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

جامعۃ الرشید کی فکری نشستوں میں حاضری

جامعۃ الرشید نے عصر حاضر کے تقاضوں اور ضروریات کی طرف علمائے کرام کو متوجہ کرنے اور ان کی روشنی میں نئی کھیپ تیار کرنے کے لیے جو کام شروع کر رکھا ہے، وہ یقیناً دلی خوشی کا باعث بنتا ہے اور بے ساختہ دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کریں۔ آمین یا رب العالمین۔ جامعہ کے اساتذہ کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد طویل نشست ہوئی جس میں ملک کی عمومی صورتحال اور دینی جدوجہد کے علاوہ نوجوان علماء کی ذہنی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کے حوالے سے بہت سے امور زیر بحث آئے اور باہمی تبادلہ خیالات ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ ستمبر ۲۰۰۵ء

دینی مدارس کا نظام و نصاب اور عصر حاضر کے تقاضے

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ۱۸۵۷ء میں متحدہ ہندوستان کے باشندوں کی مسلح تحریک آزادی کی ناکامی اور دہلی پر باضابطہ برطانوی حکومت قائم ہونے کے بعد جب دفتروں اور عدالتوں سے فارسی زبان اور فقہ حنفی پر مبنی قانونی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی تو فارسی اور عربی کے ساتھ فقہ اسلامی اور دیگر متعلقہ علوم کی تعلیم دینے والے مدارس کے معاشرتی کردار پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا اور ہزاروں مدارس اس نوآبادیاتی فیصلے کی نذر ہو گئے۔ اس پر حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی جماعت کے کچھ بچے کھچے درویش صفت بزرگوں نے دیوبند، سہارنپور، مراد آباد اور ہاٹ ہزاری میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ جولائی ۲۰۰۷ء

احکام شرعیہ کی تعبیر کا ایک اہم پہلو

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران چار روز کے لیے صوبہ سندھ جانے کا موقع مل گیا اور کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص اور پتھورو میں مختلف اجتماعات میں شرکت کے علاوہ بعض سرکردہ بزرگوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کا ارشاد تھا کہ میں جو مغربی فلسفہ اور انسانی حقوق کے حوالے سے باتیں کرتا رہتا ہوں، اس کے بارے میں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں دورۂ حدیث، درجہ موقوف علیہ اور تخصص کے طلبہ کے سامنے لیکچر دوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اپریل ۲۰۰۵ء

اہل علم کے ’’تفردات‘‘ اور توازن و اعتدال کی راہ

برادر محترم مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب زید لطفکم۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ مزاج گرامی؟ گرامی نامہ موصول ہوا۔ یاد فرمائی کا شکریہ! آپ کا ارشاد بجا ہے اور ہم نے اس نمبر میں ایک مستقل باب ’’نقد و نظر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے تفردات کی نشاندہی کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ’’خطبات بہاولپور‘‘ پر کسی علمی نقد کی تلاش میں تھے کہ آپ کا گرامی نامہ موصول ہو گیا اور ہمارا کام آسان ہوگیا۔ اس پر آپ کا بطور خاص شکر گزار ہوں۔ فجزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء

رؤیت ہلال اور اختلاف مطالع

سرحد اسمبلی کی اس متفقہ قرارداد نے رویت ہلال کے مسئلہ پر ایک بار پھر ہلچل پیدا کر دی ہے کہ مرکزی رویت ہلال کو توڑ دیا جائے اور رمضان المبارک اور عیدین وغیرہ کے نظام کو سعودی عرب کے ساتھ منسلک کر کے جس روز سعودیہ میں چاند کا اعلان ہو، اس کے مطابق روزہ اور عید کا پاکستان میں بھی اعلان کر دیا جائے۔ گزشتہ سال رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کے حوالے سے صوبہ سرحد اور باقی ملک میں جو بدمزگی پیدا ہو گئی تھی اس کے پس منظر میں سرحد اسمبلی کی یہ متفقہ قرارداد خصوصی اہمیت کی حامل ہے جس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اکتوبر ۲۰۰۴ء

