۱۰ دسمبر ۲۰۲۰ء
قرآن کریم، حدیث و سنت اور فقہ و شریعت کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کے بغیر دینی راہنمائی کا عمل ایسا ہی ہے جیسے طبی تعلیم و تربیت کے بغیر میڈیکل کا کوئی شعبہ کسی عملے کے حوالے کر دیا جائے، اور ہمارے ہاں اسی کا مسلسل تقاضا جاری ہے۔
۹ دسمبر ۲۰۲۰ء
سودی نظام کے بارے میں عالمی سطح پر جدید ترین ریسرچ بتا رہی ہے کہ معیشت میں عدم توازن کا اصل باعث یہی ہے، جس بنا پر بین الاقوامی معاشی ادارے قرآنی معاشی اصولوں کا حوالہ دے کر غیر سودی نظام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، مگر یہ بات قرآن کریم پر ایمان رکھنے والوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔
۸ دسمبر ۲۰۲۰ء
وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی درخواست مسترد کر دی ہے جسکا اصولی طور پر خیرمقدم ہی کیا کیا جائیگا، مگر مسلسل ٹال مٹول اور تاخیری حربوں نے بے اعتمادی کی جو فضا بنا دی ہے اس میں یہ خیرمقدم بھی تکلف لگتا ہے، کیا معزز عدالت اس پر بھی غور کر سکے گی؟
۷ دسمبر ۲۰۲۰ء
دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے قرآن و سنت کی طرف عملی واپسی کے بغیر فلاح و ترقی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور پاکستان کے قومی و معاشرتی نظام کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی دستور نے ضمانت دے رکھی ہے، اس لیے تمام طبقوں اور اداروں کو بالآخر اسی طرف لوٹنا ہو گا۔
۶ دسمبر ۲۰۲۰ء
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقی منزل (۱) بیرونی مداخلت سے آزادی، (۲) معاشی خودمختاری، اور (۳) دستور کی بالادستی و عملداری ہے۔ اس کے لیے جدوجہد کسی بھی فورم اور عنوان سے ہو، ہر محب وطن پاکستانی کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔
۵ دسمبر ۲۰۲۰ء
جن امور پر قرآن و سنت کے احکام صریح اور واضح ہیں ان میں اپنے طور پر کوئی قانون سازی کرنا شرعی قوانین و ضوابط کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کے تقاضوں سے بھی انحراف کے مترادف ہے، قانون بنانے والے اداروں کو یہ بات ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے۔
۴ دسمبر ۲۰۲۰ء
کرونا کے پھیلاؤ کا دوسرا راؤنڈ جس طرح تشویشناک بتایا جا رہا ہے اسے ہلکا سمجھ کر نظرانداز کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ اس کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل کر دینا بھی ٹھیک نہیں، احتیاطی تدابیر کے ساتھ معمولات زندگی جاری رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام ضروری ہے۔
۳ دسمبر ۲۰۲۰ء
دوسری قوموں کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے معاہدات کیے تھے، نبھائے تھے اور حالات تبدیل ہونے پر ختم بھی کیے تھے، مگر یہ مسلمانوں کا معاشرتی ماحول تبدیل کرنے کی بجائے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کا باعث بنے تھے۔ مسلم حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدات میں یہ پہلو بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے۔
۲ دسمبر ۲۰۲۰ء
مولانا فضل الرحمان کی جدوجہد کا اولین مقصد دستور کی بالادستی اور عملداری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ قومی سیاست میں علماء کرام کے متحرک کردار کا تسلسل قائم رکھنا بھی ہے۔ اور یہ وہ ملی ضرورت ہے جس کا دینی حلقوں کو ہر وقت ادراک و احساس رہنا چاہیے۔
یکم دسمبر ۲۰۲۰ء
