مقالات و مضامین

شیطان کی پیش قدمی او ر پا پائے روم

روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار جناب عبد اللہ طارق نے ۷ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہو نے والے اپنے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ میں بتایا ہے کہ رومن کیتھولک چرچ نے شیطان کی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس مقصد کے لیے حکمت عملی وضع کی جاری ہے جس کے تحت سینکڑوں روحانی عامل (Exorcists) ٹرینڈ کیے جائیں گے۔منصوبے کے تحت چرچ کا ہر بشپ اپنے ڈایومسسز میں پادریوں کا ایک گروہ ترتیب دے گا اور ان سب کو ایگزارسزم کی خصوصی مہارت دلوائی جائے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۸ء

جناب صدر! ہماری منزل یہ نہیں ہے

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۲ جنوری ۲۰۰۸ ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ دورۂ یورپ کے دوران یورپی یونین کے دارالحکومت بر سلز میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے غیر حقیقی معیار پر نہیں پرکھا جانا چاہیے‘‘۔ انہوں نے مغرب پر الزام لگایا ہے کہ اس پر جمہوریت کا بھوت سوار ہے اور کہا کہ ’’آپ لوگ جس معیار تک پہنچ چکے ہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں وقت درکار ہے اور یہ وقت ہمیں ملنا چاہیے‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۸ء

پاکستان پیپلز پارٹی کا قادیانی امیدوار

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ دسمبر ۲۰۰۷ ء کی ایک خبر کے مطابق عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم، نائب امیر حضرت مولانا سید نفیس الحسینی دامت برکاتہم اور ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری نے تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان کی صوبائی سیٹ پر ایک قادیانی امام بخش قیصرانی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ٹکٹ دیے جانے کی مذمت کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۸ء

امریکہ کا صدارتی امیدوار ’’باراک حسین اوباما‘‘

روزنامہ وقت لاہور ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ ء کی ایک خبر کے مطابق نیویارک کے سابق گورنر باب کیری نے آئندہ انتخاب کے ایک امریکی صدارتی امیدوار باراک اوباما سے اس بات پر معافی مانگ لی ہے کہ انہوں نے ایک اور صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے دوران باراک اوباما کے اسلامی تشخص کو نمایاں کرنے کی کوشش کی تھی۔ باب کیری نے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا ہے کہ انہوں نے باراک اوباما کو خط لکھا ہے جس میں ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران ان کے اسلامی تشخص کا ذکر کر کے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۸ء

حیا کا فطری جذبہ اور عریانی و فحاشی

روزنامہ وقت لاہور ۲۱ دسمبر ۲۰۰۷ ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکی اخبار ڈیلی سن کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ فلمی دنیا کی معروف سپر ماڈل سنڈی کرافورڈ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے نیم برہنہ ماڈلنگ سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے شعور کی منزل تک پہنچنے والے بچے اسے اس حالت میں دیکھیں، اس کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت میری بیٹی کا یا ۶ سال اور بیٹا پریسلے ۸ سال کا ہو گیا ہے وہ دونوں اس وقت شعور کی منزل پر پہنچ رہے ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ وہ میری ایسی ماڈلنگ دیکھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۸ء

موت کی سزا: اقوام متحدہ اور آسمانی تعلیمات

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے موت کی سزا ختم کرنے کی قرارداد منظور کر لی ہے جس میں دنیا بھر کے ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے قوانین میں موت کی سزا کو ختم کر دیں۔ روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ دسمبر ۲۰۰۷ ء کی ایک خبر کے مطابق یہ قرارداد ۵۴ کے مقابلہ میں ۱۰۴ ووٹوں سے منظور کی گئی ہے جبکہ ۲۹ ملکوں کے نمائندوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۸ء

منشیات کا فروغ اور حکومت کی ذمہ داری

روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۵ نومبر ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس پر قابو پانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں افیون کاشت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور اس سال ۴۰ میٹرک ٹن پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ افیون ہیروئن کی شکل میں قبائلی سرداروں اور پیشہ ور اسمگلروں کے ذریعے پاکستان میں سپلائی ہوتی ہے اور پھر دنیا کے مختلف ممالک میں سپلائی ہونے کے ساتھ ساتھ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