حدود آرڈیننس کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر چند گزارشات

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب نے حدود آرڈیننس کے بارے میں کونسل کی نئی عبوری رپورٹ اخبارات کے لیے جاری کر دی ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حدود آرڈیننس میں ترامیم سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس پر تفصیلی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ کو ہم نے ’’نئی‘‘ اس لیے کہا ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ سے قبل بھی اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر غور کیا تھا اور ایک تفصیلی رپورٹ دی تھی جسے اس آرڈیننس کی تدوین میں بنیاد بنایا گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ اگست ۲۰۰۶ء

انسانی کلوننگ اسلامی نقطہ نظر سے

کلوننگ کا مسئلہ اس وقت علمی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر دنیا بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ کلوننگ کے تکنیکی پہلوؤں کے بارے میں کچھ عرض کرنا تو ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ یہ اہل فن کا کام ہے اور ہم اس فن سے نابلد ہیں، البتہ انسانی زندگی اور سوسائٹی پر اس عمل کے اثرات اور اس کے ممکنہ نتائج و ثمرات کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ کلوننگ کا عمل کیا ہے یا کم از کم ہم اسے کیا سمجھتے ہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ تا ۲۰ فروری ۲۰۰۳ء

یکساں نصاب تعلیم اور دینی مدارس

دینی مدارس کے وفاقوں کی مشترکہ تنظیم ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے قائدین کے ساتھ وفاقی وزیر تعلیم کے چند ماہ قبل ہونے والے مبینہ معاہدہ کے بارے میں جن تحفظات کا مختلف سطحوں پر کچھ دنوں سے اظہار ہو رہا ہے اس کے پیش نظر وفاقوں کی قیادت کی طرف سے اپنے موقف کا واضح اظہار اور دینی مدارس کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ اور معاونین کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگیا تھا، جس کا آغاز پشاور سے ہوا ہے اور امید ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کا اہتمام کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جنوری ۲۰۲۰ء

کراچی میں تین چار دنوں کی مصروفیات

کراچی میں تین چار دن گزار کر رات گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا ہوں۔ میں حسب معمول جامعہ انوار القرآن میں سالانہ کورس کے لیے گیا تھا، اس دفعہ کورس کا موضوع ’’قرآن کریم اور انسانی سماج‘‘ تھا اور شرکاء دورۂ حدیث اور تخصص فی الافتاء کے طلبہ پر مشتمل تھے۔ جاتے ہوئے عجیب اتفاق ہوا کہ مجھے ۵ جنوری کو رات پی آئی اے سے سفر کرنا تھا، لاہور سے ساڑھے آٹھ بجے کی فلائیٹ پر سیٹ کنفرم تھی، لاہور پہنچا تو پتہ چلا کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے جبکہ متبادل کسی ایئرلائن سے آٹھ جنوری تک کوئی سیٹ میسر نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جنوری ۲۰۲۰ء

کوالالمپور کانفرنس کا اعلامیہ اور اسلامی تعاون تنظیم کا متوقع اجلاس

آج کے کالم میں ہم گزشتہ دنوں کوالالمپور میں منعقد ہونے والی بیس سے زیادہ مسلم ممالک کی سربراہی کانفرنس کے اعلامیہ کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں جو کانفرنس کے داعی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرف سے جاری کیا گیا ہے ،اور اسے عالم اسلام کے مسائل و مشکلات کی طرف امت مسلمہ کو توجہ دلانے کی ایک سنجیدہ کوشش قرار دیتے ہوئے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کانفرنس میں شریک نہ ہونے کے حوالہ سے حکومت پاکستان کے فیصلے اور اس کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی طرف سے سامنے آنے والی تحسین کی بحث میں پڑے بغیر ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جنوری ۲۰۲۰ء

حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستیؒ

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ملاقات کے بعد گوجرانوالہ روانگی کا پروگرام تھا، حضرت سے رات سونے سے قبل رابطہ ہوا تو فرمایا کہ کل ظہر آپ میرے ساتھ پڑھیں گے اور پھر کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ پروگرام طے کر کے ہم سو گئے مگر صبح اذان فجر سے قبل آنکھ کھلی تو موبائل نے صدمہ و رنج سے بھرپور اس خبر کے ساتھ ہمارے دن کا آغاز کیا کہ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کا رات اسلام آباد میں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جنوری ۲۰۲۰ء