دنیا میں اسلام کی دعوت اور تبلیغ کا سب سے مؤثر ذریعہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ اگر ہم ہدایت کے ان دو عظیم سر چشموں کی طرف نسلِ انسانی کی رہبری کر سکیں تو یہ اس دور میں اسلام کی صحیح خدمت ہو گی۔
۳۰ نومبر ۲۰۲۰ء
سودی نظام کے خاتمے کی جدوجہد دستوری تقاضا ہونے کے باوجود مسلسل کنفیوژن کا شکار ہے، اسی سے دستور کے دیگر شرعی تقاضوں کا حال معلوم کیا جا سکتا ہے اور ہمارے ہاں دستور کی بالادستی اور عملداری کی اہمیت کا صحیح طور پر اندازہ ہوتا ہے جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
۲۹ نومبر ۲۰۲۰ء
دینی استقامت، علمی ثقاہت، حریتِ فکر، جہدِ مسلسل، اعتدال و توازن، اور روحانیت کا ذوق دیوبندیت کے امتیازات ہیں۔ اسی لیے عالمِ کفر اس سے خائف ہے کہ وہ دین کے ہر پہلو کی طرف متوجہ رہتی ہے اور کسی حالت میں بھی میدان نہیں چھوڑتی۔
۲۸ نومبر ۲۰۲۰ء
کرونا کی دوسری لہر بھی کم تشویشناک نہیں ہے مگر باقی تمام شعبوں میں مناسب ایس او پیز کے ساتھ معمولات زندگی جاری رکھتے ہوئے صرف تعلیم کے شعبے کو معطل کر دینا قابلِ فہم نہیں ہے اور تعلیم کی اہمیت کو کم کرنے کے مترادف ہے جس پر بہرحال نظرثانی کی ضرورت ہے اور اس پر سنجیدہ توجہ درکار ہے۔
۲۷ نومبر ۲۰۲۰ء
اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ کے بغیر ہمارے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم اس میں جس قدر تاخیر اور ٹال مٹول کرتے رہیں گے معاملات کو مزید بگاڑنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
۲۶ نومبر ۲۰۲۰ء
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بار بار چھیڑنے کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کی شدت کو کم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، مگر موجودہ صورتحال میں اسے تسلیم کرنا امتِ مسلمہ کے اجتماعی موقف سے دستبردار ہونے کے مترادف ہو گا اور فلسطینیوں سے بے وفائی ہو گی۔
۲۵ نومبر ۲۰۲۰ء
زیادتی کے مجرموں کو نامرد کر دینے کا قانون اہلِ علم کی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں حکومت اور عوام کی راہنمائی کرے کہ کہیں یہ مجرم کے لیے توبہ و اصلاح کا دروازہ بند کرنے کے مترادف تو نہیں؟
۲۴ نومبر ۲۰۲۰ء
وفاقی وزیر انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری نے یہ کہہ کر ملت کے جذبات کی ترجمانی کی ہے کہ مغرب آزادی رائے کے نام پر منافقت کر رہا ہے، اسے فرانس کے صدر کی توہین برداشت نہیں ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کو آزادیٔ رائے قرار دیا جا رہا ہے۔
۲۳ نومبر ۲۰۲۰ء
فرانسیسی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے بارے میں جو اقدامات مبینہ طور پر سامنے آرہے ہیں وہ اس کے گستاخانہ طرز عمل پر ڈھٹائی کی علامت ہیں، اور اس کی وجہ او آئی سی اور بہت سی مسلمان حکمرانوں کی بے حسی بلکہ بے حمیتی ہے جس پر صدمہ اور افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔
۲۲ نومبر ۲۰۲۰ء
علامہ خادم حسین رضویؒ کا تاریخی جنازہ پاکستانی عوام کے والہانہ عشقِ رسولؐ کی علامت ہے، تحفظِ ختمِ نبوت و ناموسِ رسالتؐ کے سلسلہ میں فیصلہ کن عوامی ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے، اور پاکستان کی نظریاتی شناخت کے حوالہ سے عالمی و قومی حلقوں کو اپنے طرز عمل پر نظرِثانی کی دعوت دے رہا ہے۔
۲۱ نومبر ۲۰۲۰ء
انسانی حقوق کی عالمی مہم اس وقت دو الجھنوں کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ایک یہ کہ مذہبی اقدار اور انسانی حقوق کو بلاوجہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ انسانی حقوق کا اطلاق اور عملداری نسلی، مذہبی اور علاقائی تعصبات و ترجیحات کی نذر ہو چکے ہیں، جو لمحۂ فکریہ ہے۔