حیات عیسٰی علیہ السلام اور پنجاب ٹیکسٹ بور ڈ لاہور

اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے تھے، وہ اسی حالت میں دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور مدینہ منورہ میں وفات پاکر جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں مدفون ہوں گے۔ اس کے برعکس قادیانی امت ایک عرصہ سے اس عقیدہ کا پرچار کر رہی ہے کہ حضرت عیسٰیؑ وفات پا چکے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں؟

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۷ نومبر۲۰۰۷ء کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا ہے کہ اسلام مکمل دین ہے مگر مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے، اسلام میں چہرے کا پردہ ہے نہ سر کا، یہ محض معاشرتی رواج ہے، جبکہ حجاب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے تھا۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے یہ بھی کہا ہے کہ حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن میں موجود نہیں ہے، یہ تصور فقہاء حضرات کا ہے کہ مخصوص جرائم کی سزا کو حدود اللہ کہا جائے، وغیرہ ذٰلک ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

’’معتدل مسلمان‘‘ کا امریکی معیار

دہلی سے شائع ہونے والے جریدہ سہ روزہ دعوت کی ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں امریکہ کے تحقیقی ادارہ ’’راند‘‘ کے حوالہ سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی راہنماؤں کی طرف سے ’’اعتدال پسند مسلمانوں‘‘ کو مسلم ممالک میں آگے لانے او ر ’’انتہا پسندوں‘‘ کو کارنر کرنے کی جو پالیسی جاری ہے اور جس پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں اس میں ’’معتدل مسلمانوں‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے اور وہ کن حوالوں سے اعتدال پسند مسلمانوں اور انتہا پسند مسلمانوں کے درمیان امتیاز قائم کرتے ہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

تحریک طلبہ و طالبات

لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے افسوسناک سانحہ کے پس منظر میں پشاور میں ایک اجلاس کے دوران ’تحریک طلبہ و طالبات‘‘ کے نام سے ایک فورم کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے جس کے سربراہ حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ دامت برکاتہم کو منتخب کیا گیا ہے اور ان کی امارت میں صوبائی امراء اور دیگر ذمہ داروں کا تعین کرکے اسی رخ پر تحریک کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے خلاف آپریشن سے قبل موجود تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۷ء

لال مسجد کا سانحہ اور اقوام متحدہ

لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے خلاف حکومت کے وحشیانہ آپریشن کے بعد اس کی صدائے بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور مختلف اداروں میں اس کے اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب پر بحث جاری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے سو موٹو نوٹس اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے دائر کردہ رٹ کو غازی عبدالرشید شہیدؒ کے اہل خاندان کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے ساتھ جمع کرتے ہوئے اس کیس کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۷ء

اللہ تعالیٰ کے خلاف امریکی سینیٹر کا مقدمہ

نیویارک سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ نیویارک عوام نے ۲۱ تا ۲۷ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ امریکہ کی ریاست نبراسکا کے ایک سینیٹر ارتی چیمبر نے ڈگلس کاؤنٹی کی عدالت میں خدا پر مقدمہ دائر کر دیا ہے، اس نے اپنی درخواست میں الزام لگایا ہے کہ خدا نے اسے اور اس کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اوماہا کے سینیٹر نے کہا ہے کہ خدا نے زمین پر رہنے والے اربوں انسانوں کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں، تباہ کاریوں اور دہشت کے ذریعے دہشت زدہ کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۷ء

امریکہ میں دعوت اسلام اور تحفظ ختم نبوت کے تقاضے

نیویارک سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ پاکستان پوسٹ نے ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ نیویارک اسٹیٹ پولیس کے دو نوجوان افسروں نے اسلام کی سادگی اور تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ مین ہیٹن نارتھ زون کے ڈیٹیکٹو جیف فالکنر اور کمیونٹی آفیئرز کے لفٹیننٹ لمیونٹی جیسپرز نے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) کے مرکزی ہیڈ کوارٹر جمیکا کوئنز میں ایک افطار پارٹی کے موقع پر اسلام قبول کر لیا۔ پولیس افسران کے قبول اسلام کے وقت کافی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۷ء