مجلس احرار اسلام ۔ تحریک خلافت کا تسلسل

بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کے دوران جب ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف یورپی حکومتوں کی سازشیں صاف طور پر نظر آنے لگیں اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے آثار نمودار ہوئے تو برصغیر (پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش) کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ خلافت عثمانیہ نے کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی خدمت کی ہے اور حرمین شریفین مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کی پہرہ داری کا مقدس فریضہ سر انجام دیا ہے۔ مشرقی یورپ جہاں کچھ عرصہ قبل بوسنیا اور کوسووو کے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے اس خطہ میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ دسمبر ۲۰۱۹ء

دینی مدارس کے بارے میں حالیہ سرکاری اقدامات

مالیاتی نگرانی کے بین الاقوامی ادارے (FATF) نے حکومت پاکستان کو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ بھجوایا ہے جس میں زیادہ تر سوالات دینی مدارس کے حوالہ سے ہیں اور ۸ جنوری تک اس کا جواب طلب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ حکومت اور ’’اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ اس بات پر متفق ہیں کہ ملک بھر کے تمام دینی مدارس وفاقی وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ہوں گے اور تمام دینی مدارس کے طلبہ اگلے چار سال میں سرکاری بورڈ کے تحت امتحانات دیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۱۹ء

کوالالمپور کانفرنس اور امت مسلمہ کی صورتحال

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں مسلم حکمرانوں کی سہ روزہ عالمی کانفرنس مختلف اہم اعلانات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی ہے جس سے مسلم دنیا کے معاملات ایک نیا رخ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اور کچھ مسائل جن پر اب تک بعض حلقوں میں گفت و شنید کا ماحول پایا جاتا تھا ان پر اب قدرے وسیع دائرے میں بحث و مباحثہ کا سلسلہ چل نکلا ہے، جو وقت کی ضرورت بھی ہے کہ مسلم امہ کی موجودہ صورتحال اور اس کے بیشتر مسائل و مشکلات کے حل نہ ہو سکنے کی وجوہ و اسباب پر بحث و تمحیص بہرحال دن بدن ناگزیر ہوتی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ دسمبر ۲۰۱۹ء

بین الاقوامی معاہدات اور ہماری ملی ضروریات

جوں جوں بین الاقوامی معاہدات کا حصار تنگ ہوتا جا رہا ہے، ان معاہدات سے آگاہی اور ان پر بحث و تمحیص کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور مختلف علمی مراکز میں ان کے حوالہ سے آگاہی و بیداری کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکادمی ملک بھر کے اصحاب فکر و نظر کے شکریہ اور تبریک کی مستحق ہے کہ وہ اس فکری و علمی مہم کی قیادت میں پیش پیش ہے جس میں پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر حبیب الرحمان اور ان کے رفقاء کی دلچسپی اور تگ و دو علماء و طلبہ کے لیے حوصلہ افزا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ دسمبر ۲۰۱۹ء

شریعت بل، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور اجتہاد

صدر مملکت کی طرف سے قومی اسمبلی توڑے جانے کے بعد عوامی سطح پر شریعت بل کے بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ اگرچہ وقتی طور پر رک گیا ہے اور شریعت بل کی منظوری اور نفاذ کے بارے میں لوگ ۲۴ اکتوبر کو معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن اہل دانش کے ہاں شریعت بل پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ ملک کے دو معروف قانون دانوں ریٹائرڈ جسٹس جناب جاوید اقبال اور جناب ملک امجد حسین ایڈووکیٹ کے مضامین گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحات کی زینت بنے ہیں جن میں شریعت بل کے حوالہ سے چند نکات زیر بحث لائے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۱۹۹۰ء

دینی و عصری تعلیم کے مشترکہ نصاب و نظام کے بارے میں بعض تحفظات

روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد (۱۲ دسمبر) کی خبر کے مطابق حکومت اور دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان مبینہ طور پر طے پانے والے معاہدہ کے مطابق نئے مجوزہ سسٹم کے تحت دینی مدارس کے کوائف مرتب کرنے اور ان کی رجسٹریشن کا کام شروع ہوگیا ہے اور متعلقہ محکموں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ جبکہ کوائف کے سوالنامہ میں اس خبر کے مطابق آمدنی کے ذرائع بتانے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ یہ نیا سلسلہ کیا ہے اور اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ متعلقہ محکموں اور ان کے افسران کے طرز عمل سے سارا منظر چند روز تک واضح ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ دسمبر ۲۰۱۹ء