۲۰ نومبر ۲۰۲۰ء
علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی وفات سب اھل دین کےلئے صدمہ کاباعث ھے انا للہ واناالیہ راجعون انہوں نے تحفظ ناموس رسالت وختم نبوت کے محاذ پر جس جرآت وحوصلہ اور صبر واستقامت کا مسلسل مظاہرہ کیا ھے وہ لائق رشک وپیروی ھے اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں آمین یارب العالمین
۱۹ نومبر ۲۰۲۰ء
کرونا کی نئی لہر تشویشناک ہے اور انسانی جان و صحت کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اس سلسلہ میں ماہرین صحت اور متعلقہ محکموں کی ہدایات کی پابندی کا حتی الوسع اہتمام کرنا ضروری ہے اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہیے۔
۱۸ نومبر ۲۰۲۰ء
علماء کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات ۱۹۵۱ء اور دستور پاکستان ۱۹۷۳ء میں عوام کی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت اعلیٰ کو بنیاد بنایا گیا اور پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ یہ اگر جمہوریت ہے تو آمنا وصدقنا، مگر پاکستان کا ’’حکمران طبقہ‘‘ اسے قبول کرنے پر راضی نہیں۔
۱۷ نومبر ۲۰۲۰ء
جمہوریت کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ اکثریت کی رائے معلوم کرکے اس کے مطابق ملک کا نظام اور حکومت تشکیل دی جائے مگر کسی ملک کے عوام اسلامی نظام اور حکومت کے حق میں اکثریتی رائے دے دیں تو یہی جمہوریت اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے- اس سے "جمہوریت" کا اصل ایجنڈا معلوم کیا جا سکتا ہے۔
۱۶ نومبر ۲۰۲۰ء
تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں پر تشدد قابل مذمت ہے۔ (۱) تحفظ ناموس رسالتؐ (۲) تحفظ ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ (۳) اور دستور پاکستان کی بالادستی کی تحریکات ہماری ملی جدوجہد کا حصہ ہیں، ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار دینی تقاضوں میں سے ہے۔
۱۵ نومبر ۲۰۲۰ء
ایک طرف دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ جمہوریت اور سیاست کا راستہ اختیار کریں جبکہ دوسری طرف انہیں کہا جاتا ہے وہ سیاست میں مذہب کی بات نہ کریں گویا اصل مسئلہ سیاست و جمہوریت کے فروغ کا نہیں بلکہ اسلام کو روکنے کا ہے جیسا کہ آسٹریلیا کے حالیہ قانون سے ظاہر ہوتا ہے۔
۱۴ نومبر ۲۰۲۰ء
مظلوم کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے مظالم اور جبر و تشدد میں مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور ہماری سیاست کاری کا حصہ بھی کم نہیں ہے۔ ہم اسے مسلمانوں اور پاکستان کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے کشمیریوں کا مسئلہ قرار دے کر ڈیل کر رہے ہیں اور یہی سارے الجھاؤ کی جڑ ہے۔
۱۳ نومبر ۲۰۲۰ء
جب تک دستور کی بالادستی اور عملداری کے لیے سب ادارے اور طبقات سنجیدہ نہیں ہوتے قومی مشکلات و مسائل کے حل کی کوئی صورت نکلنے والی نہیں، اگر ہم فی الواقع مشکلات کے بھنور سے نکلنا چاہتے ہیں تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا ورنہ خدانخواستہ اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔
۱۲ نومبر ۲۰۲۰ء
نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کا احترام بحال کرائیں گے۔ بہت اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ وہ اعتماد کو بھی شامل کر لیں اور اس کے لیے سابق امریکی صدور جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن اور ابراھام لنکن کے موقف و کردار کو مشعلِ راہ بنا لیں تو یہ کام مشکل نہیں ہے۔