سیدنا حضرت عیسٰی علیہ السلام اور قرآنی تعلیمات

جدہ سے شائع ہونے والے روزنامہ اردو نیوز نے ۲۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ برطانیہ کا ایک ٹی وی چینل آئی ٹی وی سیدنا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ایک خصوصی پروگرام پیش کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے جس میں حضرت عیسٰیؑ کو قرآن کریم کی نظر سے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دستاویزی فلم کی بنیادی بات یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ نہ تو مسیحا تھے اور نہ ہی انہیں مصلوب کیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۷ء

اسقاطِ حمل اور پاپائے روم

کیتھولک مسیحیوں کے عالمی پیشوا پاپائے روم پوپ بینڈیکٹ شانز دہم نے اسقاط حمل کو ایک بار پھر مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اسے انسانی حقوق میں شمار نہ کیا جائے۔ نیویارک سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ پاکستان پوسٹ نے ۱۳ تا ۱۹ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ پاپائے روم نے انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف یورپ کے سفارتکاروں اور نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسقاط حمل یکسر ناقابل قبول ہے اور اسے انسانی حقوق نہ سمجھا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۷ء

علمی و فکری جدوجہد کا سب سے اہم محاذ

امریکہ میں نائن الیون کے سانحہ کے بعد نہ صرف یہ کہ مسلمانوں میں دین سے تعلق کا رجحان بڑھ رہا ہے اور مساجد و مکاتب کی رونق میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ امریکی دانشوروں میں بھی یہ سوچ نمایاں ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ سوسائٹی اور ریاست سے مذہب کا تعلق منقطع کرنے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنے کی ضرورت ہے اور وہ مذہب ہی کے ذریعے پُر ہو سکتی ہے۔ واشنگٹن میں ایک مسلمان دانشور سے ملاقات ہوئی جو امریکی دانشوروں کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۷ء

حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کی یاد میں سیمینار

گزشتہ اتوار کو جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور میں حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کی یاد میں منعقدہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ مولانا رشید میاں صدارت کر رہے تھے، سینیٹر مولانا عطاء الرحمان مہمان خصوصی تھے اور بہت سے فاضل مقررین نے حضرت رحمہ اللہ تعالٰی کی دینی و قومی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا۔ اسی روز مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کی دختر کا نکاح تھا، میں جب وہاں سے فارغ ہو کر جامعہ مدنیہ پہنچا تو مولانا نعیم الدین کا خطاب جاری تھا اور وہ مولانا سید محمد میاںؒ کی علمی و دینی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۲۰۱۹ء

جکارتہ میں بین الاقوامی خلافت کانفرنس

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۱۳ اگست ۲۰۰۷ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں حزب التحریر کے زیراہتمام خلافت کے موضوع پر ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد ہوا ہے جس میں ستر ہزار افراد کے لگ بھگ علماء، اسکالرز اور دینی کارکنوں نے شرکت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حزب التحریر کے راہنماؤں نے کہا کہ یہ خلافت اسلامیہ کے قیام کا بہترین وقت ہے اور تمام مسلمانوں کو اس کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

پاکستان کا اسلامی تشخص اور غیر مسلم اقلیتیں

روزنامہ الجریدہ لاہور نے ۱۳ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں آن لائن کے حوالہ سے آل پاکستان مینارٹیز الائنس کے تحت لاہور میں منعقد ہونے والی ایک ریلی کی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں ’’۳۰ نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈز ‘‘کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ قومی یکجہتی ریلی کے عنوان سے یہ اجتماع لاہور میں مینار پاکستان کے سبزہ زار میں منعقد ہوا جس میں خبر کے مطابق تمام غیر مسلم اقلیتوں کے راہنماؤں نے شرکت کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

سانحہ لال مسجد کے اثرات اور دینی وسیاسی حلقوں کی ذمہ داری

سانحہ لال مسجد کے اثرات و نتائج جوں جوں سامنے آرہے ہیں ان کے اسباب و عوامل پر بحث و تمحیص کا سلسلہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کاروائی کا آغاز لال مسجد کے خلاف آپریشن کے دوران ہی کر دیا تھا، جبکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت مولانا سلیم اللہ خان اور سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں رٹ دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابی

برادر مسلم ملک ترکی میں ہونے والے عام انتخابات میں جناب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے اور وہ ساڑھے پانچ سو میں سے تین سو چالیس نشستیں جیت کر دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس سے قبل بھی ترکی میں اسی پارٹی کی حکومت تھی اور طیب اردگان اس کے وزیر اعظم چلے آرہے تھے لیکن حالیہ انتخابات میں ملک کے سیکولر حلقوں نے فوج کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ جس طرح طیب اردگان اور ان کی جماعت کے خلاف عوامی مظاہرے کیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۷ء