وجدانیات اور نفسیات کے حوالہ سے مغرب کا طرز عمل

۲۸ نومبر ۲۰۱۹ء کو معہد الخلیل الاسلامی کراچی میں ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کے درس کے دوران وجدانیات اور نفسیات کے حوالہ سے مغرب کے طرز عمل پر کچھ گفتگو ہوئی تو درجہ ثانیہ عربی کے طالب علم محمد معاذ الحسینی نے ایک دلچسپ سوال تحریری صورت میں کیا جس کا سرسری جواب تو وہاں زبانی دے دیا مگر بعد میں تحریری جواب بھی بھجوایا۔ سوال و جواب دونوں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ سوال: آپ کے آج کے بیان سے جو ذہن کے دریچے کھلے ہیں اور بہت سے سوالوں کی تفشی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۲۰۱۹ء

حدود و تعزیرات سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جسے اس غرض سے تشکیل دیا گیا تھا کہ دستور پاکستان میں ملک کے تمام مروجہ قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی جو ضمانت دی گئی ہے، وہ اس کی تکمیل کے لیے حکومت پاکستان کی مشاورت کرے۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ جدید قانون کے ممتاز ماہرین اور جید علمائے کرام پر مشتمل ایک کونسل تشکیل دی جاتی ہے جو حکومت کے استفسار پر یا اپنے طور پر ملک میں رائج کسی قانون کا اس حوالے سے جائزہ لیتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء

شریعت کی تعبیر و تشریح اور علامہ محمد اقبالؒ

ان دنوں قومی اخبارات میں ’’عورت کی حکمرانی‘‘ کے بارے میں بحث کا سلسلہ چل رہا ہے اور عورت کی حکمرانی کے جواز اور عدم جواز پر دونوں طرف سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔ جو حضرات عورت کی حکمرانی کو شرعاً جائز نہیں سمجھتے وہ اپنے موقف کے حق میں قرآن کریم کی آیت کریمہ ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ کے علاوہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اور امت کا چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل پیش کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون و جولائی ۱۹۹۲ء

’’عصر حاضر میں اجتہاد ۔ چند فکری و عملی مباحث‘‘

اجتہاد کے حوالے سے اس وقت عام طور پر دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں: (۱) ایک یہ کہ دین کے معاملات میں جتنا اجتہاد ضروری تھا وہ ہو چکا ہے، اب اس کی ضرورت نہیں ہے، اس کا دروازہ کھولنے سے دین کے احکام و مسائل کے حوالے سے پنڈورا بکس کھل جائے گا اور اسلامی احکام و قوانین کا وہ ڈھانچہ جو چودہ سو سال سے اجتماعی طور پر چلا آرہا ہے، سبوتاژ ہو کر رہ جائے گا ۔ ۔ ۔ (۲) جب کہ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اجتہاد آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے، دین کے پورے ڈھانچے کو اس عمل سے دوبارہ گزارنا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ دسمبر ۲۰۰۷ء

ترکی میں احادیث کی نئی تعبیر و تشریح ۔ علمی شخصیات و مراکز کی خدمت میں ایک اہم مکتوب

مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مزاج گرامی؟ برادر مسلم ملک ترکی کے حوالے سے ایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے جو اس عریضہ کے ساتھ منسلک ہے کہ اس کی وزارت مذہبی امور نے احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے پورے ذخیرے کی ازسرنو چھان بین اور نئی تعبیر و تشریح کے کام کا سرکاری سطح پر آغاز کیا ہے جو اس حوالے سے یقیناً خوش آئند ہے کہ ترکی نے اب سے کم و بیش ایک صدی قبل ریاستی و حکومتی معاملات سے اسلام اور مذہبی تعلیمات کی لاتعلقی کا جو فیصلہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۲۰۰۸ء