۱۱ نومبر ۲۰۲۰ء
اسلامی نظریاتی کونسل کے آئندہ چیئرمین کے لیے بعض دوستوں کی طرف سے میرے نام کی تجویز سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ اس اعتماد اور حسن ظن پر ان کا شکرگزار ہوں مگر میں ایسے مناصب کے ’’ایس او پیز‘‘ میں فٹ نہیں بیٹھتا، اس لیے گزارش ہے کہ اس تجویز کو یہیں ڈراپ کر دیا جائے، جزاکم اللہ۔
۱۰ نومبر ۲۰۲۰ء
فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ہماری ملّی حمیت کا تقاضہ ہے جو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ مگر اس میں یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ کوئی غیر متعلقہ فرم بلاوجہ اس کی زد میں نہ آ جائے جیسا کہ ’’لو برانڈ بسکٹس‘‘ کے بارے میں پہلے یہ سامنے آیا کہ یہ فرانسیسی کمپنی ہے مگر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ذمہ دار حضرات کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اس فرم کا فرانس سے تعلق نہیں ہے۔ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ غیر متعلقہ کمپنیوں کو تحقیق کے بغیر فرانسیسی تجارتی اداروں کی فہرست میں شامل کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ بہرحال غیرتِ ایمانی کا تقاضہ ہے کہ فرانسیسی تجارت کا بھرپور بائیکاٹ کر کے ایمانی جذبات کا اظہار کیا جائے اور ایسا کرنے والے مسلمان تبریک کے مستحق ہیں۔
۹ نومبر ۲۰۲۰ء
صدر ٹرومین نے اپنے خط میں شاہ عبد العزیز والی سعودی عرب سے کہا تھا کہ وہ عربوں سے اسرائیل کو تسلیم کرانے اور فلسطین کی تقسیم کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو قبول کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، ورنہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم نہ کرنے والوں پر مختلف ممالک متحد ہو کر فوج کشی بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں سعودی عرب کے فرمانروا اور شہزادہ عبد اللہ کے والد محترم ملک عبد العزیز آل سعود نے ٹرومین کو لکھا تھا کہ:
’’فلسطین کی جنگ کوئی پرانی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ بلکہ یہ اس کے اصل حقدار عرب قوم اور ان صہیونی جنگجوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد، جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم و نا انصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ممالک نے، نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا ہے جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہٰذا حالیہ لڑائی کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔‘‘
امریکی صدر ٹرومین کے نام سعودی فرمانروا ملک عبد العزیز آل سعود کا یہ خط دس ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ (فروری ۱۹۴۸ء) کا تحریر کردہ ہے۔ دونوں خطوط کا اردو ترجمہ مالیر کوٹلہ (بھارت) کے جریدہ ماہنامہ دارالسلام نے نومبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں شائع کیا تھا اور ہم نے بھی اسے ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے جنوری ۲۰۰۲ء کے شمارہ میں شائع کر دیا ہے۔
۸ نومبر ۲۰۲۰ء