چیف جسٹس کی بحالی اور قوم کی توقعات

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف چار ماہ قبل دائر کیے جانے والے ریفرنس کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے جس کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض دوبارہ سرانجام دینا شروع کر دیے ہیں اور ملک بھر میں عدالت عظمیٰ کے اس تاریخی فیصلہ پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ اس سے کم و بیش ساڑھے چار ماہ قبل ان الزامات کی آڑ میں، جن کا صدارتی ریفرنس میں تذکرہ کیا گیا ہے، چیف جسٹس پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۷ء

لال مسجد کا سانحہ اور ہماری ذمہ داریاں

لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے سانحے نے پوری قوم کو غم اور صدمہ سے دو چار کر دیا ہے اور جس شخص کے سینے میں بھی گوشت کا دل ہے وہ اس المیہ پر مضطرب اور بے چین ہے۔ ۱۰ جولائی کی صبح کو عین اس وقت جبکہ حکومت اور غازی عبدالرشید شہیدؒ کے درمیان مذاکرات ایک مثبت نتیجے پر پہنچ چکے تھے، ان مذاکرات کو ملک کی مقتدر شخصیت نے ویٹو کر دیا اور پھر مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوتے ہی جس بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ کے اندر موجود افراد بالخصوص طالبات اور بچوں کو مسلح آپریشن کا نشانہ بنایا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۷ء

دینی مدارس کا حمیت وغیرت پر مبنی کردار

گزشتہ ماہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا تو ایک خوشگوار خبر سننے کو ملی، وہ یہ کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے دینی مدارس کی مالی امداد اور خطیر رقوم کے ذریعہ دینی مدارس کو تعاون کی حکومتی پیشکش کے جواب میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے پابندی لگا دی کہ وفاق سے ملحق کوئی مدرسہ سرکاری امداد قبول نہیں کرے گا اور سرکاری امداد قبول کرنے والے مدارس کا وفاق کے ساتھ الحاق ختم کر دیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۷ء

دو لڑکیوں کی باہمی شادی کا افسوسناک واقعہ

ان دنوں اخبارات میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں کا تذکرہ چل رہا ہے جنہوں نے آپس میں شادی رچا لی ہے، شہزینہ اور نازیہ نامی دو لڑکیوں نے ایک دوسرے کی محبت میں باہمی شادی کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک نے لڑکا بننے کے لیے آپریشن کرایا جس سے اس کے چہرے پر داڑھی وغیرہ کے آثار نمودار ہوئے اور دونوں نے آپس میں شادی کر لی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ داڑھی نمودار ہونے کے باوجود وہ ابھی تک لڑکی ہے تو خاندان کی طرف سے بات عدالت تک جا پہنچی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۷ء

بین المذاہب مکالمہ اور دینی مراکز کی ذمہ داری

روزنامہ جنگ لندن ۱۰ مئی ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ کے وزیر اعظم جناب ٹونی بلیئر ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے بعد ’’بین المذاہب مکالمہ‘‘ کو فروغ دینے کے لیے لندن میں ایک فاؤنڈیشن قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے ابتدائی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر ٹونی بلیئر کے خیال میں عالمی سطح پر کوئی ادارہ سنجیدگی کے ساتھ مکالمہ بین المذاہب یا انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے لیے کام نہیں کر رہا اس لیے انہوں نے یہ پروگرام ترتیب دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۰۷ء

بہائی مذہب اور عقیدۂ ختم نبوت

ماہنامہ نصرۃ العلوم کے اگست کے شمارے میں ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت راقم الحروف نے فلسطین کے وزیر اعظم محمود عباس کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کا تعلق بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق بہائی مذہب سے ہے جو اسلام سے منحرف گروہ ہے اور قادیانیوں کی طرح ختم نبوت کے عقیدہ کا انکار کرتے ہوئے مرزا بہاء اللہ شیرازی کی نبوت کا قائل ہے ۔ اس پر پشاور سے جناب مہربان اختری صاحب کا خط موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمود عباس بہائی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۳ء