امت مسلمہ کو درپیش فکری مسائل: چند اہم گزارشات

’’عصر حاضر میں اسلامی فکر ۔ چند توجہ طلب مسائل‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون کم و بیش ربع صدی قبل تحریر کیا گیا تھا لیکن اس کی اہمیت و افادیت آج بھی موجود ہے بلکہ مسائل کی فہرست اور سنگینی میں کمی کے بجائے اس دوران میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر مسائل خود میرے مطالعہ کا موضوع رہے ہیں اور بعض مسائل پر کچھ نہ کچھ لکھا بھی ہے مگر یہ خواہش رہی ہے کہ ایجنڈا اور تجاویز کے طور پر ایسے مسائل کی ایک مربوط فہرست سامنے آجائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۲ء

حضرت لاہوریؒ کی جدوجہد و خدمات کی ایک جھلک

شیرانوالہ گیٹ لاہور میں عالمی انجمن خدام الدین کا دو روزہ سالانہ اجتماع آج شروع ہوگیا ہے جو کل شام تک جاری رہے گا اور اس میں سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کے مشائخ اور متوسلین کے علاوہ علماء کرام اور کارکنوں کی بھرپور شرکت رہے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔ اجتماع کے اشتہار میں اسے ۱۰۲ واں اجتماع بتایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انجمن خدام الدین ایک صدی مکمل کر کے دوسری صدی میں داخل ہو گئی ہے اور یہ بات بہرحال خوشی کی ہے کہ اس کا تسلسل اور سرگرمیاں بدستور جاری ہیں، اللہ تعالٰی ترقیات اور ثمرات سے ہمیشہ بہرہ ور فرماتے رہیں، آمین ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ دسمبر ۲۰۱۹ء

امت مسلمہ کے مسائل اور عالمی قوتوں کی ’’اصول پرستی‘‘

آج کی ایک خبر کے مطابق امریکی کانگریس کے ایک سو پینتیس (۱۳۵) ارکان نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومیو کے فلسطین میں یہودی بستیوں کی حمایت پر مبنی بیان کی شدید مذمت کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کا موقف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن مساعی کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی ارکان کانگریس کی طرف سے تیار کردہ پٹیشن میں وزیرخارجہ مائیک پومیو سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غرب اردن میں یہودی آباد کاری کی حمایت سے متعلق اپنا بیان واپس لیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۲۰۱۹ء

بلاول بھٹو زرداری سے چند گزارشات

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی جگہ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت مکمل کرنے تک ان کے والد جناب آصف علی زرداری کو شریک چیئرمین کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، جبکہ مخدوم امین فہیم کو آئندہ وزارت عظمی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی آئندہ قیادت کے خدوخال کچھ نہ کچھ واضح ہوگئے ہیں۔ چیئرمین شپ کو بھٹو خاندان میں رکھنا ہمارے خطے کی روایتی مجبوری ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۸ء

جامعہ حفصہ کی تعمیر نو اور ’’تحریک طالبان و طالبات اسلام‘‘

سپریم کورٹ کے حکم پر لال مسجد کے کھل جانے کے بعد سے وہاں نماز وغیرہ کی معمول کی سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں۔ عدالت عظمٰی نے لال مسجد کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کا ازخود نوٹس لینے کے بعد اس سلسلہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے دائر کی جانے والی رٹ اور غازی عبد الرشید شہید کے خاندان کی طرف سے دی جانے والی درخواستوں کو یکجا کر دیا ہے اور ان سب پر مجموعی طور پر کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔ جس میں لال مسجد کے دوبارہ کھولے جانے اور جامعہ حفصہ کی ازسرنو تعمیر کا معاملہ بھی شامل ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء

پاکستان اسٹیل ملز اور عدالت عظمیٰ

۱۹۷۰ء کے عام انتخابات سے پہلے جب ملک میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو وہ میری سیاسی اور خطابتی زندگی کا ابتدائی دور تھا۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز سے عقیدت زیادہ تھی جو اب بھی ہے، ان کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی افکار سے سب سے زیادہ متاثر تھا اور اسی مناسبت سے استعمار دشمنی کی بات کسی طرف سے بھی ہو، اچھی لگتی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کا اجتماعی ذوق بھی یہی تھا (جو اب پس منظر میں چلا گیا ہے)۔ اس حوالے سے لیفٹ کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہمارا میل جول زیادہ رہتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اگست ۲۰۰۶ء