راقم الحروف جب پنڈال میں داخل ہوا تو گوجرانوالہ کے اپنے محلہ ہی کے کچھ نوجوان مل گئے جو اپنے ٹھکانے پر لے گئے، وہاں لے جا کر بیٹھا تو حضرت مولانا جمشید صاحب اپنے مخصوص انداز میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمانوں سے مخاطب تھے اور یہ نکتہ سمجھا رہے تھے کہ انسانی زندگی کی گاڑی اپنے صحیح رخ پر اسی وقت چلے گی جب اسے کائنات کے خالق و مالک اور خود انسان کو تخلیق کرنے والی ذات ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی مرضی اور احکام کے مطابق چلایا جائے گا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مثال دی کہ ریل کا انجن بہت طاقتور ہے اور بہت سے ڈبوں کو کھینچ کر دوڑتا ہے لیکن وہ اتنا وزن لے کر اسی وقت دوڑے گا جب وہ اس پٹڑی پر چلے گا جو اس کے لیے بچھائی گئی ہے۔ اور اگر اسے اس پٹڑی سے ہٹ کر چلانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اپنا کام سرانجام نہیں دے سکے گا۔ اسی طرح انسانی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خطوط پر اسی کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق چلے گی تو کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کو پہنچے گی اور اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہدایات کی پٹڑی سے اتار کر اسے چلایا جائے گا تو فساد اور خرابی کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ (روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۱۷ نومبر ۱۹۹۹ء)
۷ نومبر ۲۰۲۰ء
امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد نتائج قبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے یہ وہی ہے جو امریکہ خود گزشتہ نصف صدی سے ترقی پذیر ممالک میں پوری پلاننگ کے ساتھ کرتا آ رہا ہے اور بجا طور پر اس عربی محاورے کا مصداق ہے کہ ’’من حفر بیرا لاخیہ فقد وقع فیہ‘‘ (جس نے اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودا وہ خود اس میں گرے گا)
۶ نومبر ۲۰۲۰ء
جدید علوم اور سائنسی تحقیقات کسی ایک مقام پر رکنے والی چیز نہیں ہے، اس کے نتائج آج سے ایک صدی قبل اور تھے، نصف صدی قبل اس سے مختلف ہو گئے تھے، آج ان سے بھی مختلف ہیں، اور آج سے نصف صدی بعد ان میں اور زیادہ فرق نمودار ہو چکا ہوگا۔ جبکہ وحی اپنے ایمانی حقائق اور بنیادی اخلاقیات کے حوالہ سے جس موقف پر دو ہزار سال قبل قائم تھی آج بھی اسی پر قائم ہے اور اب سے دو ہزار سال بعد بھی اس کا موقف وہی ہوگا۔ اس لیے اسے دن بدن نئے رخ اور مختلف نتائج سے روشناس ہونے والے جدید علوم کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کشمکش میں تو جدید علوم کو ہی بالآخر وحی الٰہی کی بالادستی کے سامنے جھکنا ہوگا کہ دونوں کا فطری مقام یہی ہے۔
۶ نومبر ۲۰۲۰ء
خوشاب میں توہین رسالت کے عنوان سے مبینہ طور پر ایک مسلمان بینک مینیجر کا قتل انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ قانون کو ہاتھ میں لینا غلط ہے اور کسی مسلمان کو ناموس رسالت کی آڑ میں ذاتی طور پر انتقام کا نشانہ بنانا اس سے بھی زیادہ مذموم عمل ہے۔ اور اس سے ان عناصر کے موقف کو قوت ملتی ہے جو قانون کے غلط استعمال کو بہانہ بنا کر توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو اس کی ذمہ داری بہرحال مسلکی تعصب میں اشتعال انگیزی کا رنگ دینے والے رہنماؤں پر ہو گی۔
۴ نومبر ۲۰۲۰ء
ناموس رسالتؐ کے تحفظ کی جدوجہد کا اصل محاذ بین الاقوامی ادارے ہیں کہ توہین رسالت کو ان سے جرم قرار دلوایا جائے۔ جس کی بنیادی ضرورت عالمی سطح پر بریفنگ، لابنگ اور ذہن سازی ہے، مگر اس کے لیے سرکاری یا پرائیویٹ طور پر کوئی فورم متحرک دکھائی نہیں دیتا اور یہی ہماری اصل پرابلم ہے۔
۳ نومبر ۲۰۲۰ء