زائد از ضرورت مکانات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش

اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش حال ہی میں قومی اخبارات کے ذریعہ منظر عام پر آئی ہے جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ مکانات کی تعمیر میں ضروریات کے حوالہ سے درجہ بندی کی جائے اور زائد از ضرورت مکان کی تعمیر پر پابندی عائد کی جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۳ء

پاکستان میں مروجہ قوانین کی تعبیر و تشریح

لاہور سے شائع ہونے والے مسیحی جریدہ ماہنامہ شاداب نے جولائی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ایک خبر شائع کی ہے جو علمی و دینی حلقوں کی خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ صائمہ نامی ایک مسیحی لڑکی نے گھر سے بھاگ کر ایک مسیحی نوجوان سے شادی کر لی جس پر لڑکی کی ماں نے عدالت میں اس لڑکے کے خلاف اغوا کا کیس درج کرا دیا اور ساتھ ہی یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی شادی مسیحی مذہب کے قوانین کے مطابق رسومات کی ادائیگی کے ساتھ نہیں ہوئی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۳ء

اسلام آباد کے مساج پارلر اور لال مسجد

لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک مساج پارلر پر چھاپہ مارا اور وہاں کام کرنے والی لڑکیوں اور کارکنوں کو یرغمال بنا کر لال مسجد میں لے آئے جن میں چین کے باشندے بھی تھے۔ اس پر اسلام آباد کی انتظامیہ نے لال مسجد کی انتظامیہ سے بات چیت کی اور اسلام آباد میں چین کے سفیر محترم بھی حرکت میں آئے جس پر لال مسجد کی انتظامیہ نے اسلام آباد کی انتظامیہ کے اس وعدہ پر ان یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے کہ اسلام آباد میں ان مساج پارلروں کو بند کر دیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۷ء

کیا مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین جرم نہیں ہے؟

روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۱۸ جون ۲۰۰۷ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکہ کے مذہبی آزادی کے بین الاقوامی کمیشن نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بش حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں پاکستان سے سرگرمی کے ساتھ رجوع کرے، اور کمیشن نے اس کے ساتھ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ فعل قرار دے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۷ء

عالمی استعمار کے روبوٹس اور افغان طالبان کا امتحان

افغان طالبان کی طرف سے کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات سے دوٹوک انکار پر اس بات پر اطمینان میں اضافہ ہوا ہے کہ تاریخ کا عمل اگرچہ سست رفتار ہے مگر اس کا رخ صحیح سمت ہے اور دھیرے دھیرے صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک عرصہ سے افغان طالبان پر یہ دباؤ تھا کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کریں یا کم از کم مذاکرات کے عمل میں اسے شمولیت کا موقع دیں، مگر امارت اسلامیہ افغانستان نے گزشتہ روز حتمی طور پر واضح کر دیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جنوری ۲۰۱۹ء

شکریہ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ!

گزشتہ دنوں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے اعلان پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک کالم میں ہم نے شکریہ ادا کیا تو بعض دوستوں نے اس پر الجھن کا اظہا رکیا، مگر اب اس سے بڑا ایک شکریہ ادا کرنے کو جی چاہ رہا ہے اس لیے ان احباب سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اپنے حالیہ دورۂ بغداد کے دوران صدر ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی پولیس مین کے کردار کے اختتام کا اعلان کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۲۰۱۸ء

عالم اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۳ اپریل ۲۰۰۷ء کی خبر کے مطابق لاہور کے ایک ہوٹل میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیشنل آفیئرز (پائنا) کے زیر اہتمام ’’اسلام اور مغرب کے مابین درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا جس میں قومی سطح کے بہت سے دانشوروں کے علاوہ اسپین سے یونیورسٹی آف بار سلونا کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر پری ویلا نووہ اور پروفیسر راحیل بیونو نے بھی خطاب کیا، مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کے اہم نکات یہ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۷ء

مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی

ہفت روزہ وزارت گوجرانوالہ نے ۲۴ اپریل ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں ’’آن لائن‘‘ کے حوالہ سے یہ خبر دی ہے کہ ممبئی بھائی ہائیکورٹ نے مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی کو جائز قرار دے دیا ہے۔ خبر کے مطابق مسلمان لڑکے عمر اور ہندو لڑکی پرانیکا کی شادی کو پرانیکا کے خاندان والوں نے قبول نہیں کیا اور اس شادی کے خلاف ہندو تنظیموں بجرل دل اور آر ایس ایس نے ممبئی ہائیکورٹ میں مقدمہ درج کرا دیا، جس میں ان کا موقف یہ تھا کہ عمر نے پرانیکا کو اغوا کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۷ء