عدلیہ کی بحالی اور دستور و قانون کی بالادستی

سپریم کو رٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب اعتزاز احسن اور وکلاء تحریک کے دیگر قائدین جسٹس (ر) طارق محمود اور جناب علی احمد کرد دوبارہ نظر بند کر دیے گئے ہیں۔ اس سے یہ بات پھر واضح ہوگئی ہے کہ صدر پرویز مشرف اور ان کی حکومت دستور کی بالادستی اور پی سی او کے تحت معزول کیے جانے والے معزز جج صاحبان کی بحالی کے بارے میں ملک بھر کے قانون دانوں اور رائے عامہ کی بات پر توجہ دینے کے لیے ابھی تک تیار نہیں۔ لیکن کیا اس طرح وکلاء کی قیادت کو ان سے دور رکھ کر اس تحریک کو دبایا جا سکے گا؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ فروری ۲۰۰۸ء

وکلاء اور علماء کے مابین ایک ملاقات کا احوال

وکلاء کی تحریک کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جج صاحبان کی بحالی کے لیے نئی حکومت جن عزائم کا اظہار کر رہی ہے، پوری قوم کو ان میں پیشرفت کا بے چینی کے ساتھ انتظار ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی رہائش گاہ زبردستی خالی کرانے کی بھونڈی حرکت نے جہاں نومنتخب وزیر اعظم کو جسٹس خلیل الرحمن رمدے سے معذرت کرنے پر مجبور کیا ہے، وہاں وکلاء کی تحریک کے لیے بھی مہمیز کا کام دیا ہے اور ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس محترم جناب افتخار محمد چودھری کے اس بیان نے ان کی عزت و وقار میں مزید اضافہ کیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۸ء

عدلیہ کی بحالی اور اسلام کی بالادستی

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر نے، جو میرے چھوٹے بھائی اور گجرات کے محلہ حیات النبی میں جامع مسجد امام ابوحنیفہؒ کے خطیب ہیں، ۷ فروری جمعرات کو مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کی رہائش گاہ پر مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی ایک غیر رسمی مشاورت کا اہتمام کیا۔ ایجنڈا دو نکات پر مشتمل تھا: (۱) ایک یہ کہ عدلیہ کی بحالی اور دستور کی بالادستی کے لیے جو تحریک وکلاء کے فورم سے چل رہی ہے اس میں دینی حلقوں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ فروری ۲۰۰۸ء

جامعہ حفصہ کا معاملہ: مذاکرات کے مراحل

اب جبکہ لال مسجد اسلام آباد، جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا معاملہ مسلح حکومتی آپریشن کے بعد اس انجام کو پہنچ چکا ہے جو ملک کی مقتدر قوتوں کی خواہش تھی اور جس کے لیے گن گن کر دن گزارے جا رہے تھے، اس وقت جب میں اسلام آباد ہی میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، غازی عبد الرشید اپنی والدہ محترمہ اور دیگر بہت سے رفقاء سمیت جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف سرکاری فورسز کا آپریشن آخری مرحلہ میں ہے جس کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ چند گھنٹوں میں اپنے آخری نتیجے تک پہنچنے والا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲، ۱۶، ۱۷ جولائی ۲۰۰۷ء

سر جھکا کر اور سر اٹھا کر چلنے والوں کا فرق

چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی خبر سن کر مجھے یوں لگا جیسے کوئی ڈاکٹر ایمرجنسی آپریشن روم کے دروازے سے باہر جھانک کر مریض کے رشتہ داروں کو یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ مریض کی حالت خطرے سے باہر ہو گئی ہے اور اس نے اب سانس لینا شروع کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے اعلان سے قبل پوری قوم سکتے کے عالم میں تھی اور کان اسلام آباد کی طرف لگے ہوئے تھے کہ وہاں سے کیا خبر آتی ہے؟ عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے قوم کا رخ مایوسی سے امید کی طرف پھیر دیا ہے جس پر فل کورٹ کے تمام ارکان پوری قوم کی طرف سے مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جولائی ۲۰۰۷ء