ہمیں دنیا بھر میں ایسے کمینے دشمنوں کا سامنا ہے جو ہمارے بزرگوں اور مقدس ہستیوں کی اعلانیہ توہین کرتے ہیں اور پھر اسے اپنا حق قرار دے کر کمینگی کی انتہا کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہمارا واسطہ دنیا بھر میں ایسے مسلم حکمرانوں سے ہے جن کی اکثریت اسے اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھتی اور مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ حالانکہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا مسئلہ صرف علماء کرام اور تاجروں کا نہیں مسلم حکمرانوں کا بھی ہے۔ اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام اور مقدس شخصیات کے ناموس و حرمت کے لیے مشترکہ حکمت عملی اور لائحہ عمل طے کریں۔ (تحفظ ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر علماء کرام اور تاجروں کی مشترکہ احتجاجی ریلی سے خطاب)
۲ نومبر ۲۰۲۰ء
تاریخ کے ایک اسکالر نے سوال کیا ہے کہ حالات کو کسی شیخ الہندؒ کی تلاش ہے تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ عرض کیا کہ ہو سکتا ہے کوئی شیخ الہندؒ کسی مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، حکیم اجمل خانؒ، اور ڈاکٹر انصاریؒ کے انتظار میں ہو کہ سفر قافلہ مکمل ہونے پر ہی شروع ہوتا ہے۔ آج نہ صرف پاکستان کو بلکہ عالمِ اسلام اور امتِ مسلمہ کو اس قافلہ کے کردار کی ایک بار پھر ضرورت ہے، خدا کرے کہ ہمیں جلد یہ منظر دیکھنا نصیب ہو، آمین یا رب العالمین۔
یکم نومبر ۲۰۲۰ء
مولانا فضل الرحمان کی ہر بات کی تائید ضروری نہیں ہے مگر موجودہ حالات میں ان کا یہ موقف اور جدوجہد ہماری قومی و ملی ضرورت ہے کہ دستور کی بالادستی اور عملداری بہرحال قائم ہونی چاہیے اور تمام ریاستی اداروں کو دستور کے دائرے میں اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔
۳۱ اکتوبر ۲۰۲۰ء
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے ۱۲ ربیع الاول کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز میں جس محبت و عقیدت کا اظہار کیا ہے وہ ہر سال ہوتا ہے اور مسلمانوں کے جذبات و محبت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے باوجود اگر مغرب یہ سمجھتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو متاثر کر سکتا ہے تو فی الواقع مغرب کی فکر و دانش کے سائیکالوجی ٹیسٹ کی ضرورت ہے، ورنہ مغرب اس طرح اپنا اور مسلمانوں کا وقت ضائع کرتا رہے گا۔
۳۰ اکتوبر ۲۰۲۰ء
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر اقوام متحدہ کے نمائندے نے تشویش کا اظہار کیا ہے جو درست مگر کافی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کا اہتمام کرے، محض لیپاپوتی سے کام نہیں چلے گا۔
۳۰ اکتوبر ۲۰۲۰ء
بوسنیا کے بحران کے دوران ایک اخباری انٹرویو میں محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بڑی حسرت کے ساتھ کہا تھا کہ ’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافت عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے پاس ہم اپنے مسائل لے کر جا سکیں‘‘۔ یہ حسرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور خلافتِ اسلامیہ کی ضرورت و اہمیت کا بڑھتا ہوا احساس عالمِ اسلام کی دینی و علمی قیادتوں سے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کا تقاضا کر رہا ہے۔
۲۸ اکتوبر ۲۰۲۰ء