مسئلہ فلسطین اور برطانوی وزیر خارجہ بالفور کا موقف

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۳ اپریل ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق اسرائیلی سپریم کورٹ نے فلسطینیوں کے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ۹ نومبر ۲۰۰۵ء کو اسرائیلی فوج نے ایک فلسطینی کو راہ چلتے شہید کر دیا تھا جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عرب ممالک نے صدائے احتجاج بلند کی، اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس احتجاج کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کو قتل کرنا جائز ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۰۷ء

حدود آرڈیننس کے خلاف خواتین کا مظاہرہ

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں تیس کے قریب این جی اوز کی خواتین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کیا اور حدود آرڈیننس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے بارے میں تمام امتیازی قوانین کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ اس سے قبل جسٹس ماجدہ رضوی کی سربراہی میں خواتین کمیشن کی طرف سے حدود آرڈیننس کی منسوخی کی سفارش سامنے آچکی ہے جس کی حمایت میں اس مظاہرہ کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۳ء

مسلم حکمرانوں کو مہاتیر محمد کی تلقین

روزنامہ اسلام لاہور سے ۱۷ ستمبر ۲۰۰۳ء کی خبر کے مطابق ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کوالالمپور میں نوجوان مسلمان راہنماؤں کی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مہارت اور ٹیکنالوجی حاصل کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو مغربی ترقی تک پہنچنا ہوگا تاکہ انہیں اسلام کی تضحیک اور تمسخر اڑانے سے روکا جا سکے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۳ء

کیا خلافت کا نظام ناقابل عمل ہے؟

صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں کمال اتاترک جیسی اصلاحات نافذ نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی خلافت کا نظام قابل عمل ہے ۔جہاں تک مصطفی کمال اتاترک جیسی اصلاحات کے نفاذ کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا نفاذ کسی بھی مسلمان ملک میں ممکن نہیں رہا، اس لیے کہ وہ اصطلاحات خود ترکی میں کامیابی کی منزل حاصل نہیں کر سکیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۳ء

مسیحی جوڑے کا نکاح اور لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ

ماہنامہ نصرت العلوم کے ستمبر کے شمارے میں ہم نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر کیا تھا جس میں ایک مسیحی جوڑے کے نکاح کے حوالہ سے کہا گیا تھا کہ چونکہ اقوام متحدہ کے منشور میں بالغ لڑکے اور لڑکی کو باہمی رضا مندی سے شادی کرنے کا حق دیا گیا ہے، اس لیے اگر وہ خود کو کورٹ میں میاں بیوی کے طور پر رجسٹرڈ کرا لیں تو ان کے لیے نکاح کے حوالہ سے مذہبی قوانین اور اور طریق کار کی پابندی ضروری نہیں رہتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۳ء

کرائے کے شوہر

نیویارک سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ ’’پاکستان پوسٹ‘‘ نے ۹ اکتوبر تا ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں سی این این کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ ماسکو میں کرائے پر شوہر فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ سروس کا آغاز ہوگیا ہے۔ نینا راکمانین نامی خاتون نے بے شوہر خواتین کے لیے ایک سروس شروع کی ہے جس کے تحت مذکورہ خواتین گھنٹوں، دنوں یا مہینوں کے حساب سے شوہر کرائے پر حاصل کرکے ان سے گھر کے ضروری کام کاج کرا سکیں گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۳ء

امریکہ میں دینی مصروفیات

میں ۱۹ ستمبر ۲۰۰۳ء سے امریکہ ہوں اور رمضان المبارک کے دوسرے ہفتہ کے دوران واپسی کا ارادہ ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی قریب ریاست ورجینیا کے علاقہ اسپرنگ فیلڈ میں دارالہدیٰ کے نام سے ایک دینی مرکز قائم ہے جس میں مسجد کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیم کا مکتب اور طالبات کے لیے اسکول بھی کام کر رہا ہے۔ اس کے بانی و منتظم مولانا الحمید اصغر نقشبندی کا تعلق بہاولپور سے ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۳ء

حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی قبر کی بے حرمتی

اخبارات میں ان دنوں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کی قبر کی بے حرمتی کے حوالہ سے احتجاج کی خبریں اور بیانات شائع ہو رہے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ تھانہ بھون (انڈیا) میں حضرت تھانویؒ کی قبر کی کچھ انتہا پسند ہندوؤں نے بے حرمتی کی ہے جس پر احتجاج کیا جا رہا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس واقعہ کا سرکاری طور پر نوٹس لے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۷ء

قرآن کریم کے چالیس پارے

سینٹ میں متحدہ حزب اختلاف نے وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف کے اس بیان کے خلاف تحریک التوا جمع کرا دی ہے جس میں انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیسری جماعت سے آٹھویں جماعت تک بچوں کو چالیس پارے پڑھائے جائیں گے تاکہ انہیں مدرسہ جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ تحریک التوا میں ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر تعلیم کے اس بیان سے پاکستانی قوم کو شدید دکھ ہوا ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۷ء

’’حسبہ بل‘‘ کی راہ میں رکاوٹیں

سرحد کی صوبائی اسمبلی کی طرف سے ’’حسبہ بل‘‘ کی دوبارہ منظوری کے بعد اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے گورنر سرحد کو اس وقت تک اس بل پر دستخط کرنے سے روک دیا ہے جب تک اس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کوئی فیصلہ نہیں کر دیتی۔ دوسری طرف سرحد کے وزیر اعلیٰ جناب محمد اکرم درانی نے کہا ہے کہ یہ بل سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق از سر نو ترتیب دیا گیا تھا اور اس میں اپوزیشن کی ترامیم کو بھی شامل کیا گیا ہے اس لیے اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۷

ایک نئے ’’حقوق نسواں بل‘‘ کی تیاریاں

’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ پارلیمنٹ کی منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد اب ایکٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے اور قانون کے طور پر ملک میں نافذ ہوگیا ہے۔ مگر حکمران طبقے اس ’’دھکا شاہی‘‘ میں کامیاب ہوجانے کے بعد بھی اندر سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کے ضمیر کی ملامت ان بیانات کی صورت میں مسلسل سامنے آرہی ہے جو وہ حدود شرعیہ اور دینی حلقوں کے بارے میں دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۰۷ء

پنجاب یونیورسٹی کا ’’عذر لنگ‘‘

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن آف پاکستان نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی شہادۃ العالمیہ کی سند کو ایم اے عربی و اسلامیات کے برابر تسلیم کر رکھا ہے اور اس کی بنیاد پر ملک کی متعدد یونیورسٹیاں وفاق المدارس کے فضلاء کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سہولت دے رہی ہیں۔ جبکہ پنجاب یونیورسٹی شہادۃ العالمیہ کی بنیاد پر ایک سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے کہ اس سند کے حامل کو تعلیمی مقاصد کے لیے ایم اے اسلامیات و عربی کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۴ء

گھر سے بھاگنے والی لڑکیاں اور لاہور ہائیکورٹ

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۰ مارچ ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس تصدق حسین گیلانی نے فیصل آباد کے ایک نو عمر جوڑے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لو میرج کیسوں میں عدالتوں کی ہمدردیاں والدین کے ساتھ ہوتی ہیں مگر قانون گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کا ساتھ دیتا ہے، ایسی صورتحال میں عدالتیں معاشرے میں شرمناک سمجھے جانے والے اس فعل کو روک سکتی ہیں اور نہ ایسے جوڑوں سے کوئی زبردستی کر سکتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۴ء

مدارس اور مغربی حکومتیں

دینی مدارس کے بارے میں مغربی ممالک کی دلچسپی اور سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مختلف ممالک کے سفارت کار، این جی اوز اور انسانی حقوق کے ادارے دینی اداروں کے ساتھ روابط اور ان کے حوالہ سے معلومات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مالی تعاون اور فنی امداد کی پیشکشیں ہو رہی ہیں، اصلاحات کی باتیں ہو رہی ہیں، مدارس کے جداگانہ تشخص اور کردار پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، انہیں اجتماعی دھارے میں لانے کے عزائم ظاہر کیے جا رہے ہیں اور انہیں معاشرہ کا ’’کارآمد حصہ‘‘ بنانے کی نوید سنائی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۰۴ء

Pages