سپریم کورٹ میں وفاق المدارس کی آئینی درخواست

میں اس وقت جدہ میں ہوں، پرسوں ۱۳ اگست کو عشاء کی نماز کے وقت یہاں پہنچا ہوں، یوم آزادی یہیں گزارا ہے اور آج ۱۵ اگست کو مدینہ منورہ روانہ ہونے سے قبل یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔ مولانا عبد العزیز کے بھانجے عامر صدیق اور ہمشیرگان محترمات کی پریس کانفرنس کی رپورٹ میں نے سفر کے دوران پڑھی ہے جس میں انہوں نے مولانا عبد العزیز کی طرف سے اپنے وکیل کی تبدیلی اور وفاق المدارس العربیہ کی جدوجہد پر اطمینان کے اظہار کا اعلان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان کے بعض نمائندے ان کے اور علمائے کرام کے درمیان اختلافات اور غلط فہمیوں کا باعث بنے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اگست ۲۰۰۷ء

اکابر علمائے کرام کا مشترکہ اعلامیہ

ملک کے تیس سرکردہ علمائے کرام نے، جن میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء شامل ہیں، اپنے مشترکہ اعلامیہ میں ملک کی عمومی صورتحال کا جو تجزیہ پیش کیا ہے اور اس کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ پاکستان کے ہر محب وطن شہری کے دل کی آواز ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی ایسی جگہ پر چلے جائیں جہاں عام لوگ مل بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیا کرتے ہیں، آپ کو اسی قسم کی باتیں سننے کو ملیں گی اور خیالات کی یکسانی اور ہم آہنگی کا یہ منظر آپ کو ہر جگہ اور ہر سطح پر نظر آئے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۸ء

آزادکشمیر کی دینی و سیاسی قیادتوں سے درخواست

میں آج آزاد کشمیر کے ایک بڑے شہر میں آپ حضرات کے سامنے اپنے دل کے درد کا ایک بار پھر اظہار کر رہا ہوں۔ اب سے ایک ماہ قبل منگ اور راولاکوٹ کے اجتماعات میں یہ گزارشات پیش کر چکا ہوں مگر صورتحال جوں کی توں ہے اس لیے دوبارہ عرض کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی صورتحال پر ایک سو سے زیادہ دن گزر چکے ہیں، لاکھوں لوگ آزاد نقل و حرکت کی سہولتوں سے محروم ہیں، ان کے شہری اور سیاسی حقوق معطل ہیں، جبر و تشدد کی فضا ہے، آزادیٔ رائے پر مسلسل پہرے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ نومبر ۲۰۱۹ء

کرتارپور راہداری اور قادیانی مذہب

ان دنوں کرتارپور راہداری کے بارے میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر اخبارات اور سوشل میڈیا پر اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی سرحد پر نارووال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کرتارپور ایک جگہ کا نام ہے جہاں تقسیم ملک سے قبل دونوں طرف آنے جانے کا راستہ ہوتا تھا۔ یہ راستہ تقسیم ہند کے وقت بند ہوگیا تھا جسے گزشتہ دنوں کھول دیا گیا ہے اور ۹ نومبر کو پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے اس کا افتتاح کیا ہے۔ یہاں سکھوں کا ایک بڑا گوردوارہ ہے جو ان کے اہم اور مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ نومبر ۲۰۱۹ء

جامعہ حفصہ کی طالبات کی جدوجہد ۔ چند سوالات

جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات کے مطالبات اور جدوجہد کے حوالے سے معاملات جس رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں اس سے کئی سنجیدہ سوالات نے جنم لیا ہے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات اسلام آباد میں ایک مسجد کے گرائے جانے اور متعدد دیگر مساجد کو غیر قانونی قرار دے کر ان کے گرانے کا نوٹس جاری ہونے پر بطور احتجاج شروع ہوئی تھی جس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے ایک سرکاری لائبریری پر احتجاجاً قبضہ کر لیا تھا۔ طالبات اور ان کے سرپرست مولانا عبد العزیز اور مولانا غازی عبد الرشید ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اپریل ۲۰۰۷ء

Pages