’’ہم ویٹی کن کو اس مرحلہ میں یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ وہ شاخوں اور پتوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے درخت کے اصل تنے اور جڑ کی طرف توجہ دے اور خدا، رسول اور آخرت کے بنیادی عقیدہ کی طرف نئی نسل کو واپس لانے کی کوئی صورت نکالے، اس کے بغیر نفسانی خواہشات کو شیطان کا جال بننے سے بچانا ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر اس کے لیے اصل اور خالص آسمانی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن کی نمائندگی اس وقت صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کر رہی ہے۔ لیکن کیا مسیحی دنیا کی مذہبی قیادت اپنی نوجوان نسل کو شیطانی اثرات کے دائرے سے نکالنے کے لیے اس حقیقت ثابتہ کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار ہو گی؟‘‘ (ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ فروری ۲۰۰۸)
۲۷ اکتوبر ۲۰۲۰ء
دارالعلوم زبیریہ دیر کالونی پشاور میں مولانا رحیم اللہ حقانی کے درس مشکوٰۃ کے دوران بم دھماکہ بدترین دہشت گردی ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ پس پردہ اس قسم کی مذموم حرکتیں کرنے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں، ان کو بے نقاب کر کے قانون کی زد میں لانا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، خاندانوں کو صبر جمیل عطا فرمائیں، اور ان بدترین دشمنوں کی حرکات سے ملک و قوم کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
۲۶ اکتوبر ۲۰۲۰ء
متحدہ اپوزیشن نے تو کوئٹہ کے عظیم الشان جلسہ میں مولانا فضل الرحمان کی قرارداد کی صورت میں فرانس کے افسوسناک گستاخانہ طرزعمل پر قوم کے جذبات کی ترجمانی کر دی ہے، مگر حکومت کا کام بیان دینا نہیں عملی اقدامات کرنا ہے، جس کا نہ صرف پاکستانی قوم کو بلکہ پورے عالم اسلام کو شدت سے انتظار ہے۔
۲۵ اکتوبر ۲۰۲۰ء
ترک صدر جناب رجب اردوان نے فرانسیسی صدر کے بارے میں جو بات کہی وہ مغرب کو برداشت نہیں ہوئی، مگر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں سے تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مغرب جو کچھ کہتا پھرے اسے اس کا حق سمجھ کر نہ صرف برداشت کیا جائے بلکہ اس کی ہاں میں ہاں بھی ملائی جائے۔ یہ مغربی فکر و دانش کا ’’نقطۂ عروج‘‘ ہے۔ فیا للعجب و یا للاسف۔
۲۴ اکتوبر ۲۰۲۰ء
دستور و قانون کی بالادستی اور عملداری کی بات سب ہی کرتے ہیں مگر اپنی اپنی تعبیر و تشریح کے دائرے میں اور گروہی ترجیحات و صوابدید کے ساتھ۔ جب تک ان خود ساختہ دائروں سے دستبردار ہو کر دستور کی اصل اساس قرآن و سنت کی حاکمیت عملاً تسلیم نہیں کریں گے دستور و قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی۔
۲۳ اکتوبر ۲۰۲۰ء
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جس پہلو سے بھی تذکرہ کیا جائے باعثِ برکت و سعادت ہے۔ مگر انسانی معاشرے کی ضروریات و مشکلات کو سامنے رکھ کر سیرتِ مبارکہ سے راہنمائی حاصل کرنا اور شخصی، خاندانی اور معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنا ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے جس پر خاص توجہ درکار ہے۔
۲۳ اکتوبر ۲۰۲۰ء
افغان راہنما انجینئر حکمت یار صاحب کا یہ کہنا سنجیدہ توجہ کا طالب ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے موجودہ حکومت کو مستعفی ہونا چاہیے اور یکطرفہ بمباری جاری رکھتے ہوئے صرف طالبان سے جنگ بندی کے مطالبہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
تمام متعلقہ اداروں اور حلقوں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور کوئی یکطرفہ امن فارمولا افغانستان پر مسلط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